مشال خان کے قتل میں ملوث مردان یونیورسٹی کے 7 ملازمین معطل
معطل ہونے والے تمام افراد پہلے ہی سے پولیس حراست میں ہیں۔
خان عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل میں ملوث یونیورسٹی کے 7 ملازمین کو معطل کردیا گیا ہے۔
خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل طلبا کے ہاتھوں قتل ہونے والے صحافت کے طالب علم مشال خان کے قتل میں ملوث یونیورسٹی کے 7 ملازمین کو معطل کردیا گیا۔ رجسٹرار نے 7 ملازمین کی معطلی کے احکامات جاری کرتے ہوئے ان کی تنخواہیں بھی روک لی ہیں جب کہ ان تمام افراد کو پولیس پہلے ہی حراست میں لے چکی ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ انتظامیہ نے توہین رسالت کا الزام لگانے کا کہا، ملزم کا اعتراف
معطل ہونے والوں میں افیسر خان، اجمل مایار، ناصر آفریدی، انیس، نواب خان، علی خان اور حنیف شامل ہیں۔ معطل کیے گئے ملازمین یونیورسٹی میں اسٹور کیپر، اسسٹنٹ لائبریرین اور دیگر اہم عہدوں پر تعینات تھے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ قاتلوں کے حلف لینے کی وڈیو
اس سے قبل مشال خان کے قتل کے بعد کی ایک وڈیو منظرعام پر آئی تھی جس میں ملزمان مشال کو مارنے والوں کا نام نہ بتانے کا حلف لے رہے ہیں۔
واضح رہے مشال خان کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم وجاہت نے گزشتہ روز اپنے اعترافی بیان میں واقعے کی ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ پر ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ انتظامیہ نے مشال اور ساتھیوں پر توہین رسالت کا الزام لگانے کا کہا جس پر مشال کے خلاف طلبا کو اشتعال دلایا۔
خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل طلبا کے ہاتھوں قتل ہونے والے صحافت کے طالب علم مشال خان کے قتل میں ملوث یونیورسٹی کے 7 ملازمین کو معطل کردیا گیا۔ رجسٹرار نے 7 ملازمین کی معطلی کے احکامات جاری کرتے ہوئے ان کی تنخواہیں بھی روک لی ہیں جب کہ ان تمام افراد کو پولیس پہلے ہی حراست میں لے چکی ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ انتظامیہ نے توہین رسالت کا الزام لگانے کا کہا، ملزم کا اعتراف
معطل ہونے والوں میں افیسر خان، اجمل مایار، ناصر آفریدی، انیس، نواب خان، علی خان اور حنیف شامل ہیں۔ معطل کیے گئے ملازمین یونیورسٹی میں اسٹور کیپر، اسسٹنٹ لائبریرین اور دیگر اہم عہدوں پر تعینات تھے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ قاتلوں کے حلف لینے کی وڈیو
اس سے قبل مشال خان کے قتل کے بعد کی ایک وڈیو منظرعام پر آئی تھی جس میں ملزمان مشال کو مارنے والوں کا نام نہ بتانے کا حلف لے رہے ہیں۔
واضح رہے مشال خان کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم وجاہت نے گزشتہ روز اپنے اعترافی بیان میں واقعے کی ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ پر ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ انتظامیہ نے مشال اور ساتھیوں پر توہین رسالت کا الزام لگانے کا کہا جس پر مشال کے خلاف طلبا کو اشتعال دلایا۔