پاناما کیس میں جج صاحبان کے اختلافی نوٹ

5 رکنی لارجر بینچ میں سے 2 جج صاحبان نے وزیراعظم کو نا اہل کرنے جب کہ 3 نے معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا


ویب ڈیسک April 20, 2017
5 رکنی لارجر بینچ میں سے 2 جج صاحبان نے وزیراعظم کو نا اہل کرنے جب کہ 3 نے معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا، فوٹو؛ فائل

سپریم کورٹ نے پاناما کیس سے متعلق فیصلہ سنا دیا جس میں عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی لارجر بینچ میں سے 2 جج صاحبان نے وزیراعظم کو نا اہل کرنے جب کہ 3 نے معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا جب کہ بینچ کے تمام جج صاحبان نے اپنے الگ اختلافی نوٹ بھی تحریر کیے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پاناما کیس کے فیصلے میں لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے اپنے اختلافی نوٹوں میں وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جب کہ جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس عظمت سعید شیخ نے معاملے کی تحقیقات کا کہا جس پر عدالت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا حکم دے دیا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: وزیر اعظم نواز شریف نااہل نہیں ہوئے، پاناما کیس کا فیصلہ

پاناما کیس سننے والے 5 رکنی لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ 1993 سے 96 تک لندن کی جائیداد نوازشریف کے بچوں کے نام تھی، 93 سے 96 تک وزیراعظم کے بچے ان کی کفالت میں تھے لہٰذا وزیراعظم کے بچوں کے ملکی اور غیر ملکی اثاثوں کی نیب تحقیقات کرے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم آرٹیکل 62 کے تحت رکن قومی اسمبلی کے لیے اہل نہیں وہ عوامی نمائندوں، قوم اور عدالت کے سامنے بھی ایماندار نہیں رہے۔

جسٹس آصف سعید نے وزیراعظم اور ان کے خاندان کی جانب سے لندن جائیدادوں سے متعلق دستاویزات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم لندن کی جائیداد کی خریداری اور قبضے سے متعلق وضاحت نہیں دے سکے، نیب رحمان ملک کی تحقیقات کی روشنی میں وزیراعظم کے خلاف کارروائی کرے جب کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر وزیراعظم کی نااہلی کا نوٹی فکیشن جاری کرے۔ فاضل جج نے اپنے نوٹ میں مزید کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ریفرنس کے خاتمے کے باوجود اسحاق ڈار پر الزامات ختم نہیں ہوئے لہٰذا نیب اسحاق ڈار کے خلاف اپنے 2000ء کے ریفرنس کی روشنی میں دوبارہ تحقیقات کرے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: پاناما کیس کے فیصلے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں، وزیراعظم

جسٹس اعجاز افضل نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ وزیراعظم پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کی ضرورت ہے اس لیے الزامات پر تحقیقات ہونی چاہئیں، تحقیقات مکمل ہونے پر معاملہ عدالت میں جانا چاہیے، عدالتی فیصلے سے پہلے رائے زنی سے فریقین کا کیس متاثر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دوران سماعت وزیراعظم کے ٹیکس چھپانے سے متعلق غیر متنازعہ دستاویز نہیں دی گئی جب کہ اسحاق ڈار کیپٹن صفدر کے خلاف کیس میں ایسی بات سامنے نہیں آئی کہ عدالت کوئی مخالف حکم جاری کرے۔

جسٹس گلزار احمد نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ حسین نواز نے ایکسپریس نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان کی تین آف شور کمپنیاں ہیں، انہوں نے انٹرویو میں کمپنیوں کی ملکیت کی تاریخ نہیں بتائی، انٹرویو میں لندن فلیٹس کی ادائیگی سے متعلق بھی کچھ نہیں بتایا گیا جب کہ انٹرویو میں کہا گیا کہ لندن فلیٹس نیسکول اور نیلسن کی ملکیت میں ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نوازشریف کو مستعفی ہوجانا چاہئے، عمران خان

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان نے لندن جائیداد کی خریداری کو ظاہر نہیں کیا لہٰذا وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت ایسی آئینی درخواست میں شواہد کی روشنی میں فیصلہ دے سکتی ہے، عوامی مفاد سے متعلق کیس میں عدالت سول اور ٹرائل کورٹ کا کردار ادا نہیں کرسکتی۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ کیس میں درخواست گزاروں سے حسین نواز کے انٹرویو کی بنیاد پر وزیراعظم کی نااہلی مانگی لیکن نوازشریف کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہوسکے، کیس میں حقائق جاننے کے لیے ریاستی اداروں کی مدد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم فیصلے خوف اور طرفداری سے ہٹ کر قانون کے مطابق دیتے ہیں، ہم قانون سے ہٹ کر مقبول فیصلے نہیں دے سکتے، فیصلے میں کہہ چکے کہ وزیراعظم کی تقریر تحقیقات کے بغیر ان کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتی، وزیراعظم کی تقریر، بچوں کے بیانات میں تضاد وزیراعظم کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے سے جمہوریت اور انصاف کو نقصان پہنچا، آصف زرداری

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پاناما کیس میں میڈیا اور عوام نے توقع سے زیادہ دلچسپی دکھائی، بدقسمتی سے ہر شام غلط فیصلے اورتجزیے کیے جاتے ہیں، ایسی صورت میں عدالت تحقیقات پر نظر رکھتی ہے، حج کرپشن کیس میں بھی ایسے ہی فیصلے آئے، جب معاملہ اعلیٰ شخصیت کا ہو تو شفاف تحقیقات کے لیے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے، آرٹیکل 3/184 ہمارے پاس کیس کی تحقیقات کا اختیار نہیں، قانون نظام میں ہر شخص صرف اپنی بات اور عمل کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں