مشال خان قتل کیس سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرادی گئی
مقدمہ میں اب تک 26 ملزمان کو گرفتار کیا گیا جن میں یونیورسٹی کے 6 ملازم بھی شامل ہیں، رپورٹ
مشال خان قتل سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مشال خان کے خلاف توہین مذہب کے شواہد نہیں ملے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق آئی جی خیبر پختونخوا نے سپریم کورٹ میں مشال خان قتل سے متعلق رپورٹ جمع کرادی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وقوعہ کے روز یونیورسٹی کی انتظامیہ نے دن 12 بج کر 52 منٹ پر علاقے کے ڈی ایس پی حیدر خان کو موبائل پر کال کی اور انہیں یونیورسٹی آنے کا کہا۔ دوپہر ایک بج کر 7 منٹ پر ڈی ایس پی یونیورسٹی میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ لوگ مشال خان کے دوست عبداللہ کو تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔ حیدر خان کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں واقعے کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ حیدر خان کے بیان کی تصدیق کے لیے ان کے موبائل فون کا ڈیٹا حاصل کرلیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقدمے میں اب تک 26 ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے جس میں یونیورسٹی کے 6 ملازم بھی شامل ہیں، واقعے کے مرکزی ملزم وجاہت نے اعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرایا ہے، جس میں اس نے یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی ملوث قرار دیا ہے ، اس کے علاوہ مشال خان کے دوست عبد اللہ کا بیان بھی ریکارڈ کر لیا گیا ہے جس میں عبد اللہ کے مطابق مشال نے کبھی توہین رسالت نہیں کی۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : مشال خان کے قتل کے خلاف قومی اسمبلی میں مذمتی قرار داد منظور
سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاملہ کی جوڈیشل انکوائری کے لیے پشاور ہائی کورٹ کو خط لکھ دیا ہے، مشال خان کے خلاف توہین مذہب کے شواہد نہیں ملے، مشال خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تصدیق کے لیے ایف آئی اے سے مدد مانگی ہے جب کہ معاملہ پر مزید پیش رفت جاری ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : یونیورسٹی انتظامیہ نے الزام لگانے کا کہا
رپورٹ میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مشال خان کے خلاف تحقیقات سے متعلق نوٹی فکیشن پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی کو توہین رسالت کی تحقیقات کا اختیار ہی نہیں تھا۔ اگر اس قسم کا واقعہ ہوا تھا تو انتظامیہ کو پولیس کو رپورٹ کرنی چاہیے تھی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق آئی جی خیبر پختونخوا نے سپریم کورٹ میں مشال خان قتل سے متعلق رپورٹ جمع کرادی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وقوعہ کے روز یونیورسٹی کی انتظامیہ نے دن 12 بج کر 52 منٹ پر علاقے کے ڈی ایس پی حیدر خان کو موبائل پر کال کی اور انہیں یونیورسٹی آنے کا کہا۔ دوپہر ایک بج کر 7 منٹ پر ڈی ایس پی یونیورسٹی میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ لوگ مشال خان کے دوست عبداللہ کو تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔ حیدر خان کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں واقعے کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ حیدر خان کے بیان کی تصدیق کے لیے ان کے موبائل فون کا ڈیٹا حاصل کرلیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقدمے میں اب تک 26 ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے جس میں یونیورسٹی کے 6 ملازم بھی شامل ہیں، واقعے کے مرکزی ملزم وجاہت نے اعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرایا ہے، جس میں اس نے یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی ملوث قرار دیا ہے ، اس کے علاوہ مشال خان کے دوست عبد اللہ کا بیان بھی ریکارڈ کر لیا گیا ہے جس میں عبد اللہ کے مطابق مشال نے کبھی توہین رسالت نہیں کی۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : مشال خان کے قتل کے خلاف قومی اسمبلی میں مذمتی قرار داد منظور
سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاملہ کی جوڈیشل انکوائری کے لیے پشاور ہائی کورٹ کو خط لکھ دیا ہے، مشال خان کے خلاف توہین مذہب کے شواہد نہیں ملے، مشال خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تصدیق کے لیے ایف آئی اے سے مدد مانگی ہے جب کہ معاملہ پر مزید پیش رفت جاری ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : یونیورسٹی انتظامیہ نے الزام لگانے کا کہا
رپورٹ میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مشال خان کے خلاف تحقیقات سے متعلق نوٹی فکیشن پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی کو توہین رسالت کی تحقیقات کا اختیار ہی نہیں تھا۔ اگر اس قسم کا واقعہ ہوا تھا تو انتظامیہ کو پولیس کو رپورٹ کرنی چاہیے تھی۔