سوال یہ ہے۔۔۔۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ کو فراموش کردیتی ہیں ان کا جغرافیہ بدل جاتا ہے۔
ہمیں امریکا اور امریکیوں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ گرین کارڈ کے حصول یا امریکا کی سیر کی خواہش نے ہمارے ذہن و قلب میں کبھی جنم نہیں لیا۔ مگر بعض امریکی لکھاریوں کی تحریروں نے ہمیں متاثر ضرورکیا ہے۔ مثلاً امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ اور ان کی اعلیٰ درجے کی شاعری۔ ان کی ایک شہرہ آفاق نظم کا درج ذیل بند تو گویا ہمارے دل و دماغ کی لوح پر کندہ ہے:
The woods are lovely, dark and deep,
But i have promises to keep,
And miles to go before I sleep,
And miles to go before I sleep,
افسوس کہ یہ کالم سپرد قلم کرتے وقت فراسٹ کی اس معرکۃ الآراء نظم کا وہ اردو ترجمہ ہمیں دستیاب نہیں ہے جو ہمارے عزیز دوست اور نابغہ روزگار دلاور نگار صاحب نے ہماری خصوصی فرمائش پر منتخب انگریزی نظموں کے منظوم رواں تراجم پر مشتمل اپنی بے مثل کتاب ''خوشبو کا سفر'' میں شامل کی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس عظیم کارنامے کو سرانجام دینے کا بیڑہ بھی انھوں نے اس ناچیز کی تجویز پر ہی اٹھایا تھا۔ ہم نے یہ تجویز انھیں کیوں پیش کی تھی اور کن حالات میں پیش کی تھی اس کی عقدہ کشائی کا یہ موقع محل نہیں ہے۔ تاہم ہمارا دل اس بات سے ہمیشہ مطمئن رہے گا کہ جو مقصد اس وقت پیش نظر تھا وہ حاصل ہوگیا اور اس بہانے سے ایک بہت بڑا کام بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ افسوس کہ یہ کتاب جو دلاور نگار صاحب نے اپنی محبت بھری تحریر اور دستخط کے ساتھ ہمیں دی تھی ہم سے misplace ہوگئی ہے، جو کسی انمول خزانے کے گم ہوجانے سے بھی بڑھ کر ہے۔ اگر ہمارے باذوق قارئین میں سے کوئی صاحب یہ گم شدہ خزانہ فراہم کردیں تو ہم ان کے ممنون رہیں گے۔ فراسٹ کی اس نظم نے ہندوستان کے مشہور و معروف وزیر اعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو کو بھی اس حد تک متاثر کیا تھا کہ انھوں نے اسے اپنی میز پر شیشے کے نیچے سجا اور سنبھال کر رکھا تھا۔
اگرچہ آزادی کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے سیاسی سفر کا آغاز ایک ہی ساتھ ہوا تھا لیکن ہندوستان اس اعتبار سے خوش قسمت تھا کہ اسے زیادہ تعداد میں اور زیادہ عرصے تک مخلص اور لائق قیادت میسر رہی جب کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کچھ ہی عرصے بعد رحلت فرماگئے اور ان کے بعد ان کے جانشین وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک گہری اور سوچی سمجھی مذموم سازش کے تحت دشمنانِ پاکستان نے شہید کردیا جس کے نتیجے میں یہ قوم مسلسل نقصان پر نقصان اور خمیازے پر خمیازہ بھگت رہی ہے۔ بانیان پاکستان کا سایہ شفقت سر سے کیا اٹھا گویا یہ عظیم ملک ہمیشہ کے لیے یتیم ہوگیا جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ''منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے'' اس کے بعد وہ سب کچھ ہوا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حتیٰ کہ ملک دولخت ہوگیا اور احساس زیاں اس حد تک بڑھ گیا کہ لیڈر اور عوام دونوں ہی سانحہ سقوط پاکستان کو فراموش کر بیٹھے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم نے زندگی کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے خواتین وحضرات سے 16 دسمبر کو یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس دن کیا ہوا تھا مگر افسوس صد افسوس کہ ان میں سے کسی کو بھی یہ یاد نہیں تھا کہ وطن عزیز اس روز اپنے مشرقی بازو سے محروم ہوگیا تھا۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ کو فراموش کردیتی ہیں ان کا جغرافیہ بدل جاتا ہے۔ 1971ء میں ہمارے ساتھ حرف بہ حرف یہی ہوا مگر ہمارے لیڈران کرام اور ہمارے عوام دونوں میں سے کسی نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ انتہا تو یہ ہے کہ 1971 کے بعد پیدا ہونے والی ہماری نئی نسل کو اس سانحے کا پتہ بھی نہیں ہے۔ ہمارا حکمراں طبقہ دن رات لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے تو دوسری جانب حزب اختلاف پر مشتمل گروہ اقتدار پر قابض ہونے کی جستجو میں ہے۔ ایک طرف جاگیردار ہیں تو دوسری جانب سرمایہ دار ہیں اور دونوں کے دونوں اپنی اپنی تجوریاں بھرنے کے چکر میں ہیں۔ حکام پر مشتمل طبقہ اس سنہری موقعے سے خوب خوب فائدہ اٹھارہا ہے جب کہ بے بس اور بے کس عوام تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔ اگرچہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکمرانی کے اختتام کو اب محض گنتی کے چند روز ہی باقی رہ گئے ہیں لیکن وطن عزیز اپنی 65 سالہ تاریخ کے بدترین حالات کا شکار ہے۔ ہر طرف لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ نہ کسی کی جان محفوظ ہے اور نہ مال۔ ہر طرف طوائف الملوکیت کا سماں ہے۔ اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور کمر توڑ مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود سے کسی بھی لیڈر کو کوئی دلچسپی اور سروکار نہیں ہے۔ ہر طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے، ملک کو آزاد ہوئے چھ عشروں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلی آنے کے بجائے مسائل و مصائب میں مسلسل اضافے پر اضافہ ہی ہورہا ہے۔ طبقاتی اور لسانی تقسیم در تقسیم نے ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ملک غریب سے غریب تر ہورہا ہے اور دوسری جانب ہمارے حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات میں کمی کے بجائے بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔
ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس میں شہنشاہوں والے ٹھاٹ باٹ ہیں جہاں کے اخراجات اربوں روپے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس سال اس میں 21 تا 28 فیصد اضافہ بھی کردیا گیا ہے۔ قومی خزانے کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹا جارہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ کہلانے والے اس ملک میں نہ کسی کو اسلام کا لحاظ ہے اور نہ جمہوریت کا۔ دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا کسی کو خیال ہی نہیں ہے۔ اس پر ہمیں ایران کا ایک مشہور بادشاہ جمشید یاد آرہا ہے جو اپنے جام جم کے حوالے سے بہت جانا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ اس کا گزر ایک چشمے کی جانب ہوا جس کے نزدیک ایک پتھر پڑا ہوا تھا۔ یکایک اس کی نظر اس پتھر پر پڑی جس پر یہ تحریر کندہ تھی ''میری طرح اس چشمے پر بڑے بڑے لوگ آئے ہوں گے لیکن پلک جھپکتے ہی ٹھہر کر چلے گئے ہوں گے، حکومت بڑی بہادری سے حاصل کی جاتی ہے لیکن قبر میں اکیلے ہی جانا پڑتا ہے۔''
ایسی ہی سبق آموز ایک اور حکایت ہے۔ ''ایران کا ایک مشہور بادشاہ دارا ایک مرتبہ شکار کے لیے نکلا تو اپنے لشکر سے بچھڑ گیا۔آخر تھک ہار کر ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گیا اور اپنے ساتھیوں کا انتظار کرنے لگا۔ اس دوران میں اسے ایک آدمی دور سے آتا ہوا نظر آیا۔ بادشاہ نے اسے دشمن سمجھ کر تیر کمان پر چڑھالیا۔ تب اس شخص نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی کہ حضور! میں تو آپ کے گھوڑوں کا رکھوالا ہوں اور اس سے قبل کئی بار آپ کے دربار میں حاضری دے چکا ہوں اور آپ کے ہزاروں گھوڑوں میں سے ایک ایک کو خوب اچھی طرح جانتا اور پہچانتا ہوں۔ مگر اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے کیونکہ محافظ ہونے کی حیثیت سے یہ میرا فرض ہے۔ لیکن گستاخی معاف! آپ بھی تو عوام کے رکھوالے ہیں، پھر کیوں آپ کو اپنے عوام کی پہچان نہیں ہے؟''
اسی طرح عراق کے کسی بادشاہ کا قصہ ہے جس کے محل کے نیچے ایک فقیر نے آواز لگائی کہ ''اے بادشاہ! تو اور میں دونوں ربّ کی بارگاہ میں فقیر ہی ہیں۔ اس لیے بارگاہ کی پیشی کو یاد کر اور اپنے در دولت پر آنے والے ضرورت مندوں کی حاجت پوری کرنے کا خیال کر، ایک فقیر تیرے در پر گرمی کی تپش سے جل رہا ہے اور تو دوپہر کو آرام سے سو رہا ہے، یاد رکھ، اگر تو نے آج ہمیں انصاف نہ دیا تو اﷲ تعالیٰ تو ضرور انصاف دے گا۔'' خلیفہ ثانی سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے حکمراں کی حیثیت سے اپنی ذمے داری قبول کرتے ہوئے بڑا تاریخی فقرہ اپنی زبان سے ادا کیا تھا کہ ''اگر فرات کے کنارے رات کو کوئی کتا بھی بھوکا سو گیا تو عمر اس کا ذمے دار ہوگا۔''
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پڑوسی برادر ملک ایران کے عوامی صدر احمدی نژاد کی جیتی جاگتی مثال ہمارے سامنے موجود ہے جو سرتاپا سادگی کا پیکر اور عوامی خدمت گار ہونے کا قابل تقلید نمونہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے قائدین ایسے حکمرانوں کی پیروی کیوں نہیں کرتے؟
The woods are lovely, dark and deep,
But i have promises to keep,
And miles to go before I sleep,
And miles to go before I sleep,
افسوس کہ یہ کالم سپرد قلم کرتے وقت فراسٹ کی اس معرکۃ الآراء نظم کا وہ اردو ترجمہ ہمیں دستیاب نہیں ہے جو ہمارے عزیز دوست اور نابغہ روزگار دلاور نگار صاحب نے ہماری خصوصی فرمائش پر منتخب انگریزی نظموں کے منظوم رواں تراجم پر مشتمل اپنی بے مثل کتاب ''خوشبو کا سفر'' میں شامل کی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس عظیم کارنامے کو سرانجام دینے کا بیڑہ بھی انھوں نے اس ناچیز کی تجویز پر ہی اٹھایا تھا۔ ہم نے یہ تجویز انھیں کیوں پیش کی تھی اور کن حالات میں پیش کی تھی اس کی عقدہ کشائی کا یہ موقع محل نہیں ہے۔ تاہم ہمارا دل اس بات سے ہمیشہ مطمئن رہے گا کہ جو مقصد اس وقت پیش نظر تھا وہ حاصل ہوگیا اور اس بہانے سے ایک بہت بڑا کام بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ افسوس کہ یہ کتاب جو دلاور نگار صاحب نے اپنی محبت بھری تحریر اور دستخط کے ساتھ ہمیں دی تھی ہم سے misplace ہوگئی ہے، جو کسی انمول خزانے کے گم ہوجانے سے بھی بڑھ کر ہے۔ اگر ہمارے باذوق قارئین میں سے کوئی صاحب یہ گم شدہ خزانہ فراہم کردیں تو ہم ان کے ممنون رہیں گے۔ فراسٹ کی اس نظم نے ہندوستان کے مشہور و معروف وزیر اعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو کو بھی اس حد تک متاثر کیا تھا کہ انھوں نے اسے اپنی میز پر شیشے کے نیچے سجا اور سنبھال کر رکھا تھا۔
اگرچہ آزادی کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے سیاسی سفر کا آغاز ایک ہی ساتھ ہوا تھا لیکن ہندوستان اس اعتبار سے خوش قسمت تھا کہ اسے زیادہ تعداد میں اور زیادہ عرصے تک مخلص اور لائق قیادت میسر رہی جب کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کچھ ہی عرصے بعد رحلت فرماگئے اور ان کے بعد ان کے جانشین وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک گہری اور سوچی سمجھی مذموم سازش کے تحت دشمنانِ پاکستان نے شہید کردیا جس کے نتیجے میں یہ قوم مسلسل نقصان پر نقصان اور خمیازے پر خمیازہ بھگت رہی ہے۔ بانیان پاکستان کا سایہ شفقت سر سے کیا اٹھا گویا یہ عظیم ملک ہمیشہ کے لیے یتیم ہوگیا جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ''منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے'' اس کے بعد وہ سب کچھ ہوا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حتیٰ کہ ملک دولخت ہوگیا اور احساس زیاں اس حد تک بڑھ گیا کہ لیڈر اور عوام دونوں ہی سانحہ سقوط پاکستان کو فراموش کر بیٹھے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم نے زندگی کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے خواتین وحضرات سے 16 دسمبر کو یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس دن کیا ہوا تھا مگر افسوس صد افسوس کہ ان میں سے کسی کو بھی یہ یاد نہیں تھا کہ وطن عزیز اس روز اپنے مشرقی بازو سے محروم ہوگیا تھا۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ کو فراموش کردیتی ہیں ان کا جغرافیہ بدل جاتا ہے۔ 1971ء میں ہمارے ساتھ حرف بہ حرف یہی ہوا مگر ہمارے لیڈران کرام اور ہمارے عوام دونوں میں سے کسی نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ انتہا تو یہ ہے کہ 1971 کے بعد پیدا ہونے والی ہماری نئی نسل کو اس سانحے کا پتہ بھی نہیں ہے۔ ہمارا حکمراں طبقہ دن رات لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے تو دوسری جانب حزب اختلاف پر مشتمل گروہ اقتدار پر قابض ہونے کی جستجو میں ہے۔ ایک طرف جاگیردار ہیں تو دوسری جانب سرمایہ دار ہیں اور دونوں کے دونوں اپنی اپنی تجوریاں بھرنے کے چکر میں ہیں۔ حکام پر مشتمل طبقہ اس سنہری موقعے سے خوب خوب فائدہ اٹھارہا ہے جب کہ بے بس اور بے کس عوام تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔ اگرچہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکمرانی کے اختتام کو اب محض گنتی کے چند روز ہی باقی رہ گئے ہیں لیکن وطن عزیز اپنی 65 سالہ تاریخ کے بدترین حالات کا شکار ہے۔ ہر طرف لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ نہ کسی کی جان محفوظ ہے اور نہ مال۔ ہر طرف طوائف الملوکیت کا سماں ہے۔ اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور کمر توڑ مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود سے کسی بھی لیڈر کو کوئی دلچسپی اور سروکار نہیں ہے۔ ہر طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے، ملک کو آزاد ہوئے چھ عشروں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلی آنے کے بجائے مسائل و مصائب میں مسلسل اضافے پر اضافہ ہی ہورہا ہے۔ طبقاتی اور لسانی تقسیم در تقسیم نے ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ملک غریب سے غریب تر ہورہا ہے اور دوسری جانب ہمارے حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات میں کمی کے بجائے بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔
ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس میں شہنشاہوں والے ٹھاٹ باٹ ہیں جہاں کے اخراجات اربوں روپے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس سال اس میں 21 تا 28 فیصد اضافہ بھی کردیا گیا ہے۔ قومی خزانے کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹا جارہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ کہلانے والے اس ملک میں نہ کسی کو اسلام کا لحاظ ہے اور نہ جمہوریت کا۔ دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا کسی کو خیال ہی نہیں ہے۔ اس پر ہمیں ایران کا ایک مشہور بادشاہ جمشید یاد آرہا ہے جو اپنے جام جم کے حوالے سے بہت جانا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ اس کا گزر ایک چشمے کی جانب ہوا جس کے نزدیک ایک پتھر پڑا ہوا تھا۔ یکایک اس کی نظر اس پتھر پر پڑی جس پر یہ تحریر کندہ تھی ''میری طرح اس چشمے پر بڑے بڑے لوگ آئے ہوں گے لیکن پلک جھپکتے ہی ٹھہر کر چلے گئے ہوں گے، حکومت بڑی بہادری سے حاصل کی جاتی ہے لیکن قبر میں اکیلے ہی جانا پڑتا ہے۔''
ایسی ہی سبق آموز ایک اور حکایت ہے۔ ''ایران کا ایک مشہور بادشاہ دارا ایک مرتبہ شکار کے لیے نکلا تو اپنے لشکر سے بچھڑ گیا۔آخر تھک ہار کر ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گیا اور اپنے ساتھیوں کا انتظار کرنے لگا۔ اس دوران میں اسے ایک آدمی دور سے آتا ہوا نظر آیا۔ بادشاہ نے اسے دشمن سمجھ کر تیر کمان پر چڑھالیا۔ تب اس شخص نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی کہ حضور! میں تو آپ کے گھوڑوں کا رکھوالا ہوں اور اس سے قبل کئی بار آپ کے دربار میں حاضری دے چکا ہوں اور آپ کے ہزاروں گھوڑوں میں سے ایک ایک کو خوب اچھی طرح جانتا اور پہچانتا ہوں۔ مگر اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے کیونکہ محافظ ہونے کی حیثیت سے یہ میرا فرض ہے۔ لیکن گستاخی معاف! آپ بھی تو عوام کے رکھوالے ہیں، پھر کیوں آپ کو اپنے عوام کی پہچان نہیں ہے؟''
اسی طرح عراق کے کسی بادشاہ کا قصہ ہے جس کے محل کے نیچے ایک فقیر نے آواز لگائی کہ ''اے بادشاہ! تو اور میں دونوں ربّ کی بارگاہ میں فقیر ہی ہیں۔ اس لیے بارگاہ کی پیشی کو یاد کر اور اپنے در دولت پر آنے والے ضرورت مندوں کی حاجت پوری کرنے کا خیال کر، ایک فقیر تیرے در پر گرمی کی تپش سے جل رہا ہے اور تو دوپہر کو آرام سے سو رہا ہے، یاد رکھ، اگر تو نے آج ہمیں انصاف نہ دیا تو اﷲ تعالیٰ تو ضرور انصاف دے گا۔'' خلیفہ ثانی سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے حکمراں کی حیثیت سے اپنی ذمے داری قبول کرتے ہوئے بڑا تاریخی فقرہ اپنی زبان سے ادا کیا تھا کہ ''اگر فرات کے کنارے رات کو کوئی کتا بھی بھوکا سو گیا تو عمر اس کا ذمے دار ہوگا۔''
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پڑوسی برادر ملک ایران کے عوامی صدر احمدی نژاد کی جیتی جاگتی مثال ہمارے سامنے موجود ہے جو سرتاپا سادگی کا پیکر اور عوامی خدمت گار ہونے کا قابل تقلید نمونہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے قائدین ایسے حکمرانوں کی پیروی کیوں نہیں کرتے؟