معراج کا پیغام
معراج کی اصل اہمیت اس کی کیفیت کی جزئیات میں کھو جانے میں نہیں اس کی کمیت، مقصدیت اور جوہریت میں گم ہو جانے میں ہے
KARACHI:
شب معراج کی آمد آمد ہے۔ اس مقدس رات نبی کریمؐ نے آسمانوں کی سیر فرمائی۔ جیسے کسی اہم شخصیت کی آمد پر میزبان ملک کا سربراہ بذات خود یا اس کی طرف سے نامزد ملک کی دوسری اہم شخصیت، مہمان خصوصی کا شایان شان استقبال کرتی ہے۔ اس کو تر پوں کی سلامی دی جاتی ہے۔ گارڈ آف آنر پیش کیا جاتا ہے۔ ملک کی اہم اہم شخصیتوں سے اس کا تعارف کرایا جاتا ہے۔
بحری، بری اور فضائی مشقیں دکھائی جاتی ہیں۔ اہم اہم جگہوں پر اس کے استقبالیے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ملک کے ثقافتی ورثہ، فنی اور تمدنی ترقی کی بڑی بڑی نشانیاں اسے دکھائی جاتی ہیں۔ گویا جشن بہاراں کا سماں ہوتا ہے۔ ان سب چیزوں سے مہمان کی عزت و وقار مطلوب اور اپنی شان و شوکت اور عظمت و قدرت سے مہمان کو ذہنی طور پر متاثر کرنا مقصود ہوتا ہے، لیکن یہ سب باتیں فروعی، ضمنی اور ثانوی ہوتی ہے۔ مہمان کی آمد کا اصل مقصد میزبان اور مہمان سربراہان مملکت کے درمیان اہم نوعیت کے درپیش مسائل پر تبادلۂ خیال اور گفت و شنید ہوتی ہے۔
یہ مثال ایک حد تک واقعہ معراج پر محمول کی جا سکتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی سلطنت کی سب سے اہم شخصیت حضرت جبرائیل ؑ کے ذریعے اپنی مخلوق میں عظیم ترین شخصیت حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کو بطور مہمان خصوصی کے اپنے پاس مدعو کیا۔ راستے میں میزبانی کے فرائض شدید القویٰ و ذومرۃ انجام دیتے رہے۔ سواری کے لیے جنت سے براق بھیجا، قافلۂ رسالتؐ کی اول تا آخر تمام برگزیدہ ہستیوں نے بیت المقدس میں آپؐ کا پرتپاک استقبال کیا۔ پھر فرش سے عرش تک کے سفر کے لیے معراج (سیڑھی) لگائی گئی جس کے ذریعے آپؐ آسمانِ اول پر تشریف فرما ہوئے۔
حضرت جبرائیلؑ نے آپؐ کی آمد کا اعلان کیا۔ حضرت آدم ؑ سے آپ کا تعارف کرایا گیا۔ حضرت آدمؑ نے آپؐ کی آمد پر اظہار مسرت فرمایا۔ آپؐ کو آسمانِ اول کی عجائبات کی سیر کرائی گئی۔ دوزخ کے ہولناک مناظر دکھائے گئے۔ تمثیل کے رنگ میں آخرت میں پیش آنے والے نیک و بد اعمال کی جزاؤں کے پیشگی نمونے دکھائے گئے۔ پھر آپؐ دوسرے، تیسرے، چوتھے حتیٰ کہ ساتویں آسمان پر پہنچے۔ ہر آسمان پر کاروانِ رسالتؐ کی ایک یا دو معزز اور برگزیدہ ہستیوں نے میرِ کاروان کا شایان شان خیر مقدم کیا اور ہر ایک نے یوں سرفراز کیے جانے پر اور یہ شاندار اعزاز پانے پر زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ ہر آسمان پر آپ کو محیر العقول بڑی بڑی نشانیاں اور ناقابل بیان عجائبات قدرت دکھائے گئے۔
آخر آپؐ جبرائیلؑ کی ہمراہی میں عالم مادی کی آخری سرحد تک پہنچے۔ جہاں آپؐ کو جنت کا دلکش منظر دکھایا گیا، یہ وہ مقام تھا جہاں پر دو نفوس قدسیہ پر مشتمل یہ مختصر سا قافلہ ایک دوسرے سے جدا ہوگیا اور اب آپؐ تن تنہا اپنے رب سے مشرف ملاقات کے لیے خطیرۃ القدس تک پہنچے۔ رو برو دو بدو گفتگو کا شرف حاصل ہوا۔ آپؐ نے اﷲ کے حضور پر خلوص سلام و نیاز پیش کیا۔ پھر وہ کار خاص جس کے لیے بارگاہ خداوندی میں حاضری کے لیے بطور خاص فرش سے عرش پر طلب کیا گیا تھا۔ ان امور کی وحی ہوئی جو احکامات جاری فرمائے گئے۔ ان میں سے چند یہ پیش خدمت ہیں۔
(1) ہر روز 50 نمازوں کی فرضیت کا حکم ہوا جو آپؐ کی بار بار استدعا پر گھٹتے گھٹتے 5 رہ گئیں۔ لیکن گنتی میں کمی کے باوصف تول میں 5 کا وزن 50 کے برابر ہی قرار پائیں۔
(2) تمام گناہوں کے قابل معافی ہونے کے امکان لیکن شرک کے ناقابل معافی جرم ہونے کا یقین دلایا گیا۔
(3) نیکی کی نیت پر ایک نیکی کا ثواب اور اس عمل پر کرنے پر دس گنا ثواب اسی طرح گناہ کی نیت پر برأت لیکن اس پر عمل کرنے پر ایک ہی گناہ نامۂ اعمال میں لکھے جانے کی خبر دی گئی۔
ان کے علاوہ اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست کی تعمیر و تشکیل کے لیے 14 نکات پیش کیے گئے جو سورۂ بنی اسرائیل کی 23 تا 39 آیات پر مشتمل ہیں اور جو ایک مضبوط متوازن اور دیر پا معاشرے کے قیام، بقا اور استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔
آج ہماری تہذیب و تمدن کی عمارت کی بنیادوں میں جو ضعف آ گیا ہے اس کے شہتیر ہل رہے ہیں۔ وہ معراج کے پیغام کو نظر انداز کر دینے کا نتیجہ ہے۔ معراج کی رات اس بات کی یاد تازہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے جس کے لیے بطور خاص آپؐ کو طلب کیا گیا تھا۔
آج بھی 14 نکاتی قرآنی پروگرام اسلامی معاشرہ اور ریاست کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا سکتے ہیں۔ اگر ہم سوچیں سمجھیں اور صدق دل سے ان پر معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے لیے عمل کریں۔
معراج کی اصل اہمیت اس کی کیفیت کی جزئیات میں کھو جانے میں نہیں اس کی کمیت، مقصدیت اور جوہریت میں گم ہو جانے میں ہے۔
معراج ایک عظیم ترین واقعہ، ایک عظیم ترین تجربہ ہے جو ایک عظیم ترین شخصیت یعنی محمد مصطفی سرور دو جہاں، نبی آخر الزماں کے ساتھ فرش سے لے کر عرش کے درمیان خالق دو جہاں مالک مکاں لا مکاں کے حکم سے پیش آیا۔