’’کامران سرمایہ کاروں کو مقدمے میں مورد الزام ٹھہراتے تھے‘‘
رشوت اور تحائف کی فرمائش پر ایف آئی اے سے استعفیٰ دیا، والد کے کہنے پر کوئٹہ چھوڑا
رینٹل پاور کیس کے سابق تفتیشی افسر کامران فیصل رینٹل پاور کیس میں سرمایہ کاروں کو مورد الزام ٹھہراتے تھے۔
رشوت اور تحائف کی فرمائش پر ایف آئی اے سے استعفیٰ دیا، والد کے کہنے پر کوئٹہ چھوڑا۔ مرحوم کی چھوٹی بیٹی نے چند روز قبل ہی اسکول جانا شروع کیا ہے۔ کامران فیصل اس مقدمے کے ملزموں میں شامل سرکاری شخصیات سے زیادہ ان ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مورد الزام ٹھہراتے تھے جو،کامران فیصل کے بقول، ملک دشمن ثابت ہوئے تھے۔جمعہ کوبرطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے فیڈرل لاجز کے کمرے میں مردہ پائے جانے والے کامران فیصل اپنے والد کی خواہش پر 6 برس قبل اپنی پیدائش کے شہر کوئٹہ کو چھوڑ کر اسلام آباد منتقل ہوئے تھے۔
کوئٹہ میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث ان کے والد نے 4بہنوں کے اکلوتے بھائی کو اسلام آباد جانے پر مجبور کیا تھا۔ کامران کے والد چوہدری حمید کا تعلق پنجاب کے شہر میاں چنوں سے ہے لیکن وہ 40 برس سے کوئٹہ میں مقیم ہیں۔ کامران فیصل کی 2 بیٹیاں ہیں۔ چھوٹی بیٹی نے چند روز قبل اسکول جانا شروع کیا ہے۔ نیب سے پہلے ایف آئی اے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات تھے۔
انھوں نے ایف آئی اے سے استعفیٰ دیا تھا، مستعفی ہونے کے بعد جب وہ حسب معمول دوستوں کی محفل میں پہنچے تو ان پر بہت تنقید ہوئی کہ اتنی اچھی نوکری کیوں چھوڑ دی؟۔ کامران کے دو دوستوں نے، جو سرکاری افسران ہونے کے باعث اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، بتایاکہ کامران نے نوکری چھوڑنے پر بہت مطمئن لہجے میں ان سے کہا تھاکہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر میری تنخواہ 35 ہزار ہے۔ افسر کہتے ہیں کہ ہمارے فلاں مہمان کی تواضع کرو، فلاں کے گھر یہ تحفہ بھجوا دو۔ فلاں رشتے داروں کو ہوائی جہاز کا ٹکٹ لے دو۔ میں رشوت نہیں لیتا تھا اس لیے یہ سب میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ کامران فیصل نے ایف آئی اے سے مستعفی ہونے کے بعد قومی احتساب بیورو میں ملازمت اختیارکر لی تھی۔
قریبی دوست نے کہا کہ عمومی طور پر کامران نیب کے ''کلچر'' سے مطمئن تھے لیکن پھر انھیں کرایے کے بجلی گھروں (رینٹل پاور) کے معاہدوں میں ہونے والی مبینہ بد عنوانی کی تفتیش پر لگا دیا گیا۔ دوستوں کاموقف ہے کہ کامران فیصل بہت جلد معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے۔ دن رات تفتیش کے سلسلے میں مصروفیت کے باعث دوستوں سے ان کی ملاقاتیں بھی کم ہونے لگی تھیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کامران فیصل پر دبائوکی نوعیت کیا تھی، اس بارے میں انھوں نے اپنے قریبی دوستوں کو بھی زیادہ تفصیل نہیں بتائی۔
رشوت اور تحائف کی فرمائش پر ایف آئی اے سے استعفیٰ دیا، والد کے کہنے پر کوئٹہ چھوڑا۔ مرحوم کی چھوٹی بیٹی نے چند روز قبل ہی اسکول جانا شروع کیا ہے۔ کامران فیصل اس مقدمے کے ملزموں میں شامل سرکاری شخصیات سے زیادہ ان ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مورد الزام ٹھہراتے تھے جو،کامران فیصل کے بقول، ملک دشمن ثابت ہوئے تھے۔جمعہ کوبرطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے فیڈرل لاجز کے کمرے میں مردہ پائے جانے والے کامران فیصل اپنے والد کی خواہش پر 6 برس قبل اپنی پیدائش کے شہر کوئٹہ کو چھوڑ کر اسلام آباد منتقل ہوئے تھے۔
کوئٹہ میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث ان کے والد نے 4بہنوں کے اکلوتے بھائی کو اسلام آباد جانے پر مجبور کیا تھا۔ کامران کے والد چوہدری حمید کا تعلق پنجاب کے شہر میاں چنوں سے ہے لیکن وہ 40 برس سے کوئٹہ میں مقیم ہیں۔ کامران فیصل کی 2 بیٹیاں ہیں۔ چھوٹی بیٹی نے چند روز قبل اسکول جانا شروع کیا ہے۔ نیب سے پہلے ایف آئی اے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات تھے۔
انھوں نے ایف آئی اے سے استعفیٰ دیا تھا، مستعفی ہونے کے بعد جب وہ حسب معمول دوستوں کی محفل میں پہنچے تو ان پر بہت تنقید ہوئی کہ اتنی اچھی نوکری کیوں چھوڑ دی؟۔ کامران کے دو دوستوں نے، جو سرکاری افسران ہونے کے باعث اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، بتایاکہ کامران نے نوکری چھوڑنے پر بہت مطمئن لہجے میں ان سے کہا تھاکہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر میری تنخواہ 35 ہزار ہے۔ افسر کہتے ہیں کہ ہمارے فلاں مہمان کی تواضع کرو، فلاں کے گھر یہ تحفہ بھجوا دو۔ فلاں رشتے داروں کو ہوائی جہاز کا ٹکٹ لے دو۔ میں رشوت نہیں لیتا تھا اس لیے یہ سب میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ کامران فیصل نے ایف آئی اے سے مستعفی ہونے کے بعد قومی احتساب بیورو میں ملازمت اختیارکر لی تھی۔
قریبی دوست نے کہا کہ عمومی طور پر کامران نیب کے ''کلچر'' سے مطمئن تھے لیکن پھر انھیں کرایے کے بجلی گھروں (رینٹل پاور) کے معاہدوں میں ہونے والی مبینہ بد عنوانی کی تفتیش پر لگا دیا گیا۔ دوستوں کاموقف ہے کہ کامران فیصل بہت جلد معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے۔ دن رات تفتیش کے سلسلے میں مصروفیت کے باعث دوستوں سے ان کی ملاقاتیں بھی کم ہونے لگی تھیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کامران فیصل پر دبائوکی نوعیت کیا تھی، اس بارے میں انھوں نے اپنے قریبی دوستوں کو بھی زیادہ تفصیل نہیں بتائی۔