درست انتخاب
اب عوام کی باری ہے کہ وہ بغیر کسی دباؤ کے پورا سچ دیکھے۔
مملکت خداداد پاکستان چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے،ایسے میں اس کو مخلص،نڈر، حوصلہ مند،ذہین،ہوشیار، تعلیم یافتہ، محب وطن، جفاکش،محنتی قیادت اور رہنماؤں کی ضرورت ہے۔ ایسے میں ہمارے دیہی اور شہری عوام کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ انتہائی بہادری، دلیری اور اعتماد کے ساتھ درست لوگوں کا انتخاب کریں۔
ہم پاکستان کی 64 سالہ تاریخ میں یہی دیکھتے ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت نے ہمیشہ نوکر شاہی اور آمروں کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر ملک کا بیڑہ غرق کردیا، صرف اپنے اثاثے، سرمایہ، جائیداد، بینک بیلنس میں تو اضافہ کیا مگر ملک اور قوم کوکچھ نہ دیا اور غریب عوام کو مہنگائی، پانی، بجلی، گیس، راشن، تعلیم، صحت کے بنیادی مسائل میں الجھا کر رکھا اور طاقت کے بل بوتے پر ووٹ حاصل کیے اور پھر NRO کے ذریعے دوبارہ اقتدار پر قابض ہوگئے۔ اس وقت ہمارے ملک کی تمام تر سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی حوالے سے کرپٹ اور بدنام ہیں، کوئی بھی اس قابل نہیں ہے کہ ملک کو سدھارنے کے لیے ان پر بھروسہ کیا جائے۔ ہم آزاد ملک میں رہتے ہیں مگر آزاد نہیں ہیں، غلامی کی ان زنجیروں کو ہم نے 64 سال بعد بھی نہیں توڑا۔
اب جب کہ اقتدار کے اختتام کا وقت قریب آگیا ہے لوگ وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں، عوام کو دوبارہ سبز باغ دکھائے جارہے ہیں، میڈیا کی آزادی اور عدلیہ کی آزادی تازہ ہوا کا جھونکا ضرور ہے مگر پاک سرزمین کو بچانے کے لیے ہمیں انقلاب کی ضرورت ہے، ایک ایسا انقلاب جو پاک سرزمین کو مخلص، ایماندار، محب وطن قیادت فراہم کرے، جو اپنے قومی اداروں اسٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے، پوسٹ آفس، بجلی، پانی، تعلیم، صحت کو بہتر سے بہتر بنائے، امن وامان کی صورت حال کے لیے پولیس کو فعال کرے، کرپشن کی سطح کو نیچے لائے۔ جب وہ ایک دوسرے کو آئینہ دکھاتے ہیں تو عوام شرمسار ہوجاتی ہے کہ انھوں نے کون سی قیادت منتخب کی تھی، آئینہ بھی ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ وہ بھی شرما جاتا ہے۔
روشن خیالی کے نعرے نے لوگوں کو بے وقوف بناکر ان کی حیا و شرم چھین لی۔ کیبل، انٹرنیٹ، موبائل، نیٹ ورک کی آزادی نے ملک و قوم کو مادر پدر آزاد کردیا ہے۔ بہرحال کمپیوٹر، انٹرنیٹ، کیبل، موبائل کے استعمال کو تو ہم بتدریج کنٹرول کرسکتے ہیں، مگر کرپشن کے ڈینگی، لوٹ مار کے کانگو پر قابو پانا مشکل ہے کیونکہ یہ تو ہمارے قائدین اور، ہماری نوکر شاہی میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے، ایسے میں اچھی قیادت ایک خواب، ایک خیالی پلاؤ ہے۔ پہلے چند لوگ کرپٹ تھے اب سب کرپٹ ہیں۔
مفاہمت، جمہوریت کے نام پر عوام کا خون نچوڑ لیا گیا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ 64 سالہ جدی پشتی سیاست دانوں کو کنارے لگاکر نئی قیادت لے کر آئیں۔ ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو خود انحصاری کو خود اعتمادی سے لاگو کرے، کشکول لے کر ادھر ادھر جانے کے بجائے اپنے ملک کے اداروں کو درست کرے۔ ایسی قیادت کو سامنے لائیں جو ملک میں آئین کے مطابق عوام کو بنیادی سہولیات بجلی، پانی، گیس، صحت، تعلیم، انصاف مہیا کرے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔
''ملک تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے، ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، ہم اس ملک کے ایک ایک انچ کا دفاع کریں گے، کوئی ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا''۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے ڈائیلاگ سن سن کر ہمارے کان پک چکے ہیں۔ ہمارے سیاست دان، حکمران، محافظ، یہ سب باتیں کرکے ہمیں بہلا دیتے ہیں، مگر کسی میں ہمت نہیں ہے کہ وہ ڈرون حملوں کو روک سکے۔ ہمیں امریکا یا دیگر سپر پاور کی غلامی کے بجائے اﷲ تعالیٰ کی بندگی کرنی چاہیے کیونکہ وہ اصل سپر پاور ہے، ہمیں اﷲ تعالیٰ نے ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے، مگر ہم ہوس اقتدار، ہوس زر میں اتنے بھوکے ہوگئے ہیں کہ ہمیں کچھ نظر نہیں آتا ہے۔
سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں مگر عمل کرتے ہوئے کہتے ہیں سب سے پہلے نوٹ کھپے۔ عوام کو بھی دلیرانہ فیصلہ کرنا ہوگا، نظام جب ہی بدلتا ہے جب چہرے ہی نہیں بلکہ خاندان بھی بدلیں۔ملک دشمنوں نے مسلمانوں کے خلاف ازل سے ہی سازشیں شروع کررکھی ہیں۔ اس لیے اسلام کے قلعہ پاکستان کو نیست و نابود کرنے کے لیے انھوں نے سیاست دانوں میں، نوکر شاہی میں، ایجنسیوں میں اپنے میر جعفر پیدا کردیے ہیں اور ان بکاؤ لوگوں نے عوام کو فرقہ واریت، لسانیت، صوبائیت، پارٹی بازی، سیاسی شعبدہ گری میں الجھا دیا ہے کہ عوام درست قیادت کا انتخاب ہی نہ کرسکی اور ملک سیاسی انارکی کا شکار رہا۔ یہی وجہ ہے کہ 64 سال میں نہ سیاسی استحکام آیا نہ معاشی استحکام آیا اور میرجعفروں، میر صادقوں نے عوام کی لاشوں پر اپنی تجوریاں بھریں۔
عوام کو اپنے اندر تبدیلیاں لانا ہوں گی، جاگیرداروں، وڈیروں کو ہٹا کر تعلیم یافتہ، مڈل کلاس، ہر مسئلے کو قریب سے جاننے والے افراد ہی ملک کو صحیح راستہ فراہم کرسکتے ہیں۔ آج ہم دنیا بھر میں بدنام ہیں کیونکہ ہم اپنے ملک میں قانون کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ ہمیں صرف ڈگری یافتہ نہیں بلکہ علم رکھنے والے افراد کا چناؤ کرنا ہوگا، خاندانی سیاست کا خاتمہ کرکے نئے ابھرتے ہوئے سورج کی روشنی کو چمکانا ہوگا تو پھر پاکستان اس روشنی سے منور ہوسکتا ہے۔
آج 2013 میں تبدیلی کے نام پر وہی پرانا گیم کھیلا جارہا ہے۔ میڈیا کی آزادی نے عوام کو آدھا سچ دکھادیا ہے، اب عوام کی باری ہے کہ وہ بغیر کسی دباؤ کے پورا سچ دیکھے۔ اور فیصلہ کریں کہ لوگ وہی ہیں پارٹی تبدیل کرنے سے ان کا مزاج تبدیل ہوگا اور نہ ہی ان کی حرکتیں۔ ہم 64 سال میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح جیسا ایمان، اتحاد اور تنظیم والا لیڈر پیدا نہیں کرسکے، ہم یہ سب کچھ کرسکتے ہیں اس کے لیے جذبے کی ضرورت ہے اور جذبے کے لیے ہوش مند، مخلص اور دلیرانہ سوچ چاہیے۔ ''شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے''۔ آج امریکا ہمارے ملک میں ریمنڈ ڈیوس، بلیک واٹر کے نام سے دندناتا پھرتا ہے ، ہمارے ملک میں اسامہ کو مار کر چلا جاتا ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔
سانحہ ایبٹ آباد نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکادیا ہے اور ہماری حکومت نے امریکا کے آگے سر جھکادیا ہے۔ انسانی حقوق کا چیمپئن امریکا ہماری سرحدوں پر دراندازی کرتے نہیں تھکتا، بے گناہوں پر ڈرون حملے کیے جاتے ہیں۔ جب تک ہماری نوکر شاہی کا اثر ورسوخ سیاست پر کم نہیں ہوگا اس وقت تک نئی اور اچھی قیادت آہی نہیں سکتی۔ ہمیں بھی مصر، شام، لیبیا جیسے انقلاب کی ضرورت ہے جب ہی ملک کو ایک نئی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی سازشوں کو ناکام بنائیں جو پاک سرزمین کے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں۔ اس لیے اپنے رہنماؤں کو پہچانیے اور درست لوگوں کا انتخاب کریں۔