آرٹس کونسلیں اسٹیج سجانے میں ناکام اوپن ائیر تھیٹر کی ویرانیاں کم نہ ہوسکیں

سلطان راہی، اقبال حسن، مظہر شاہ، قوی خاں، مسعود اختر، فخری احمد، عابد خان اورامان اللہ نے فنی سفرکاآغازاسی مقام سے کیا


Qaiser Iftikhar January 19, 2013
اوپن ایئرتھیٹر باغ جناح کا قیام انگریزوں کے دور میں ہوا تھا اوراس میں 1500 سے زائد لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش رکھی گئی۔ فوٹو : فائل

فن وثقافت کا گہوارا کہلوائے جانے والے زندہ دل لوگوں کے شہرلاہورمیں واقع باغ جناح میں قائم اوپن ایئرتھیٹرکی ویرانیوں میں کمی نہ آسکی۔

فن وثقافت کے فروغ کے لیے بنائی گئی آرٹس کونسلیں بھی اس تاریخی تھیٹرکو آباد کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ کبھی یہاں اسٹیج ڈرامے پیش کیے جاتے تھے توکبھی موسیقی کے پروگرام کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ اوپن ائیر تھیٹر باغ جناح اس حوالے سے بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں سے پاکستان فلم انڈسٹری پربرسوں راج کرنیوالے عظیم فنکارسلطان راہی، اقبال حسن ، مظہر شاہ، قوی خاں ، مسعود اختر، فخری احمد، عابد خان ، طارق جاوید اور امان اللہ سمیت دیگرنامورنے اپنی فنی سفر کاآغاز اسی مقام سے کیا اوراس کے بعد فلم، ٹی وی کے شعبوں سے وابستہ ہوئے۔

اسی طرح پاکستانی موسیقی پر راج کرنیوالے عظیم گائیکوں اورسازندوں نے بھی یہاں سجنے والی محفلوں میں اپنے فن سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو خوب محظوظ کیا۔ اس کے علاوہ بھی اکثر یہاں تقریبات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایک طرف تولوگ شام کے وقت اپنی فیملیز کے ہمراہ باغ جناح میں سیر کرتے تودوسری جانب شام کے بعد اوپن ائیر تھیٹر پیش کیے جانے والا اسٹیج ڈرامہ دیکھتے اوریا پھر یہاں منعقد کیے جانیوالے پروگرام سے لطف اندوز ہوتے۔

بتایا جاتا ہے کہ اوپن ایئرتھیٹر باغ جناح کا قیام انگریزوں کے دور میں ہوا تھا اوراس میں 1500 سے زائد لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش رکھی گئی، ابتداء میں اس کی چوڑائی 30فٹ اور لمبائی 80 فٹ تھی اوریہاں مٹی کا بنا ہوا ایک چبوترا بھی تھا۔ 80ء کی دہائی تک یہاں پرباقاعدگی سے ثقافتی پروگرام اوراسٹیج ڈرامہ ہوتے رہے ۔ 85ء میں پنجاب آرٹ کونسل نے اس کو تعمیر کرتے ہوئے باقاعدہ تھیٹر کی شکل دیدی۔



ایک وقت تھا جب تھیٹر کی دنیا میں نام اورلوگوں میں پہچان بنانے کے لیے فنکاروں کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اوپن ائیر تھیٹر باغ جناح میں ہونیوالے ڈراموں میں پرفارم کریں۔ جو فنکاریہاں پرفارم کرتے تھے ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا اوران کا شمار بہترین اسٹیج فنکاروں میں ہونے لگتا تھا۔ الحمراء آرٹ کونسل اورپھر لاہورمیں پرائیویٹ تھیٹروں کے قیام سے جہاں اسٹیج ڈرامے کا معیارمتاثرہواوہیں اوپن ایئرتھیٹرجیسا خوبصورت مقام ڈرامہ پروڈیوسروں ، فنکاروں، آرٹس کونسل کی عدم توجہی کی وجہ سے ویران ہوگیا۔

ایک طرف تویہ تھیٹر باغ جناح کی پہاڑی پرتعمیر کیا گیا تھا اوردوسری جانب یہاں پارکنگ کا بھی مناسب انتظام تھا۔ انتظامیہ کی جانب سے شروع میں اس پربہت توجہ دی گئی اورلوگوں کی بڑی تعداد ہر روز آیا کرتی تھی، لیکن اب صورتحال خراب ہے۔ پنجاب آرٹ کونسل نے اوپن ایئرتھیٹرکی رونقیں بحال کرنے کے لیے کوئی عملی کوشش نہ کی جس کے نتیجہ میں یہ تھیٹر پچھلے کئی سالوں سے کالج اور سکول سے بھاگے ہوئے '' لیلیٰ مجنوئوں '' کے لیے ڈیٹ پوائنٹ بن چکا ہے۔

پنجاب آرٹ کونسل نے چند سال قبل اس کی خستہ حالی کو دیکھتے ہوئے تزئین وآرائش کے نام پررنگ وروغن ، حفاظتی جنگلے اورسیڑھیاں بنا کر اپنی ذمے داری پوری کی لیکن زندہ دلان لاہور کو یہاں لانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اگر منتظمین الحمراء کی بجائے اوپن ایئرتھیٹر میں مناسب انتظامات کرکے پروگراموں کا سلسلہ شروع کریں تویہ تھیٹردوبارہ آباد ہوسکتا ہے۔

آج جو معروف فنکاریہاں کام کرنے سے کتراتے ہیں یہ مقام ان کی اولین ترجیح بن جائے گا۔ لیکن اس کے لیے پنجاب آرٹس کونسل کے اعلیٰ افسران کو محنت کرنا ہوگی۔ یہاں پر فنون لطیفہ کے فروغ کے لیے سیمینارز کا انعقاد کروایا جائے، مشاعرے ہوں اوراس طرح کی دیگرسرگرمیوں سے اوپن ایئرتھیٹرکا مانند پڑتا حسن بچایا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں