مشعل بجھ نہ سکی
حال ہی میں جو واقعہ مردان یونیورسٹی میں پیش آیا اس سے تمام پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں
حال ہی میں جو واقعہ مردان یونیورسٹی میں پیش آیا اس سے تمام پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں، جو جاں سے گزر گیا اس کو پیشگی پتا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی خونیں واقعہ پیش آنے کو ہے۔ اس کے چند ساتھی جو قریب تر، تھے ان کا کہنا ہے کہ وہ آزاد نظم تقریباً ان موضوعات پر پڑھا کرتا تھا کہ جس میں ایسا پیغام ہوتا تھا کہ اس کو اٹھالیا گیا ہے اور وہ غائب کردیا گیا ہے۔ وہ شعبہ صحافت کا ایک روشن چراغ تھا، جس کی لو مسکینوں اور غریبوں کے دلوں کے ساتھ بھڑکتی تھی۔ اس کے بند کمرے سے جسے دروازہ توڑ کر ہوسٹل کے کمرے سے نکالا گیا، اس میں حبیب جالب، فیض اور غالب کا کلام موجود تھا، کمرے میں چی گویرا کی تصویر اور نعتیہ کلام وغیرہ۔ واللہ عالم بالصواب۔
لوگ کہتے ہیں کہ ایک طویل عرصے سے پاکستان میں مفکر، بڑے دانشور اور سیاستدان نہیں پیدا ہو رہے ہیں، نہ بڑے نثر نگار ہیں، جرأت آموز سخن تو ملک سے جاتا رہا۔ درحقیقت ابھی بھی لگتا ہے کہ ضیا الحق کی حکومت کا تسلسل ہے، صرف اگر کوئی تھوڑی بہت تبدیلی آئی ہے تو چین کے نام کا سی پیک۔ باقی نہ طلبا یونین ہیں اور نہ دو نظریات والے لوگ، کیونکہ اگر یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین ہوتی تو یہ اندوہناک واقعہ رونما نہ ہوتا۔ ملک میں جو بھی لاقانونیت ہورہی ہے، وہ عجیب بات ہے مذہب کی آڑ میں ہو رہی ہے۔ اور اب صورتحال ایسی ہے کہ آنحضرت کی تکریم سے وہ واقف ہی نہیں۔ ہمارے نبی رحمت عالمؐ بن کر دنیا میں آئے مگر لوگوں نے ازخود سیرت النبی کا مطالعہ چھوڑ دیا ہے ۔
تکریم انسانیت ہی اسوہ حسنہ کا ایک عظیم نمونہ ہے۔ آپ نے دین کا نام ہی سلامتی کے معنی میں رکھا، دین و دنیا کو شاداب کیا۔ جوں جوں سائنس ترقی کر رہی ہے ملحدانہ فکر کمزور ہو رہی ہے اور اخوت کا پروگرام عالم گیر بنتا جا رہا ہے۔ یہ جدید دنیا سمجھتی جا رہی ہے۔ مگر افسوس کہ لوگ اسلام اور نبی کے نام پر بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رہے ہیں اور اسلام کو سلامتی سے دور کرنے میں مصروف عمل ہیں اور ان کو اس کام کے لیے اسلام دشمنوں سے مادی مدد بھی مل رہی ہے۔ اسلام انسانیت، رحم دلی، سخاوت، عدل اور انصاف کا اعلان کرتا ہے۔ آخر قتل و غارت گری کی بگڑتی ہوئی صورتحال مسلم ممالک میں ہی کیوں ہے؟یہ خودبخود نہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سامراجی ممالک کی سیاسی ریشہ دوانیاں اور خصوصاً اسرائیل کا قیام ۔
اسلام ایک واحد دین ہے جس میں ملوکیت کی بیخ کنی کی گئی ہے اور زکوٰۃ کو لازم قرار دیا گیا ہے، قربانی ایثار کو بھی مسخ کیا جا رہا ہے، عید قرباں کو راہ خدا اور غربا کی مدد کے بجائے دولت کا دکھاوا بنتا جا رہا ہے۔ جانوروں کے بیوٹی کمپٹیشن۔ حضور اکرم نے امارت کو ختم کیا، اب اسلام کی روح پر ضرب لگائی جا رہی ہے، مگر اصل راستے پر کون واپس لائے گا؟ فروعات کو اسلام کا نام دیا جا رہا ہے، اسلام کا روحانی پیغام نابود کیا جا رہا ہے اور ہم مغرب کی راہ پر چل رہے ہیں، جس نے پوری اسلامی دنیا میں فساد پھیلا دیا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے سیرت طیبہ کا مطالعہ بغور کیا جائے۔
مشال کو پہلے ہوسٹل سے لا کر برہنہ کیا گیا، گولی ماری گئی، ہڈی پسلی توڑی گئی۔ یہ تو دور جاہلیت کا عرب تھا، جس کو سرور کائنات احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ نے اس تاریکی سے باہر نکالا اور اب یہ لوگ تہذیب سے دور کرکے واپس دور جاہلیت کی طرف لے جا رہے ہیں۔ مسلمان ممالک میں ایسے واقعات بڑی تیزی سے رونما ہو رہے ہیں۔ لیبیا کے رہنما معمر قذافی جنھوں نے اپنے ملک کے عوام کو روزگار، روٹی، کپڑا مکان دیا تھا، ان پر بھی ایسا ظلم روا رکھا اور اب وہاں لاقانونیت کا دور دورہ ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ وہاں غلاموں کی منڈی لگائی جا رہی ہے اور غلام فروخت ہو رہے ہیں۔
غلامی کے خاتمے پر آنحضرت نے تاریخ میں پہلا قدم اٹھایا اور غلاموں کی آزادی کو ثواب اور ان کے حقوق کا خیال کیا گیا، جب ہی تو حضرت عمرؓ کا وہ واقعہ جس میں آدھے راستے وہ اونٹ پر بیٹھتے اور آدھے راستے غلام۔ یہ درس مساوات تھا۔ ایسی ہی ایک مثال روز مرہ کے لیے روایت ہے کہ دختر رسول خداؐ جو آدھا کام گھر کے بشمول چکی چلانے اور جَو پیسنے پر مامور تھیں تو آدھے کام کنیز سیدہ بتول حضرت فضہؓ کرتی تھیں۔ یہ تھا درس اسلام، جو جاتا رہا، امت فروعات کو مذہب سمجھ بیٹھی، کیونکہ اسلامی ممالک میں عوام الناس کو اقتدار سے دور کردیا، اسلام میں سچائی، رحم دلی اخوت اور انصاف کی بالادستی ہے، آب نسیاں کا ایک قطرہ جب موتی بنتا ہے تو کس منزل سے گزرتا ہے، اس کو مرزا غالب نے یوں بیان کیا ہے:
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک
مشال شاعری کرتا تھا ۔ اس کی آزاد شاعری میں اپنی گمشدگی کا نوحہ بھی ہے، جو انٹرنیٹ سوشل میڈیا پر دستیاب ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ وہ کسی گاؤں دیہات میں بے دردی سے قتل نہیں ہوا، بلکہ ایک درسگاہ میں اس کی لاش کی بے حرمتی کی گئی اور ایسا کچھ کیا گیا جس کو آنحضرتؐ نے منع فرمایا ہے۔ ہمارے نبی نے جنگ کے آداب بھی بتائے ہیں، پانی بند کرنا خواہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو روا نہیں۔ بھاگتے ہوئے کو قتل نہ کرو، ہتھیار گرانے والے کو بھی قتل نہ کرو، اور کئی آداب جنگ و امن ہیں جس کی ابتدا آنحضرتؐ نے فرمائی۔
آبادیوں کو آگ لگانا تو دور کی بات درختوں کو بلاجواز کاٹنے کو منع فرمایا، جس کو آج کی دنیا رو رہی ہے، اگر ملک میں قانون ہاتھ میں لینے کے لیے کوئی روک ٹوک نہ ہوئی تو پھر ملک انتشار اور خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجائے گا۔ علما دین اور دیگر حلقے دو حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے اور اسلامی ریاست کا خواب انتہا پسندی کی نذر ہوجائے گا اور ہر شخص خوف کے حصار میں زندہ رہے گا۔ ایسی صورت میں ترقی پر تنزلی حاوی ہوجائے گی۔ اسی لیے مولانا الطاف حسین نے نبی کریمؐ پر ان کی رواداری، محبت اور کرم نوازی پر بچوں کے لیے بے شمار نظمیں کہی ہیں، بقول حالی کے
خطاکار کو درگزر کرنے والا
لگتا ہے کہ سیاسی کارکن بھی سیاسی اور انسانی تعلیم سے کوسوں دور ہیں، کیونکہ بیشتر کارکن وہ تھے جنھوں نے پارٹیوں میں رکنیت رکھی تھی، لگتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں اخلاق اور کردار کا درس جاتا رہا۔ مگر جن لوگوں نے مشال خان کی شمع کو گل کرنے کی کوشش کی وہ تو پوری پوری دنیا کے چینلوں پر پوری آب و تاب سے روشن ہے اور فکری انقلاب برپا کر رہی ہے۔