امرتسر جیل سے رہائی کی منتظر فاطمہ ممتاز
یہ سزا نومبر 2016ء کو ختم ہوگئی البتہ جرمانہ ادا نہ کرنے کے باعث فاطمہ و ممتاز کو رہائی نصیب نہ ہوسکی
14 اگست 1947ء وہ دن جب برصغیر کی تقسیم ہوئی اور دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک، پاکستان کے نام سے نمودار ہوا، قیام پاکستان فقط برصغیر کی تقسیم کا نام نہ تھا بلکہ صداقت تو یہ ہے کہ یہ لاکھوں مسلم خاندانوں کی تقسیم بھی تھی یہ تقسیم ایسی تھی کہ اگر ایک بہن اپنے شوہر و بچوں کے ساتھ پاکستان آگئی ہے تو اس کا بھائی بھارت ہی میں رہائش پذیر رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔
اسی طرح تمام ہی قسم کے رشتے یعنی باپ، بیٹے، بھائی، یہاں تک کہ ماں بیٹا بھی اس طرح تقسیم ہوئے چنانچہ ضرورت اس امر کی تھی کہ ان منقسم خاندانوں کے درمیان روابط برقرار رکھنے کے لیے بھارتی و پاکستانی حکام زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرتے مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور یہ منقسم خاندان اپنے پیاروں کی جدائی میں تڑپتے رہے۔ ایسے ہی منقسم خاندانوں میں ایک خاندان سہارنپور سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں میں رشیدن کا بھی تھا۔ قیام پاکستان کے وقت جب اس کا خاندان وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ قیام پذیر ہوا تو رشیدن کی عمر فقط پانچ برس ہوگی البتہ شعور کی دنیا میں قدم رکھتے ہوئے جب رشیدن کو یہ معلوم ہوا کہ اس کے خاندان کے بیشتر افراد بھارت میں ہی مقیم ہیں تو اس کے دل میں اس خواہش نے شدت سے جنم لیا کہ میں بھارت جاؤں اور اپنے پیاروں سے ملوں اور اپنا آبائی گھر بھی دیکھوں۔ ظاہر ہے یہ کوئی آسان امر نہ تھا چنانچہ رشیدن اپنی اس خواہش کو سینے میں دبائے بیٹھی رہی اور بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر رشیدن کی شادی محمد صدیق سے کردی گئی۔
خداوند کریم نے محمد صدیق و رشیدن کو تین بیٹوں و چھ بیٹیوں کی شکل میں کثیر اولاد سے نوازا۔ ان تمام باتوں کے باوجود رشیدن کی بھارت جانے کی خواہش برقرار رہی اور رشیدن روپیہ روپیہ جمع کرتی رہیں اور جولائی 2006ء تک وہ بھارت جانے کے قابل ہوگئی یعنی تمام سفری معاملات و اخراجات اٹھانے کے قابل ہوگئی چنانچہ اس موقع پر اس کی شادی شدہ بیٹی فاطمہ جوکہ اپنی والدہ سے والہانہ پیار کرتی تھی والدہ سے ضد کی کہ ماں! میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی۔ فاطمہ کے شوہر سیف الرحمن نے جس سے اس کی شادی 1993ء میں ہوئی تھی بخوشی فاطمہ کو اپنی ماں کے ساتھ بھارت جانے کی اجازت دے دی۔
یوں بھی سیف الرحمن اپنی پیاری بیوی کے سفری اخراجات باآسانی اٹھا سکتا تھا یوں فاطمہ کے لیے اپنی ماں رشیدن کے ساتھ بھارت جانے کا فیصلہ ہوگیا۔ اس وقت فاطمہ چھ بچوں کی ماں تھی، جن میں 12 سالہ بیٹی صبا، 10 سالہ بیٹی ارم، 8 سالہ بیٹی نرگس، 6 سالہ بیٹا غلام فرید، 4 سالہ غلام صابر اور 2 برس کی بیٹی عائشہ شامل تھے البتہ اس وقت یعنی جولائی 2006ء تک فاطمہ ایک اور مزید اولاد کی امید سے تھی۔ چنانچہ ان حالات میں فاطمہ کی چھوٹی بہن ممتاز نے بھی ضد کی کہ میں نے بھی کمیٹی وغیرہ ڈال کر ایک معقول رقم جمع کی ہے لہٰذا مجھے بھی اپنے ساتھ بھارت لے چلو۔ چنانچہ ممتاز بھی اپنی ماں رشیدن کے ساتھ 26 جولائی بروز بدھ 2006ء کو بھارت روانہ ہوگئی۔
واہگہ بارڈر لاہور سے تمام سفری دستاویز و سامان کی ضروری جانچ پڑتا کے بعد یہ تین خواتین پر مشتمل قافلہ اٹاری پہنچا، ہاں یہ ضرور ہوا کہ لاہور سے ایک خاتون نسرین و بظاہر اس کے شوہر راشد سے ان خواتین کی علیک سلیک ہوگئی، ایسا دوران سفر اکثر ہوجاتا ہے چنانچہ اٹاری کے مقام پر اس خاتون نسرین نے رشیدن سے کہا ماں جی! میرے ساتھ سامان زیادہ ہے چنانچہ یہ میرا چھوٹا سا بیگ آپ پکڑ لیں۔ بھولی بھالی رشیدن نے وہ بیگ پکڑ لیا اور یہ بیگ ہی ان تینوں خواتین کی بربادی کا باعث بن گیا۔
کیونکہ دوران چیکنگ یہ انکشاف ہوا کہ اس بیگ میں منشیات تھیں۔ نتیجہ کہ نسرین اور راشد ان خواتین سے لاتعلق ہوگئے اور یہ تینوں خواتین گرفتار ہوگئیں، امرتسر شہر کی جیل میں ان خواتین کو مقید رکھا گیا اور امرتسر ہی کی ایک عدالت میں ان پر مقدمہ چلتا رہا، ایک نامور وکیل D.T شرما ان خواتین کی وکالت کر رہا تھا۔ اس مقدمے کی کارروائی کے دوران فاطمہ کے ہاں ایک بیٹی نے جنم لیا جس کا نام حنا رحمان تجویز ہوا۔ دوسرا یہ کہ اپنے عزیزوں سے ملنے اور اپنا گھر دیکھنے کی تمنا لیے ایک روز رشیدن عدالت پیشی سے واپسی پر پولیس کی وین میں ہی تم توڑ گئی جب کہ رشیدن کا شوہر بھی یعنی محمد صدیق بھی یہ تمام صدمات برداشت نہ کرسکا اور فالج کا حملہ اس کی جان لے گیا۔ 15 روز بعد رشیدن کی میت پاکستان بھیج دی گئی اور وہ وزیر آباد میں دفن ہوگئی۔ البتہ فاطمہ و ممتاز کو کوئی دو برس بعد یعنی 2008ء میں قصور وار ٹھہراتے ہوئے 10 برس قید 22 لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی گئی۔
یہ سزا نومبر 2016ء کو ختم ہوگئی البتہ جرمانہ ادا نہ کرنے کے باعث فاطمہ و ممتاز کو رہائی نصیب نہ ہوسکی۔ البتہ امرتسر کی ایک نیک دل خاتون نے یہ جرمانہ بھی ادا کردیا ہے اور اب بتایا یہ جا رہا ہے کہ عنقریب ان دونوں بہنوں کی رہائی ممکن ہوسکے گی۔ البتہ 8 اپریل 2017ء کی شب فاطمہ کے شوہر سیف الرحمن کو ایک نجی ٹی وی چینل کے نمایندے نے یہ اطلاع دی کہ آپ کی بیگم فاطمہ اور اس کی بہن کو بہت جلد رہائی ملنے والی ہے یہ خبر فاطمہ کے شوہر اور اس کے اہل خانہ کو میری موجودگی میں دی گئی تھی۔
چنانچہ اس وقت اس خاندان کو حاصل ہونے والی مسرت کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہی تو ہے۔ وہ سیف الرحمن جس نے اپنے چھ بچوں کی پرورش اپنی بیگم کی عدم موجودگی میں کی تھی اس کی آنکھوں سے بار بار اشک رواں ہو رہے تھے وہ بار بار ایک ہی جملہ بولتا ہے کہ دیکھو فاطمہ! جلدی سے آجاؤ، میں نے تمہاری جنت کو بکھرنے نہیں دیا، میں نے تمام بچوں کو بلاتفریق بیٹی و بیٹا اعلیٰ تعلیم دلائی ہے، بس تم جلدی سے آجاؤ۔ پھر 9 اپریل و 10 اپریل کو بھی تمام نجی ٹی وی چینل یہ خبر نشر کرتے رہے کہ امرتسر جیل سے دو پاکستانی خواتین کو رہا کیا جا رہا ہے۔
البتہ تادم تحریر یہ دونوں خواتین امرتسر جیل میں رہائی کی منتظر ہیں، یہ ضرور ہے کہ فاطمہ کے بچے جنھوں نے اپنی ماں کی قریب قریب 11 برس جدائی برداشت کی ہے اب مزید اپنی ماں کی جدائی برداشت نہیں کر پا رہے اور اپنی ماں کی رہائی کے لیے بے تاب ہیں ان بچوں میں 23 سالہ صبا، 21 سالہ ارم، 19 سالہ نرگس، 17 سالہ غلام فرید، 15 سالہ غلام صابر، 13 سالہ عائشہ شامل ہیں۔
ان تمام بچوں کا ایک ہی موقف ہے کہ خدارا! ہماری ماں کو ہم سے جلد ملایا جائے کہ اب مزید صبر نہیں ہوتا۔ البتہ فاطمہ کے شوہر سیف الرحمن کا یہی کہنا ہے کہ مجھے کسی سے شکایت نہیں، نہ پاکستانی حکام سے نہ بھارتی حکام سے، بس جب کہ میری بیوی اور اس کی بہن اپنی سزائیں پوری کرچکی ہیں اور جرمانے کی رقم بھی ادا کردی گئی ہے تو ان حالات میں میری بیوی اور میری بیٹی حنا رحمن و ممتاز کی پاکستان واپسی کو یقینی بنایا جائے۔ رہائی کے بعد کاش یہ سب افسانہ ہوتا مگر یہ سب ایک تلخ حقیقت ہے اس سلسلے میں ہم اعلیٰ حکام سے اتنا ہی عرض کریں گے کہ بیرون ملک جانے والے اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنالیں تاکہ آنے والے وقتوں میں کسی رشیدن، فاطمہ اور ممتاز کو ان حالات سے ناگزرنا پڑے۔