سفر نصیب کا سفر بھی تمام ہوا
مختارمسعود صاحب سے عقیدت پہلے بھی تھی
اردو کے منفرد نثر نگار مختار مسعود صاحب بھی راہی ملک عدم ہوئے۔کہنے کو وہ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ اورمعمر ادیب تھے، جو ایک بھرپور گزارنے کے بعد رخصت ہو گئے ہیں، لیکن حقیقتاًان کی موت صرف ایک فرد کی موت نہیں، بلکہ ایک عہد کی موت ہے۔ مختارمسعود صاحب کا شمار علی گڑھ کالج کے ان گنے چنے طلبا میں ہوتا تھا، جنھوںنے پہلی جماعت سے لے کر ایم اے تک یہیں تعلیم حاصل کی ۔ یوں وہ سرتاپا علیگ تھے۔ سرسید احمد خان اوران کی تعلیمی تحریک سے ان کی وابستگی ایسی تھی کہ کہا کرتے، میرے والد کشمیری شیخ تھے، لیکن میں سرسید زادہ ہوں، اور یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔
مختارمسعودصاحب کے اسلوب نگارش سے پہلا تعارف پنجاب یونیورسٹی لا کالج کے زمانہ میں ہوا۔ نیوکمیپس ہوسٹل نمبر ۸ میں عابد ساقی، جو اب جانے پہچانے وکیل رہ نما ہیں، کا کمرہ اور میرا کمرہ ساتھ ساتھ ہی تھے۔ ادب کا لپکا ان کو بھی تھااور مجھے بھی۔ 'آوازدوست' پہلی بار میں نے ان کے ہاتھ میں دیکھی تھی ۔ وہ 'آوازدوست' کے شیدائی تھے۔ کبھی ترنگ میں آتے تو کتاب کا کوئی پورے کا پورا پیراگراف، ایک لفظ ادھر ادھر کیے بغیر، زبانی پڑھ دیتے تھے۔ میں نے یہ کتاب پڑھی تومیں بھی مختار مسعود صاحب کے اسلوب نگارش کا گرویدہ ہوگیا۔
یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ انگریزی تعلیم کے پروردہ اور سکہ بند بیوروکریٹ ہونے کے باوجود روایتی دلنشیں اردو میں اپنا مافی الضمیربیان کرتے ہیں۔ انھی دنوں کی بات ہے کہ ہمدم دیرینہ طارق محمود احسن کے ہمراہ گجرات جلالپورجٹاں جانا ہوا۔ شہرگردی کے دوران ایک محلہ کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک گلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا، یہ وہ گلی ہے، جس میں مختارمسعود صاحب کا آبائی گھر ہے۔
مختارمسعود صاحب سے عقیدت پہلے بھی تھی، گجرات کی نسبت سے یہ دوچند ہوگئی۔ معلوم ہواکہ مختارمسعود صاحب کشمیری شیخ ہیں۔ ان کے والد شیخ عطا صاحب سرسید احمد خاں کے معتقدین میں سے تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے اور بسلسلہ ملازمت وہیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ قیام پذیر ہو گئے تھے۔ تعلیم وتدریس سے والد مرحوم کی اس گونا وابستگی کے اعتراف میں ہی مختارمسعود صاحب نے شیخ عطا ٹرسٹ قائم کیا تھا،اور گجرات جلالپورجٹاں میں اپنے آبائی گھرکو،بجائے فروخت کرنے کے، تعلیم وتدریس کے لیے وقف کر دیا تھا۔
مختارمسعودصاحب نے تھوڑا لکھا، مگر خوب لکھا۔ ان کی کتاب 'آواز دوست' کو بے پناہ شہرت ملی، لیکن ' سفرنصیب' میں ان کا اسلوب نگارش حقیقتاً فن کی بلندیوں کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ 'سفرنصیب' دوسفری داستانوں اور دوشخصی خاکوں پرمشتمل ہے۔ پہلا خاکہ راولپنڈی کے پروفیسر ڈاکٹر ایل کے حیدر کا ہے، جو علی گڑھ یونیورسٹی میں ان کے استاد تھے۔
دوسرا خاکہ گجرات کے ڈاکٹر فضل الرحمان کاہے، جو علی گڑھ یونیورسٹی میں ان کے سینئر طالب علم تھے۔ یہ دونوں خاکے اپنی مثال آپ ہیں اور اس لحاظ سے بڑے اہم ہیں کہ اردو کے اس عظیم نثر نگار نے صرف یہی دو خاکے لکھے ہیں۔ خاکہ تو ڈاکٹر ایل کے حیدر کا بھی معرکے کا ہے، لیکن فضل الرحمان کے خاکے کی بات ہی کچھ اورہے۔ بقول ان کے، یہ فضل الرحمان تھے، جنھوں نے پہلی بار ان پر یہ رازحیات منکشف کیا کہ مسعود میاں، پڑھنے کو تمہیں سب کہیں گے، لیکن سیروسیاحت کے لیے کہنے والا میرے سوا کوئی نہیں ملے گا۔ حالانکہ سیروسیاحت کے بغیر زندگی بسر کرنا نباتات کی مجبوری ہے، مگر اشرف المخلوقات کا شیوہ نہیں ہے۔ علم اور سفر لازم وملزوم ہیں۔ فضل الرحمان کے خاکے 'زاد سفر' میں مختارمسعود صاحب کی اپنی سیلانی طبیعت کا پرتو بھی نظرآتا ہے۔
فضل الرحمان کی کہانی فلم کی اصطلاح میں ایک thrilling story ہے۔ یوں ہے کہ پہلی جنگ عظیم کو ختم ہوئے کوئی دس سال گزرے ہوں گے کہ ایک پندرہ سولہ سالہ لڑکا گجرات شہر کے شاہدولہ دروازے سے نکلتا ہے، اور براعظم ہند اور بحرہند کو عبور کرنے کے بعد افریقی جزیرے زنجبار میں سلطان کے محل کے دروازے پر جا نکلتا ہے اور اس کے حفاظتی دستے میں بھرتی ہو جاتاہے ۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک دہائی گزرجاتی ہے ۔ ایک روز اس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ زندگی ازسرنو شروع کرنی چاہیے۔
وہ اپنی ادھوری تعلیم مکمل کرنے کے لیے علی گڑھ کالج پہنچ جاتاہے، جہاں اس کی پہلی جائے قیام مختارمسعود صاحب کا گھر ہے۔ عمر ایسی ہے کہ ہم جماعت طلبہ سے دس برس بڑا اور اساتذہ سے دس برس چھوٹا ہے۔ خوش شکل، ہنس مکھ اور بات کہنے کا ڈھنگ جانتا ہے، لہٰذا بہت جلد اس کا شمار کالج کے مقبول طلبہ میں ہونے لگتا ہے۔ سال اول میں پہلی پوزیشن حاصل کرتے ہی اس کو خیال آتا ہے کہ کیوں نہ پڑھنے کے لیے انگلستان چلا جاوں۔ احباب روکتے ہیں لیکن ایک روز انگلستان کے لیے روانہ ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد دوسری جنگ عظیم شروع ہوجاتی ہے۔
جنگ کی ہولناکی میں فضل الرحمان تنہا اور بے یارومددگار ہے، مگر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا۔ جن دنوںمیں جاپانی ہتھیارڈالتے ہیں اور جنگ دونوں محاذوںپرانجام کو پہنچتی ہے،معلوم ہوتا ہے کہ فضل الرحمان ریڈنگ یونیورسٹی سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہے ۔ یہ خبر علی گڑھ پہنچتی ہے۔ ہر کوئی اس کی ہمت کی داد دیتا ہے۔فضل الرحمان واپس ہندوستان پہنچتا ہے ۔آزادی کا دن قریب آچکاہے۔ مختارمسعودکا خاندان بھی علی گڑھ سے واپسی کے لیے سامان باندھ رہا ہے۔ ایک روز تارملتا ہے کہ فضل الرحمان بھی دہلی سے گاڑی بدل کر سیدھے لاہور جا رہا ہے۔
مختارمسعود اس سے ملنے کے لیے دہلی ریلوے اسٹیشن پہنچتے ہیں۔ فضل الرحمن کو دیکھتے ہیں ، تو دنگ رہ جاتے ہیں۔ اب اس میں شوخی ہے نہ طراری، قصے ہیں نہ قہقہے، شوروغل ہے نہ بحث مباحثہ۔ بس مختصر جملے ہیں اور نرم مسکراہٹ۔ کہتا ہے، میں نے تاریخ کی سب سے بڑی جنگ کو قریب سے دیکھا ہے۔ میں نے مرگ انبوہ اور مرگ مفاجات کا منظر دیکھا ہے۔ ضروریات زندگی کا دن بدن کم ہونا اور نایاب جرات کا روزبروز فراواں ہونا دیکھا ہے۔ میں نے جو خوبیاں دوسری قوموں میں دیکھی ہیں، وہ اپنی قوم میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔مگر میں اس بات سے بھی واقف ہوں کہ یہ خوبیاں راتوں رات پیدا نہیں ہوتیں، ان کے لیے کئی نسلوں تک مسلسل کام کرناپڑتا ہے۔
میں نے اس پر بہت غورکیا ہے، مزید غور کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں، مگر جتنا سوچتاہوں، ہنسی اتنی کم ہو جاتی ہے۔کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اونچابولنا قوت کا اور بے مصرف بولنا مہلت کا غلط استعمال ہے۔ مسعود میاں، اب تو آپ ماشااللہ بڑے ہو گئے ہیں، وہ جو میں آپ کو علم اور سفر کے بارے میں کہا کرتا تھا، وہ نصیحت اب زیادہ اصرار کے ساتھ کرنا چاہتاہوں۔ وہ دنیا جو میں نے تیسری دہائی میں دیکھی تھی، وہ کھیت رہی، اب ایک نئی دنیا کی تعمیر کی امید ہے۔
اس خاکے کا آخری پیراگراف پڑھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر فضل الرحمن کی سیلانی شخصیت نے کس طرح مختارمسعود صاحب کو متاثر کیا اور ان پر حصول علم کی ایک نئی راہ کھولی۔ اردوخاکہ نگاری میں کم ہی کسی خاکہ کا اس قدر پراثر اختتام ہواہے۔ دہلی ریلوے اسٹیشن پر فضل الرحمان، جو اب ڈاکٹر فضل الرحمان ہو چکے ہی ، کو الوداع کرتے ہوئے مختارمسعود صاحب لکھتے ہیں؛ اس روز ریلوے اسٹیشن پر ہماری راہیں جدا ہوگئیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمان کی گاڑی ایک سمت روانہ ہوئی اور ہم دوسری سمت جانے والی گاڑی میں سوار ہوگئے۔
اس کے بعد ان سے ملاقات بہت کم ہوئی اور جب ہوئی تو سرسری اورتشنہ۔ انھوں نے کئی برس فلسفہ پڑھایااور پھر دوسری بار قبل ازوقت پنشن لے کرکراچی سے گجرات واپس آ گئے۔اسی شاہدولہ کے محلہ میں جسے چالیس سال پہلے ایک جزیرہ کے سفر کے شوق میں چھوڑا تھا، واپس آ کر بے سفر اوربے سیاحت لوگوں میں یوں گھل مل گئے کہ انھوںنے ڈاکٹر فضل الرحمان کومحلہ مسجد کمیٹی کا صدر چن لیا۔ نائب صدر شاہدولہ دروازہ کے باہر عطاری کی دکان کرتے تھے اور جنرل سیکریٹری کی جوتوں کی دکان اندرون مسلم بازار میں واقع تھی۔ ڈاکٹر صاحب مسجد میں واعظ دینے لگے۔
ایک بار ملے تو کہنے لگے، میں قوم کے لیے ایک اہم کام کرنا چاہتا ہوں۔آج کل اس کی تیاری کر رہا ہوں۔ تفصیل پوچھی تو انتظارکرنے کے لیے کہا۔ سب انتظارکرتے رہ گئے اور سیلانی اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگیا۔ اب کون اسے خبر کرے کہ جس چھوٹے سے بچے کے دل میں اس نے برسوں پہلے شوق کی آگ بھڑکائی تھی، وہ خوش نصیب اور سفرنصیب نکلا۔ وہ آج بھی سفر میں ہے اور بہت خوش ہے۔ ایک صاحب السیرکی یاد آتی ہے تو مسافر یہ شعر پڑھتا اور سردھنتا ہے،
صبابلطف بگوآں غزال ِ رعنا را
کہ سربکوہ و بیاباں تو دادہٗ مارا
سفر نصیب مختارمسعود صاحب کا سفر بھی تمام ہوا ، اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جواررحمت میں جگہ عطا فرمائے۔
مختارمسعودصاحب کے اسلوب نگارش سے پہلا تعارف پنجاب یونیورسٹی لا کالج کے زمانہ میں ہوا۔ نیوکمیپس ہوسٹل نمبر ۸ میں عابد ساقی، جو اب جانے پہچانے وکیل رہ نما ہیں، کا کمرہ اور میرا کمرہ ساتھ ساتھ ہی تھے۔ ادب کا لپکا ان کو بھی تھااور مجھے بھی۔ 'آوازدوست' پہلی بار میں نے ان کے ہاتھ میں دیکھی تھی ۔ وہ 'آوازدوست' کے شیدائی تھے۔ کبھی ترنگ میں آتے تو کتاب کا کوئی پورے کا پورا پیراگراف، ایک لفظ ادھر ادھر کیے بغیر، زبانی پڑھ دیتے تھے۔ میں نے یہ کتاب پڑھی تومیں بھی مختار مسعود صاحب کے اسلوب نگارش کا گرویدہ ہوگیا۔
یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ انگریزی تعلیم کے پروردہ اور سکہ بند بیوروکریٹ ہونے کے باوجود روایتی دلنشیں اردو میں اپنا مافی الضمیربیان کرتے ہیں۔ انھی دنوں کی بات ہے کہ ہمدم دیرینہ طارق محمود احسن کے ہمراہ گجرات جلالپورجٹاں جانا ہوا۔ شہرگردی کے دوران ایک محلہ کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک گلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا، یہ وہ گلی ہے، جس میں مختارمسعود صاحب کا آبائی گھر ہے۔
مختارمسعود صاحب سے عقیدت پہلے بھی تھی، گجرات کی نسبت سے یہ دوچند ہوگئی۔ معلوم ہواکہ مختارمسعود صاحب کشمیری شیخ ہیں۔ ان کے والد شیخ عطا صاحب سرسید احمد خاں کے معتقدین میں سے تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے اور بسلسلہ ملازمت وہیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ قیام پذیر ہو گئے تھے۔ تعلیم وتدریس سے والد مرحوم کی اس گونا وابستگی کے اعتراف میں ہی مختارمسعود صاحب نے شیخ عطا ٹرسٹ قائم کیا تھا،اور گجرات جلالپورجٹاں میں اپنے آبائی گھرکو،بجائے فروخت کرنے کے، تعلیم وتدریس کے لیے وقف کر دیا تھا۔
مختارمسعودصاحب نے تھوڑا لکھا، مگر خوب لکھا۔ ان کی کتاب 'آواز دوست' کو بے پناہ شہرت ملی، لیکن ' سفرنصیب' میں ان کا اسلوب نگارش حقیقتاً فن کی بلندیوں کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ 'سفرنصیب' دوسفری داستانوں اور دوشخصی خاکوں پرمشتمل ہے۔ پہلا خاکہ راولپنڈی کے پروفیسر ڈاکٹر ایل کے حیدر کا ہے، جو علی گڑھ یونیورسٹی میں ان کے استاد تھے۔
دوسرا خاکہ گجرات کے ڈاکٹر فضل الرحمان کاہے، جو علی گڑھ یونیورسٹی میں ان کے سینئر طالب علم تھے۔ یہ دونوں خاکے اپنی مثال آپ ہیں اور اس لحاظ سے بڑے اہم ہیں کہ اردو کے اس عظیم نثر نگار نے صرف یہی دو خاکے لکھے ہیں۔ خاکہ تو ڈاکٹر ایل کے حیدر کا بھی معرکے کا ہے، لیکن فضل الرحمان کے خاکے کی بات ہی کچھ اورہے۔ بقول ان کے، یہ فضل الرحمان تھے، جنھوں نے پہلی بار ان پر یہ رازحیات منکشف کیا کہ مسعود میاں، پڑھنے کو تمہیں سب کہیں گے، لیکن سیروسیاحت کے لیے کہنے والا میرے سوا کوئی نہیں ملے گا۔ حالانکہ سیروسیاحت کے بغیر زندگی بسر کرنا نباتات کی مجبوری ہے، مگر اشرف المخلوقات کا شیوہ نہیں ہے۔ علم اور سفر لازم وملزوم ہیں۔ فضل الرحمان کے خاکے 'زاد سفر' میں مختارمسعود صاحب کی اپنی سیلانی طبیعت کا پرتو بھی نظرآتا ہے۔
فضل الرحمان کی کہانی فلم کی اصطلاح میں ایک thrilling story ہے۔ یوں ہے کہ پہلی جنگ عظیم کو ختم ہوئے کوئی دس سال گزرے ہوں گے کہ ایک پندرہ سولہ سالہ لڑکا گجرات شہر کے شاہدولہ دروازے سے نکلتا ہے، اور براعظم ہند اور بحرہند کو عبور کرنے کے بعد افریقی جزیرے زنجبار میں سلطان کے محل کے دروازے پر جا نکلتا ہے اور اس کے حفاظتی دستے میں بھرتی ہو جاتاہے ۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک دہائی گزرجاتی ہے ۔ ایک روز اس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ زندگی ازسرنو شروع کرنی چاہیے۔
وہ اپنی ادھوری تعلیم مکمل کرنے کے لیے علی گڑھ کالج پہنچ جاتاہے، جہاں اس کی پہلی جائے قیام مختارمسعود صاحب کا گھر ہے۔ عمر ایسی ہے کہ ہم جماعت طلبہ سے دس برس بڑا اور اساتذہ سے دس برس چھوٹا ہے۔ خوش شکل، ہنس مکھ اور بات کہنے کا ڈھنگ جانتا ہے، لہٰذا بہت جلد اس کا شمار کالج کے مقبول طلبہ میں ہونے لگتا ہے۔ سال اول میں پہلی پوزیشن حاصل کرتے ہی اس کو خیال آتا ہے کہ کیوں نہ پڑھنے کے لیے انگلستان چلا جاوں۔ احباب روکتے ہیں لیکن ایک روز انگلستان کے لیے روانہ ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد دوسری جنگ عظیم شروع ہوجاتی ہے۔
جنگ کی ہولناکی میں فضل الرحمان تنہا اور بے یارومددگار ہے، مگر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا۔ جن دنوںمیں جاپانی ہتھیارڈالتے ہیں اور جنگ دونوں محاذوںپرانجام کو پہنچتی ہے،معلوم ہوتا ہے کہ فضل الرحمان ریڈنگ یونیورسٹی سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہے ۔ یہ خبر علی گڑھ پہنچتی ہے۔ ہر کوئی اس کی ہمت کی داد دیتا ہے۔فضل الرحمان واپس ہندوستان پہنچتا ہے ۔آزادی کا دن قریب آچکاہے۔ مختارمسعودکا خاندان بھی علی گڑھ سے واپسی کے لیے سامان باندھ رہا ہے۔ ایک روز تارملتا ہے کہ فضل الرحمان بھی دہلی سے گاڑی بدل کر سیدھے لاہور جا رہا ہے۔
مختارمسعود اس سے ملنے کے لیے دہلی ریلوے اسٹیشن پہنچتے ہیں۔ فضل الرحمن کو دیکھتے ہیں ، تو دنگ رہ جاتے ہیں۔ اب اس میں شوخی ہے نہ طراری، قصے ہیں نہ قہقہے، شوروغل ہے نہ بحث مباحثہ۔ بس مختصر جملے ہیں اور نرم مسکراہٹ۔ کہتا ہے، میں نے تاریخ کی سب سے بڑی جنگ کو قریب سے دیکھا ہے۔ میں نے مرگ انبوہ اور مرگ مفاجات کا منظر دیکھا ہے۔ ضروریات زندگی کا دن بدن کم ہونا اور نایاب جرات کا روزبروز فراواں ہونا دیکھا ہے۔ میں نے جو خوبیاں دوسری قوموں میں دیکھی ہیں، وہ اپنی قوم میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔مگر میں اس بات سے بھی واقف ہوں کہ یہ خوبیاں راتوں رات پیدا نہیں ہوتیں، ان کے لیے کئی نسلوں تک مسلسل کام کرناپڑتا ہے۔
میں نے اس پر بہت غورکیا ہے، مزید غور کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں، مگر جتنا سوچتاہوں، ہنسی اتنی کم ہو جاتی ہے۔کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اونچابولنا قوت کا اور بے مصرف بولنا مہلت کا غلط استعمال ہے۔ مسعود میاں، اب تو آپ ماشااللہ بڑے ہو گئے ہیں، وہ جو میں آپ کو علم اور سفر کے بارے میں کہا کرتا تھا، وہ نصیحت اب زیادہ اصرار کے ساتھ کرنا چاہتاہوں۔ وہ دنیا جو میں نے تیسری دہائی میں دیکھی تھی، وہ کھیت رہی، اب ایک نئی دنیا کی تعمیر کی امید ہے۔
اس خاکے کا آخری پیراگراف پڑھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر فضل الرحمن کی سیلانی شخصیت نے کس طرح مختارمسعود صاحب کو متاثر کیا اور ان پر حصول علم کی ایک نئی راہ کھولی۔ اردوخاکہ نگاری میں کم ہی کسی خاکہ کا اس قدر پراثر اختتام ہواہے۔ دہلی ریلوے اسٹیشن پر فضل الرحمان، جو اب ڈاکٹر فضل الرحمان ہو چکے ہی ، کو الوداع کرتے ہوئے مختارمسعود صاحب لکھتے ہیں؛ اس روز ریلوے اسٹیشن پر ہماری راہیں جدا ہوگئیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمان کی گاڑی ایک سمت روانہ ہوئی اور ہم دوسری سمت جانے والی گاڑی میں سوار ہوگئے۔
اس کے بعد ان سے ملاقات بہت کم ہوئی اور جب ہوئی تو سرسری اورتشنہ۔ انھوں نے کئی برس فلسفہ پڑھایااور پھر دوسری بار قبل ازوقت پنشن لے کرکراچی سے گجرات واپس آ گئے۔اسی شاہدولہ کے محلہ میں جسے چالیس سال پہلے ایک جزیرہ کے سفر کے شوق میں چھوڑا تھا، واپس آ کر بے سفر اوربے سیاحت لوگوں میں یوں گھل مل گئے کہ انھوںنے ڈاکٹر فضل الرحمان کومحلہ مسجد کمیٹی کا صدر چن لیا۔ نائب صدر شاہدولہ دروازہ کے باہر عطاری کی دکان کرتے تھے اور جنرل سیکریٹری کی جوتوں کی دکان اندرون مسلم بازار میں واقع تھی۔ ڈاکٹر صاحب مسجد میں واعظ دینے لگے۔
ایک بار ملے تو کہنے لگے، میں قوم کے لیے ایک اہم کام کرنا چاہتا ہوں۔آج کل اس کی تیاری کر رہا ہوں۔ تفصیل پوچھی تو انتظارکرنے کے لیے کہا۔ سب انتظارکرتے رہ گئے اور سیلانی اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگیا۔ اب کون اسے خبر کرے کہ جس چھوٹے سے بچے کے دل میں اس نے برسوں پہلے شوق کی آگ بھڑکائی تھی، وہ خوش نصیب اور سفرنصیب نکلا۔ وہ آج بھی سفر میں ہے اور بہت خوش ہے۔ ایک صاحب السیرکی یاد آتی ہے تو مسافر یہ شعر پڑھتا اور سردھنتا ہے،
صبابلطف بگوآں غزال ِ رعنا را
کہ سربکوہ و بیاباں تو دادہٗ مارا
سفر نصیب مختارمسعود صاحب کا سفر بھی تمام ہوا ، اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جواررحمت میں جگہ عطا فرمائے۔