کراچی اور لاہور کے پھول
پہلے اسلام آباد ملک کا خوبصورت شہر شمار ہوتا تھا اور خوبصورت تو اپنے اعتبار سے ویسے بھی ہے
لاہور:
کبھی پشاور پھولوں کا شہر کہلاتاتھا مگر اب لاہور بلا شبہ خوبصورت رنگ برنگے پھولوں کا شہر ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں پھولوں کے باعث لاہور کی خوبصورتی کے چرچے عام ہیں اور جو بھی لاہور جاتا ہے سڑکوں کے کنارے رنگ برنگے مختلف اقسام کے پھولوں کو دیکھ کر محظوظ ہوتا ہے اور لاہور کی تعریف کیے بغیر نہیں رہتا جب کہ لاہور تو لاہور ہے ہی مگر لاہور کو اس مقام پر پہنچانے میں پنجاب حکومت کا بڑا دخل ہے جب کہ بلدیہ عظمیٰ لاہور کے محکمہ پارکس کی اس بہترین کوشش اور محنت کو تسلیم نہ کرنا زیادتی ہوگی۔
پہلے اسلام آباد ملک کا خوبصورت شہر شمار ہوتا تھا اور خوبصورت تو اپنے اعتبار سے ویسے بھی ہے کیونکہ ملک کا دارالحکومت بھی ہے جہاں دنیا بھر کے سفارت کار موجود ہیں اور آتے جاتے ہیں اور اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے نے سرکاری افسروں کی سربراہی میں اسلام آباد کو خوبصورت بنایا اور اب پہلی بار اسلام آباد کا بلدیاتی کنٹرول منتخب بلدیاتی سربراہوں کے پاس آیا ہے اور سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے بعد عوامی نمایندوں کی کارکردگی آنے والا وقت ہی بتایا کرتا ہے جس کا فیصلہ اسلام آباد میں رہنے والے اور دنیا بھر سے وہاں آنے والے لوگ کریںگے۔
2001ء میں جب ایم کیو ایم نے جنرل پرویز مشرف کے ضلعی حکومتوں کے تحت بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا تو جماعت اسلامی کے سٹی ناظم اور اٹھارہ میں 14 ٹاؤنز کے ناظم منتخب ہوئے تھے جب کہ متحدہ 2002ء کے عام انتخابات کے بعد سندھ حکومت میں ایک با اختیار پارٹنر کے طور پر شامل ہوئی تھی اور بلدیات کا محکمہ بھی متحدہ کے پاس تھا مگر ضلعی نظام میں محکمہ بلدیات کے اختیارات محدود تھے اور وہ منتخب ناظمین کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا اور قومی تعمیر بیورو پورے ملک میں ضلعی حکومتوں کو کنٹرول کررہاتھا مگر اس کے اختیارات بھی محدود تھے جس کی وجہ سے متحدہ تین سال تک اپنے مخالف ناظمین کو برداشت کرنے پر مجبور رہی اور اس وقت کے مشیر بلدیات چاہتے ہوئے بھی سٹی حکومت کو کام سے نہ روک سکے۔ جس طرح اب سندھ حکومت بلدیہ عظمیٰ کراچی کو بے اختیار کرکے متحدہ کے میئر کو کام کرکے اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع نہیں دے رہی۔
الخدمت کے منتخب ناظمین نے بلاشبہ اپنے چار سالوں میں کراچی کو خوبصورت بنانے میں کسر نہیں چھوڑی تھی مگر جماعت اسلامی کے اپوزیشن میں ہونے اور صدارتی ریفرنڈم میں حمایت نہ کرنے کے باعث صدر جنرل پرویز نے سٹی حکومت کے ساتھ وہ تعاون نہیں کیا تھا جتنا بعد میں انھوں نے حق پرست سٹی حکومت کے ساتھ کیا جنھوں نے وفاق کی مکمل سرپرستی میں کراچی کو ملک کا خوبصورت شہر اور دنیا کا 13 واں میگا سٹی بناکر دکھایا تھا جب کہ اس وقت بھی لاہور میں مسلم لیگ قائد اعظم کے سٹی ناظم کی 8 سال سٹی حکومت رہی مگر وہ کراچی جیسی کارکردگی نہیں دکھاسکے تھے۔
الخدمت کے سٹی حکومت کے دور میں نئی سڑکیں تعمیر ہوئیں جن کے اطراف اور چورنگیوں پر مختلف خوبصورت پھول لگائے گئے تھے اور سٹی حکومت نے کراچی کے مختلف علاقوں میں خوبصورت ماڈل پارکس بنوائے تھے اور کراچی کی اہم سڑکوں اور ماڈل پارکوں میں پھولوں سے کراچی بھی کسی حد تک خوبصورت نظر آنے لگا تھا اور شہریوں کو خوبصورت پارکوں جیسی تفریح گاہیں میسر آئی تھیں۔
اس وقت متحدہ الزامات لگاتی تھی کہ الخدمت نے شہریوں کے بنیادی مسائل فراہمی و نکاسی کی لائنوں پر توجہ نہیں دی جو زمین میں دفن ہونے کے باعث ایسے کام نظر نہیں آتے اور الخدمت کے ناظمین نے دکھاوے کے کام کیے جس سے کچھ خوبصورتی نظر آجاتی تھی بعد میں متحدہ کے سٹی ناظم نے بھی سڑکوں کے درمیان سے فراہمی و نکاسی آب کی لائنیں سڑکوں کے کنارے منتقل کرائیں، پانی سے محروم علاقوں میں پانی پہنچایا۔
اوور ہیڈ برجوں اور انڈر پاسز کم وقت میں مکمل کرائے اور سائٹ سے شارع فیصل تک ٹریفک فری کوریڈور بنوائے مگر تعمیری و ترقیاتی کاموں کے دوران خوبصورتی کو اہمیت نہیں دی۔ الخدمت دور میں نظر آنے والے خوبصورت پھولوں کے مناظر سے شہری محروم کیے گئے جس پر الخدمت نے تنقید کی کہ حق پرستوں نے ہمارے منصوبے مکمل کراکر اپنا نام لگایا اور شہر کی خوبصورتی برقرار رکھنے کی بجائے مال کمانے کے کام کرائے دونوں پارٹیوں کے ناظمین نے شہر کے مسائل حل کرانے کے لیے اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق کام ضرور کرائے جن پر پی پی کی جمہوریت کی دعویدار سندھ حکومت کے مقرر کردہ سرکاری ایڈمنسٹریٹروں نے جو لاکھوں روپے رشوت دے کر کمانے آئے تھے شہری مسائل نظر انداز کرکے سابق ناظمین کی محنت پر پانی پھیر دیا اور کراچی کا حلیہ بگاڑنا شروع کیا اور آٹھ سالوں میں خوبصورت کراچی کو کچرا سٹی بنادیا، پورے شہر میں فراہمی و نکاسی آب کے ناقص سسٹم سے سڑکیں اور بازار اور اہم مارکیٹیں تک زیر آب رہنا معمول بن گیا۔ پارک اور کھیلوں کے میدان اجڑ گئے۔ تاریکی کو پروان چڑھایا گیا اور جس شہر میں پھول نظر آتے تھے وہاں کچرے کے ڈھیر، صفائی کا ایسا شدید فقدان پیدا کیا گیا کہ جو اب متحدہ کے بلدیاتی عہدیداروں سے جو اب برائے نام اختیارات کے حامل ہیں نہیںسنبھل پا رہا۔
کراچی میں ڈی ایچ اے کے ماتحت کنٹونمنٹس علاقوں میں صورت حال بلدیہ عظمیٰ کے علاقوں سے کافی بہتر ہے۔ کیونکہ وہاں سندھ حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔ کراچی اور لاہور کے پھولوں کے سلسلے میں شاید نیتوں کا بھی فرق ہے۔ جس کی ایک مثال 13 ڈی کا مصروف روڈ ہے جسے گلشن ٹاؤن وی آئی پی روڈ قرار دیتا تھا کے مختصر حصے پر جوڈبل روڈ ہے بلدیہ شرقی نے جہاں سڑکوں کے درمیان نئے لگائے گئے کھجور کے درختوں پر لائٹیں اور پھول لگوائے مگر عدم توجہی کے باعث ان میں ایک بھی پھول نہیں کھلا اور سب سوکھ گئے اور سوکھے پھولوں کے اوپر لائٹوں کی خوبصورتی یاد کرتے ہیں۔
پھولوں کے سوکھ جانے کے بعد بلدیہ شرقی نے سوکھے پھول بھی صاف کرادیے، کراچی میں پھول وی وی آئی پیز کی پریس کانفرنس اور اجلاسوں میں ان کے سامنے رکھے ہوئے ٹی وی پر نظر آتے ہیں تاکہ انھیں باہر پھیلی بدبو محسوس نہ ہو یا عوام پر حکومت کرنے والوں کے دفاتر، گھروں کے وسیع لانوں میں نظر آتے ہیں تو لاہور میں عام لوگ سڑکوں کنارے یا چوراہوں پر سجے رنگا رنگ پھول دیکھ کر محظوظ ہولیتے ہیں جو کراچی کے لوگوں کے نصیب میں نہیں ہیں۔ لاہور میں نالوں کے دونوں اطراف پھولوں کی خوبصورت نرسریاں لوگوں کو بدبوسے کسی حد تک بچالیتی ہیں تو کراچی کے نالوں میں ان کے پھول جیسے بچے گرجاتے ہیں تو انھیں فوری طور پر کوئی بچانے والا نہیں ہوتا پھر کئی روز تلاش کے بعد پھول جیسے بچوں کی لاشیں ہی ملتی ہیں لاہور میں رہنے اور آنے والوں کو ہر طرف مہکتے پھول دیکھنے کو ملتے ہیں تو کراچی میں ہر جگہ پھیلا کچرا اور کچرے کے دور تک پھیلے ڈھیر ہی نظر آتے ہیں۔