ہر مسئلے کا حل عدل اور صرف عدل

اب وقت آچکا ہے کہ مشال خان کے بہیمانہ قتل کے خلاف پوری قوم اٹھ کھڑی ہو


نجمہ عالم April 21, 2017
[email protected]

KARACHI: جس فیصلے کے انتظار میں پوری قوم سب کام چھوڑ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تھی بالآخر وہ مبارک گھڑی آگئی۔ فیصلہ بھی آگیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے ہمہ جہتی اثرات کیا ہوں گے۔ یوں تو اس کیس کے پانچ رکنی لارجز بینچ میں شامل ایک جج صاحب فرما چکے تھے کہ ''فیصلہ ایسا ہوگا کہ صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ عدل و انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔ ہماری خواہش ہی نہیں بلکہ دعا ہے کہ یہ دونوں باتیں نہ صرف درست ہوں بلکہ اس خصوصی فیصلے کے علاوہ بھی پورے معاشرے کے ہر معاملے کو عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہی حل کیا جائے اور یہ بھی کہ یہ فیصلہ آگے جاکر مملکت خداداد میں تاریخ ساز ثابت ہو، جو قومی (موجودہ) رویے کا رخ تبدیل کردے۔

عوام کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ کون سربراہ مملکت ہے اور کون نہیں وہ تو صرف اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ نام یا چہرے بدلنے سے اگر نظام نہ بدلے تو انتخابات، جمہوریت، آمریت، سب بے کار، فضول اور بے معنی ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ملک کے تمام ادارے تو پہلے ہی تباہ ہوچکے ہیں، امید کی آخری کرن عوام کے لیے صرف اور صرف عدلیہ رہ گئی ہے۔ اگر وہاں سب کچھ آئین و قانون کے مطابق ہو رہا ہے۔ بلاتفریق اعلیٰ و ادنیٰ سب کو یکساں بنیادوں پر انصاف بروقت مل رہا ہے تو ملک کے صد فی صد مسائل تو ازخود حل ہوسکتے ہیں۔امید یہی ہے۔

عوام بھلا ایسی جمہوریت کا کیا کریں جس میں مرد، عورت، بچے، بوڑھے، محنت کش، حتیٰ کہ طالب علم تک محفوظ نہ ہوں، قوم کا ہر فرد ہر وقت اپنی جان و مال، عزت و آبرو کو خطرے میں محسوس کرے۔ جو جرائم پیشہ ہیں، جو حرام کھا اور کما رہے ہیں وہ اگر قانون کی زد میں آتے ہیں تو بجا، ان کو قرار واقعی سزا نہ دینا بھی ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ مگر جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے حق حلال کی کمائی سے اپنے بچوں کو تعلیم دے کر ملک کے بہترین شہری بنانے کی تگ و دو کرتے ہیں، صرف اور صرف اس امید پر کہ ان کے بچے پڑھ لکھ کر نہ صرف ان کے بڑھاپے کا سہارا ہوں گے بلکہ ملک و قوم کی ترقی کا سبب بھی بنیں گے۔ مگر قانون کے نگراں، دین کے مبلغ ہی جب انھیں بلاجواز مجرم اور ناپسندیدہ قرار دے دیں۔

ان کی جان و مال کے محافظ ہی انھیں لاپتہ کردیں۔ دوسری جانب ایسی انتہا پسندی اور جنونیت ملک کے گوشے گوشے حتیٰ کہ درسگاہیں بھی اس کی زد میں آ جائیں، جہاں ذمے دار شہری اور احترام انسانیت کی تعلیم دی جاتی ہو۔ جب ملک بھر میں لوگ مذہبی اجتماع میں جاتے ہوئے گھبرائیں، مساجد میں محافظوں کی زیر نگرانی بھی خود کو غیر محفوظ سمجھیں۔ عبادت گاہیں آئے دن خون سے رنگین اور درسگاہیں قتل گاہیں بن جائیں۔ جمہوریت جس میں ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی کا قانوناً حق حاصل ہو۔ مگر کوئی اپنے منہ سے آواز بھی نہ نکال سکے کہ اس کے برابر کھڑے شخص کو اس کی آواز ناپسند ہے، اور وہ صرف اس ناپسندیدگی کی بنا پر بولنے والے کا گلا دبا سکتا ہے۔

اور پھر جنونیت کے حامیوں کی بھرپور حمایت پر اس ''دین'' کی پناہ حاصل کرلیتا ہے جس کا فرمان ہے ''ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے'' وہ دین جو اپنے پیروکاروں کو بتاتا ہے کہ ''قتل شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے''۔ مگر بلاثبوت کسی کی آواز کو دبانے کے لیے دین کا سہارا لینا جو بجائے خود ''توہین دین کے زمرے میں آتا ہے کے بارے میں ایسے ایسے عقائد کو پھیلانا کہ عام سے بھی کم معلومات رکھنے والا تو فوراً اپنے جامے سے باہر ہوجائے (سرگودھا کے نواح کا واقعہ کیا یہ ثابت نہیں کرتا) تو کیا ایسی صورت میں ہمارے علمائے کرام کا فرض نہیں بنتا کہ اس جنونیت، بربریت اور وحشت کے خلاف یوں ہی متحد ہوں جیسے وہ سیاسی مقاصد کے لیے اتحاد کی کوشش کرتے رہتے ہیں؟

کتنے ہی ایسے معاشرتی مسائل ہیں جن پر تمام مسالک کے علما اگر کھل کر واضح موقف اختیار کریں، ان مسائل پر اظہار خیال (تحریری و تقریری طور پر) کریں، خطبہ جمعہ میں بیان کریں تو معاشرے کے ہر فرد کا تذبذب دور ہوجائے۔ وہ مسائل جن کا کتاب و سنت میں واضح حل موجود ہے (وراثت، حقوق نسواں، طلاق وغیرہ) ان کو بھی متنازع بنادیا گیا ہے صرف دنیاوی فوائد کے حصول کے لیے۔ شاید ہم سب بھول گئے کہ زندگی چند روزہ ہے۔ پھر حقیقی عدالت میں ہم سب کو اپنے کیے کا جواب دینا ہوگا علما اور قومی رہنما کی ذمے داری عام افراد سے زیادہ ہے۔

حدیث شریف ہے کہ ''میری امت کے وہ عالم جو حق کو دنیاوی فوائد کے عوض چھپائیں گے یا حقائق میں رد و بدل کریں گے ان کا حشر علمائے یہود کے ساتھ ہوگا'' (اسلام آباد ایئرپورٹ پر چند روز قبل پیش آنے والا واقعہ (یعنی ہماری بہن بیٹیاں اتنی اہم جگہ پر بھی محفوظ نہیں) مردان یونیورسٹی میں ایک گھر کا چراغ گل کردینا، کیا یہ سب دنیا کو اسلام کا درست رخ دکھانے کی کوشش کہی جا سکتی ہے؟ اسلام سلامتی کا دین ہے جس کو دین وحشت و بربریت (معاذ اللہ) بنانا یوں تو دشمنان اسلام کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے مگر کیا ہم خود اس کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کر رہے؟ آخر ہمارا ایمان اتنا غیر مستحکم کیوں اور کیسے ہوگیا کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں خود کو اور اپنے دین کو تباہ (جو کبھی ہو ہی نہیں سکتا) کرنے لگے اور منصوبہ سازوں کے آلہ کار بن گئے؟

اب وقت آچکا ہے کہ مشال خان کے بہیمانہ قتل کے خلاف پوری قوم اٹھ کھڑی ہو۔ اگر اب بھی ہم نے بے حسی اختیار کیے رکھی تو پھر یہ آگ کل ہر گھر تک پہنچ جائے گی پھر کسی کا بیٹا کسی بھی جگہ محفوظ نہ ہو گا۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر طالبہ کے ساتھ ذلت آمیز سلوک پر خاموش بیٹھنے والوں کی اپنی بہن بیٹیاں محفوظ رہ سکیں گی؟ کاش سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے وحشیانہ قتل پر جس میں پولیس اہلکار بھی تماشا دیکھنے والوں میں شریک تھے قوم سراپا احتجاج بن جاتی تو جب سے اب تک جو مزید جوان کبھی پولیس مقابلے کے نام پر کبھی کسی تعصب کے حوالے سے ہلاک اور لاپتہ ہوئے تو شاید قومی سطح کے احتجاج کے بعد ایسا ممکن نہ ہوتا۔ مگر بالواسطہ یا بلاواسطہ حرام کھا کھا کر قومی غیرت و حمیت ختم ہو چکی ہے۔ اس کو بحال کرنے کے لیے مشال کے قاتلوں کو لفظی یا بیان بازی تک نہیں حقیقی معنوں میں کیفر کردار تک پہنچانا پوری قوم پر فرض ہو چکا ہے۔ ورنہ آپ خود اپنے بچوں کی سلامتی کی ضمانت نہیں دے سکیں گے۔

عرض یہ کرنا ہے کہ پاناما کے فیصلے کے بعد کیا یہ سب بلائیں، یہ جنونیت، یہ وحشت و بربریت سرزمین ''پاک'' سے ختم ہو جائیں گی؟ اگر ایسا ہو گیا تو واقعی یہ فیصلہ صدیوں نہیں بلکہ تاقیامت یاد رکھا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں