میری مشعل کو نہ بجھاؤ
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان معصوم لوگوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے
کل غروب آفتاب کا منظر بہت سہانا تھا، غروب آفتاب کے وقت آسمان کا رنگ بھی سرخ اور نارنجی نظر آرہا تھا، کیاخوبصورت منظر تھا، کہ مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی سے خبر آئی کہ دو طلبہ گروپوں کے درمیان تصادم سے شعبہ ابلاغیات کا طالبعلم محمد مشال خان مارا گیا ہے۔ ابتدا میں ٹی وی چینلز پر خبر بریکنگ نیوز کا درجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی، پھر دھیرے دھیرے خبر کی ہیئت تبدیل ہوگئی۔
پہلے کہا گیا کہ مشال خان پر ''بلاسفیمی'' کا الزام تھا۔ مشتعل طلبا ء نے طیش میں آکر اسے سر عام مار ڈالا۔ پھر ''بلاسفیمی'' کا لفظ غائب ہو گیا۔ آہستہ آہستہ مشال خان کے بارے میں تفصیلات سامنے آئیں کہ اس کا تعلق صوابی سے تھا اور وہ ماس کام میں چھٹے سمیسٹر کا طالبعلم تھا۔ یونیورسٹی ایک ماہ سے وائس چانسلر سے محروم ہے۔ مشال دبنگ تھا، منہ پھٹ تھا، سوز و ساز، شعر و شاعری، کتاب بینی، دلیل اور عقل ، صوفیا و لوک موسیقی کا دلدادہ تھا۔ نہ جانے اس نے ایسا کیا کہا، ایسا کونسا مواد سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ جامعہ کے طالبعلم اس پر ٹوٹ پڑے۔ کہا گیا وہ غائب تھا، اسے ہوسٹل سے ڈھونڈا گیا، گھسیٹا گیا، ننگا کیا گیا، پتھر، ڈنڈے ، جوتے، مکے، لاتیں اور گملے یعنی جس کے ہاتھ جو آیا اس نے ثواب سمجھ کر اس کا استعمال مشال کے ننگے بدن پر کر ڈالا! خون بہہ رہا تھا، ننگی لاش اوندھے منہ پڑی تھی کہ دور سے ٹولیاں اس جگہ پہنچیں کہ کوئی ثواب سے محروم نہ رہ جائے۔
عین اس وقت جب مشتعل ہجوم مردہ مشال کو آگ لگانے لگا، پولیس مداخلت پر مجبور ہوئی۔ حقیت میں مشال کو اس سوچ نے مارا ہے جسے پاکستان میں ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، جرم خواہ کچھ بھی ہو اس کے لیے فیصلے ہجوم نہیں کیا کرتے بلکہ ''عدالتیں'' موجود ہوتی ہیں لیکن وہ ہجوم کے ہاتھوں اس لیے مارا گیا کیونکہ ادارے کمزور ہیں اور وہ انصاف فراہم نہیں کیا جا رہا جس کی اشد ضرورت ہے۔ اگر صحیح انداز میں بے خوف و خطر انصاف فراہم کیا جا رہا ہوتا تو ایسے واقعات کبھی جنم نہ لیتے، اگر راولپنڈی مسجد پر حملے میں ملوث افراد کو سزا ملتی تو لاہور کے چرچ میں بم دھماکوں کے بعد دو بیگناہ نوجوانوں کو نہ مارا جاتا۔ملزموں کو سرعام سزا ملتی تو کوٹ رادھا کشن کے بے گناہ جوڑے کو زندہ نہ جلایا جاتا، اس واقعے میں ملوث افراد کو سزا ملتی تو لاہور میں کرسچن بستی کا سانحہ نہ ہوتا، اور اس بستی جلانے والوں کو جب ریاست سزا نہ دے تو پھر مشعل جیسے واقعات کا جنم لینا عام سی بات ہوگی۔جب قانون عدل نہیں کرتا ؛ جب ظالم کو ظلم سے نہیں روکا جاتا؛ جب قاتل کو سرعام دار پر نہیں لٹکایا جاتا؛ جب طاقتوروں کو ریلیف دی جاتی ہیں؛ جب فیصلے سنانے کے بجائے محفوظ کیے جاتے ہیں؛ جب مظلوم کو ظالم کے ہاتھوں ظلم سہنے کے بعد بھی انصاف ملنے کی توقع نہیں رہتی تب ''ہجوم'' فیصلے کرتے ہیں۔ اور یہ ہجوم جہاں جہاں سے گزرتا ہے وہاں ''انصاف'' عدالتیں نہیں ''ہجوم'' دیا کرتے ہیں۔
اس ''انصاف'' کی ضد میں کوئی بھی آسکتا ہے۔ ہاں ابھی کوئی طاقتور اس کی ضد میں نہیں آیا لیکن ہجوم کے جبڑوں کو خون لگ گیا ہے۔ یہ کسی دن یہ ہنر لیبیا کے کرنل قذافی کی طرح پاکستانی حکمرانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا، یہ 'ہنر' کسی پاکستانی کنیڈی پر بھی آزمائے جائینگے، مصر کا حسنی مبارک ہو کہ لیبیا کا قذافی دونوں نے اپنے بیٹوں کو ''بادشاہت'' دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن فیصلہ ''ہجوم'' نے کر دیا۔ عدالت کا انصاف خریدنا آسان ہے عدالت کو بند کرنا بھی بہت آسان ہے۔ لیکن جب ہجوم آئے گا تو کوئی آپ کو بچا نہ سکے گا۔ جب ہجوم آئے گا تو عدالتیں سڑکوں اور چوراہوں پر لگیں گی ، اور ''انصاف'' کے فیصلے وہاں موجود ''ان پڑھ'' ہجوم ہی کرے گا۔ ہجوم کو حکمرانوں نے گدھوں کا گوشت کھلا کھلا کر گدھے بنا دیا ہے، اس لیے بھٹو آج بھی زندہ ہے آج کے حاکم کل بھی پایندہ ہونگے۔
خیر پاکستان میں توہین مذہب ایک نازک معاملہ بن چکا ہے۔پاکستان میں انتہا پسندی کی بنیاد تو قرارداد مقاصد کے منظور ہونے کے ساتھ ہی رکھ دی گئی تھی۔منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس قرارداد کو آئین کا حصہ بنایا تو بعد میں آنے والے ایک ڈکٹیٹر جنرل ضیاالحق نے اس میں مزید اضافے کیے جب پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے گئے۔ حقیقت میں ہم بطور قوم ایک کرپٹ ہجوم کے سوا کچھ نہیں ہیں ، جس ملک کے وزیر اعظم کے اوپر بیسیوں کیسز ہوں ، وہ حکمران اور قوم کا اللہ ہی حافظ ہوگا ، مجھے بتائیے جس ہجوم نے مشال پر تشدد کیا اس کی اپنی سوچ کیا تھی؟محض سنی سنائی باتیں؟ جو قوم سنی سنائی باتوں پر عمل پیرا ہو کر دوسروں کو آگ لگانے کے بارے میں سوچ رہی ہوگی ، اس کی سوچ کی حد کیا ہوسکتی ہے؟جس ملک میں سالہا سال کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے حکومت کی ہو وہاں معصوم لوگوں کو اپنے مقاصدکی تکمیل کے لیے استعمال کیا جانا عام سی بات ہے ۔
حقیت میں اس کے پیچھے کرپشن اور پیسہ ہے، کیوں کہ جب کرپشن اوپر سے چلتی ہے تو وہ نچلے اداروں کو کھوکھلا کر دیتی ہے، مردان کی اس یو نیورسٹی میں ایک ماہ سے وائس چانسلر نہیں تھا، اور بغیر وائس چانسلر کے یونیورسٹی ''لاوارث'' ہوتی ہے، اسی طرح کے پی کے میں ایک دو نہیں بلکہ 7دوسری یونیورسٹیوں میں بھی وائس چانسلر نہیں ہیں۔
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان معصوم لوگوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے،ان کی Feelingsکے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے، تمام مذہبی وسیاسی تنظیمیں بیرونی و اندرونی فنڈنگز سے چل رہی ہیں ، پھر جس ہجوم نے مشال کو ناحق قتل کیا ہے ، اس کی کونسی غیرت باقی رہ جاتی ہے، ہمیں تو یہی علم نہیں ہے کہ ہم جس سوشل میڈیا کو استعمال کر رہے ہیں اس پر موجود ''پوسٹوں'' کے پیچھے کونسے عناصر کام کر رہے ہیں، دہشت گردی محض کہیں بم پھوڑنا نہیں ہے بلکہ ایسے افعال بھی دہشتگردی کے زمرے میں آتے ہیں جس میں دشمن چھپ کر وار کرتا ہے۔اور ہم ہیں کہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کیے جا رہے ہیں ۔
وقت کرتا ہے برسوں پرورش، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ہے کے مصداق یہ واقعہ بھی ایک دم پیش نہیں آیا بلکہ نوجوانوں کی ذہن سازی میں شعوری اور لاشعوری کاوشیں کارفرما ہیں۔ انتہا پسندی کو لے کر جس طرح ہماری حکومت نے ایک بیانیہ اپنایا ہے جس کا اظہار اس کے رویے سے ہوتا رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں اقلیتوں اور کسی مذہبی معاملے پر مختلف رائے رکھنے والوں کے ساتھ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ توہین مذہب کے نام پر لگائے گئے الزامات میں سے زیادہ تر بے بنیاد ثابت ہونے کے علاوہ ان کے پیچھے الزامات لگانے والوں کے اپنے مقاصد ثابت ہوئے ہیں۔ ایسے الزامات لگانے والوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سے گریز کرنے کی وجہ سے ایسے الزامات لگا کر اپنے ذاتی مقاصد کا حصول ایک آسان ذریعہ بن گیا ہے۔ امید ہے ریاست اس قتل پر ذمے داران کو قرار واقعی سزاد ے گی، ورنہ کئی مشال شک کی بنا پر قتل ہوتے رہیں گے اور مائیں یہی کہتی رہیں گے کہ آج
''میری مشعل کو نہ بجھاؤ''