قومی قبلے کا از سرِ نو تعین

اس حوالے سے پاکستان کا پرانا سیاسی اور سیکیورٹی فلسفہ بادی النظر میں بڑا منطقی نظر آتا ہے


Zaheer Akhter Bedari January 18, 2013
[email protected]

جنوری 2013ء کے پہلے ہفتے میں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس کے حوالے سے ایک اعلیٰ فوجی ذرایعے نے بتایا تھا کہ فوج نے اپنے روایتی ہدف میں تبدیلی کر لی ہے اور اب دہشت گردی کو ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھتی ہے اور اسے قوم و ملک کا اولین حل طلب مسئلہ سمجھتی ہے۔ فوجی قیادت کی یہ اپروچ اس لیے نئی سمجھی جا رہی ہے کہ پچھلے 65 برسوں میں اس اہم قومی ادارے کا سب سے بڑا مسئلہ بھارت رہا تھا اور ملک کے دائیں بازو کے لیے بھی بھارت ہی سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا۔

ملک کی ان دو بڑی فوجی اور سویلین طاقتوں کی نظریاتی ہم آہنگی کی وجہ اس خطے میں ایک ایسی سیاسی سرد جنگ جاری تھی جس میں دونوں ملکوں کے قومی وسائل کا ایک بڑا حصہ ضایع ہو رہا تھا۔ فوج اور سیاسی طاقتوں کی اس نظریاتی ہم آہنگی کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر تھا۔ کشمیر کے مسئلے کے دو پہلو ہیں ایک جمہوری دوسرا نظریاتی۔ جمہوری پہلو یہ ہے کہ کشمیر ایک ایسا متنازعہ علاقہ ہے جس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خود ارادی کے ذریعے تلاش کیا جانا چاہیے۔ دنیا بھر میں جہاں بھی اس قسم کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اسے رائے عامہ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہی جمہوری طریقہ کار ہوتا ہے۔

اس مسئلے کا دوسرا پہلو نظریاتی رہا ہے جو دو قومی نظریے پر استوار ہے یعنی کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے چونکہ تقسیم ہند بھی ان ہی بنیادوں پر ہوئی تھی لہٰذا کشمیر کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے بھارتی حکمرانوں کی کوتاہ نظری یہ رہی ہے کہ کشمیر کو بھارتی حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے قومی مفادات کے تناظر ہی میں دیکھنے کی کوشش کی۔

اس اپروچ کی وجہ سے بھارتی قیادت یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ اس کی اس اپروچ سے پورے خطے کے عوام میں پھیلی ہوئی غربت و افلاس پر کیا اثر پڑے گا اور دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان اس مسئلے کی وجہ سے جو ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو گی اس کے اقتصادی مضمرات کس قدر نقصان رساں ہوں گے۔ بھارتی قیادت اس حقیقت کو بھی سمجھنے سے قاصر رہی کہ اس مسئلے کی وجہ سے دونوں ملکوں میں مذہبی انتہا پسندی کو کس خوفناک حد تک فروغ حاصل ہو گا اور دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان پہلے سے موجود نظریاتی خلیج میں کس حد تک اضافہ ہو جائے گا۔

آج برصغیر ہند و پاکستان کو جس اقتصادی بدحالی کا سامنا ہے اور دونوں ملکوں کے 40 فیصد سے زیادہ انسان جس طرح غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اس کا سب سے بڑا سبب مسئلہ کشمیر ہے۔ آج مذہبی انتہا پسندی جس انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اس کا بھی ایک بڑا سبب مسئلہ کشمیر ہی سے جڑا ہوا ہے۔ بھارتی حکمران طبقہ ممبئی حملوں کو سر پر اٹھا کر ساری دنیا میں مذہبی انتہا پسندی کی ذمے داری جس طرح پاکستان پر ڈال کر اپنے جرائم، اپنی ذمے داریوں کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے ہوسکتا ہے دہشت گردی کے موجودہ تناظر میں وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے لیکن طاقت کی برتری کے جنگی اصولوں کے حوالے سے تاریخ بھارتی حکمران طبقے کو ہی مجرم قرار دے گی۔

اس حوالے سے پاکستان کا پرانا سیاسی اور سیکیورٹی فلسفہ بادی النظر میں بڑا منطقی نظر آتا ہے لیکن پاکستان کے سیاست کاروں نے نہ اس بھارت دشمنی کے فلسفے کے مضمرات کا ادراک کیا، نہ اس ملک کی فوجی قیادت نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ کشمیر کے حوالے سے نظریاتی راہ پر چلنے کے کس قدر سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی حکومتوں اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی اس مشترکہ نظریاتی سیاست اور قومی اہداف نے اس قدر گہری جڑیں پکڑ لیں کہ آج پاکستان جس خطرناک مذہبی انتہا پسندی کی زد میں ہے اس کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ وہی ذہنیت سیاست میں در آئی ہے اور دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاق رائے نہیں بن پا رہا ہے۔

ہماری سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ (ن) دوسری سب سے بڑی جماعت ہے۔ اس جماعت کی قیادت کا تعلق صنعتی شعبے سے ہے اور اس شعبے کو عموماً روشن خیال سمجھا جاتا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کی تباہ کاریوں کو روکنے کے حوالے سے مسلم لیگ نظریاتی خلفشار کا شکار ہے اور یہی حال ہمارے مغرب کی زندگی کے خوگر کپتان عمران خان کا ہے۔ کپتان صاحب کو ڈرون حملوں پر تو سخت اعتراض ہے لیکن دہشت گردی میں خیبر سے لے کر کراچی تک بہنے والا خون غریباں انھیں نظر آتا ہے، نہ اس بلا کے پھیلاؤ کے سنگین ترین نتائج کا انھیں ادراک ہے، نہ وہ اس قتل و غارت کے خلاف دھرنے دیتے نظر آتے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین نے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کیا لیکن اس خطے اور ساری دنیا کو مذہبی انتہا پسندی کی جس ہیبت ناک صورت حال کا سامنا ہے، اس میں ایک دوسرے پر غلطیوں کے الزامات لگانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ اب یہ مسئلہ صرف افغانستان، پاکستان یا ہندوستان کا نہیں رہا، یہ مسئلہ ساری دنیا، ساری انسانی برادری اور انسانی تہذیب کی بقا کا مسئلہ بن گیا ہے۔

اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی سپرپاور امریکا اس کے 48 اتحادی اور نیٹو کی طاقت سب اس مسئلے سے نمٹنے میں ناکام ہو گئے ہیں اور افغانستان کے حوالے سے امریکا کے سابق صدر بش کا دعویٰ ''فتح فتح اور فتح'' افغانستان کے پہاڑوں میں بے گور وکفن پڑا نظر آتا ہے۔ امریکا کی طاقت ہزاروں ایٹمی ہتھیاروں میں مضمر ہے اور دہشت گردوں کی طاقت خودکش حملوں میں پوشیدہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ امریکا کی ایٹمی طاقت ایسی سخت حفاظتی دیواروں میں محصور ہے جہاں پرندہ پر نہیں مار سکتا اور دہشت گردوں کی طاقت کوچہ و بازار میں دندناتی پھر رہی ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم نے فرمایا ہے کہ عسکری نظریے کو از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے 14 ویں ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ دہشت گردی سے موثر طور پر نمٹنے کے لیے سول اور فوجی اداروں کے درمیان موثر رابطوں کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر ریاستی عناصر ہمارے ملک پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں اور اس خطرے کا مقابلہ محض فوجی کارروائیوں سے نہیں کیا جا سکتا۔

اس خطرے سے نمٹنے کے لیے سیاسی عزائم اور عوامی حمایت لازمی ہے۔ کور کمانڈرز کانفرنس ایک طرح سے فوج کی قومی اسمبلی ہوتی ہے، اس قومی اسمبلی نے اپنا قبلہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہ ادارہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہے کہ ملک و قوم کو سب سے بڑا خطرہ انتہا پسندی سے ہے، اس فیصلے کے بعد اب گیند سیاستدانوں کے کورٹ میں آ گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے سیاستدانوں کے تحفظات سیاسی مفادات سے منسلک ہیں یا دہشت گردوں سے نظریاتی ہم آہنگی سے؟ یہ بڑا اہم سوال اس لیے ہے کہ اس سوال کے جواب سے سیاسی قبلے کا تعین ممکن ہے اگر سیاستدانوں کی فکری کجروی ختم نہیں ہوتی تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی ممکن نہیں ہو گی۔

مذاہب ہمیشہ سے انسان کی ضرورت رہے ہیں، حال میں بھی ہیں اور مستقبل میں بھی رہیں گے، لیکن اسے انسانوں کی اجتماعی بدقسمتی کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں بھی مذہب کے نام پر انسانوں کا خون بہتا رہا ہے، آج بھی بہہ رہا ہے۔ کیا مستقبل میں انسان کو خدا اور مذہب کے نام پر انسانوں کا خون بہانے سے روکا جا سکتا ہے؟ اس کے جواب سے انسانوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ لیکن مذہبی انتہا پسندی اور اس کی عسکری طاقت دہشت گردی مندرجہ بالا جواب کے راستے میں ایک نئی اور خطرناک دیوار کی طرح حائل ہو رہی ہے۔

پاکستان کی عسکری قیادت نے اس خطرے کے خلاف ایک واضح موقف کا اظہار کر دیا ہے اور اس حوالے سے بڑی قربانیاں بھی دے رہی ہے۔ لیکن ان قربانیوں کو بامعنی بنانے اور اسے بہتر اور روشن مستقبل کا وسیلہ بنانے کے لیے ہماری سیاسی ایلیٹ کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس کے نزدیک آج قوم و ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ ہمیں نہیں معلوم کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ''انتخابات'' قرار دینے والے قوم و ملک سے کتنے مخلص ہیں اور اپنے طبقاتی مفادات کتنے مخلص ہیں جن کا سامنا 65 برسوں سے عوام کر رہے ہیں اب بھی عوام ہی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان کا اور ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے اس سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے اور اس میں ان کی شرکت کس قدر ضروری ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔