پاکستان ہمارے 4 شہریوں کی طالبان سے بازیابی میں مدد کرے امریکا

القاعدہ،طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے اغوا کاروں سے مذاکرات میں پاکستان رابطہ کار بنے


Online January 19, 2013
القاعدہ، طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے اغوا کاروں سے مذاکرات میں پاکستان رابطہ کار بنے، ایف بی آئی کی جانب سے میمورنڈم ارسال فوٹو: فائل

امریکا نے اپنے مغوی شہریوں کی بازیابی کے لیے پاکستان سے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے اغوا کاروں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی درخواست کی ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق درخواست واشنگٹن کی اغوا کاروں کے ساتھ براہ راست بات چیت نہ کرنے کی پالیسی کے تحت کی گئی ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کی جانب سے امریکی سفارت خانے کے قانون اتاشی نے وزارت داخلہ کے ذریعے جمعہ کو حکومت پاکستان کو میمورنڈم ارسال کیا ہے جس میں اسلام آباد سے کہاگیا ہے کہ وہ واشنگٹن اور اغوا کاروں کے مابین رابطہ کار کا کردار ادا کرے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ مبینہ اغواء کار کئی امریکی شہریوں کے قتل میں بھی ملوث ہیں۔ میمورنڈم وصول ہونے پر وزارت داخلہ نے تمام صوبائی داخلہ اور پولیس حکام کو سرکلر جاری کرتے ہوئے مغویان کی بازیابی کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے۔ یاد رہے کہ 4 امریکی شہریوں بووے برگڈال، ڈاکٹر وارن وینسٹین، کسٹلان کولمین اور نعیم خان کو 2009اور 2012 کے دوران افغانستان اور پاکستان سے اغواکیا گیا تھا۔ امریکی فوجی ہرگڈال جون 2009میں افغان صوبے پکتیکا میں لاپتہ ہوگیا تھا اور جولائی میں طالبان نے اس کی ویڈیو جاری کی۔ طالبان نے امریکی فوجی کی رہائی کے بدلے ایک ارب ڈالرتاوان اور 21 افغان قیدیوں اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

5

ڈاکٹر وینسٹین کو اگست 2011میں لاہور سے اغوا کیا گیا تھا جس کی ذمہ القاعدہ نے قبول کی تھی۔ اس کی رہائی کے بدلے القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے افغانستان، پاکستان، صومالیہ اور یمن میں اپنے ٹھکانوں پر حملے بند کرنے اور تمام القاعدہ اور طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ کولمین کو اپنے کینیڈین شوہر کے ہمراہ پاک افغان سرحد کے قریب اغوا کیا گیا تھا ، ان کا اپنے خاندان سے آخری رابطہ 8اکتوبر 2012میں ہوا تھا۔ذرائع کے مطابق کولمین اغوا کے وقت 5 ماہ کی حاملہ تھی جبکہ امریکی شہری نعیم خان کو3 نومبر 2012ء کو پاکستان کے قبائلی علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں