’’تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے‘‘
اقبال کے تصورِ عدل و انصاف کی بنیادیں اسلامی مساوات کے اصولوں پر استوار ہیں۔
KARACHI:
اقبال کا تصورِ عدل و مساوات
کسی بھی معاشرے کے استحکام میں عدل و مساوات پر مبنی اصول و ضوابط اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے نظامِ زیست تباہ ہو جاتے ہین، جن میں عدل و انصاف اور مساوات کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے۔ یہ فطرت کا قائم کردہ وہ اصولی ضابطہ ہے، جس کے ہونے سے قومیں ترقی کرتی ہیں اور نہ ہونے سے بر بادی کے دہانے تک پہنچ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاعرِ مِلّی علامہ محمد اقبالؒ نے استحکامِ ملّت پر مبنی ان کلیدی اصولوں کو اکثر مقامات پر موضوعِ شعر بنایا اور واضح طور پر اس امر کا اظہار کیا کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور معاشرے کے استحکام کے لیے عدل و مساوات کا داعی ہے۔
اقبال کے مطابق اسلام میں 'بندہ' اور 'بندہ نواز' کی تقسیم نہیں ہے بلکہ سرکارِ خدا میں 'بندہ و صاحب و محتاج و غنی' ایک ہو جایا کرتے ہیں۔ سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا لازوال خطبہ اس امر کی واضح شہادت فراہم کرتا ہے کہ کسی کالے کو گورے پر، گورے کو کالے پر، عجمی کو عربی پر، عربی کو عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں، ماسوائے تقویٰ کے___چناں چہ پیروانِ اسلام پر اُس نبیؐ کی سنت کی پیروی لازم ہے جس نے 'حبشی زادئہ حقیر' کو 'دوام' بخش دیا۔ یہ اُسی کے عشق کا فیض عام ہے کہ جس نے اسود و احمر میں اختلاط پیدا کیا اور غریب کو ہم پہلوئے امیر کر دیا۔
اقبال کی نظر میں ایسی اقوام کے سفینے ڈوب جاتے ہیں جو اپنی اساس عدل اور مساوات پر نہیں رکھتیں اور ان مثبت عناصر کے فقدان سے انسانیت فساد سے ہم کنار ہو جاتی ہے۔ ''بانگِ درا'' میں اقبال بڑے عالمانہ اور واعظانہ اسلوب میں لکھتے ہیں:
تمیزِ بندہ و آقا فسادِ آدمیت ہے
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
فکرِ اقبال کی رُو سے ایسے علوم، ایسی دانش اور تدبیر اور ایسی حکومت سازی کبھی نہیں پنپ سکتی جو غریب کا لہو چُوس کر استوار کی جائے۔ جس کے تحت نعرے تو مساوات کے بلند کیے جائیں لیکن عملی طور پر غریب کو غریب تر بنا دیا جائے اور وہ جیتے جی مر جائے___ایسے مقامات پر اقبال فکری و انقلابی رنگ و آہنگ اپناتے ہوئے اس طرح کے شعر رقم کرتے ہیں:
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدّبر، یہ حکومت!
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیمِ مساوات!
______
دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مُردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے
______
خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعلِ ناب
از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اقبال نے عدل مساوات کے تصورات کو اجاگر کرتے ہوئے دہقاں، مزدور یا معاشرے کے مادی اعتبار سے کم حیثیت طبقے کو کہیں بھی محض نعرئہ مستانہ الاپنے کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ زیادہ تر ایک مذہبی اسکالر، ایک مؤقر فلسفی اور ایک ماہر معاشیات و سماجیات کی حیثیت سے اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔ اقبال سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں عادلانہ و منصفانہ اصول رائج کرنے کے لیے کچھ عملی ضابطوں کے نفاذ کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں بہترین رہ نمائی اسلام ہی سے لی جا سکتی ہے۔
اس زاویے سے فکرِ اقبال کا زیادہ بلیغ طور پر اظہار فارسی کلام میں ہوا ہے جہاں وہ توضیحی اسلوب اپناتے ہوئے 'عدل' اور 'مساوات' کے اساسی نکات کی نہایت قابلِ عمل اور قابلِ قبول تفسیریں پیش کرتے ہیں۔ اقبال کے مطابق اسلام کا نظامِ زکوٰۃ معاشرے میں مساوات کی موثر طور پر ترتیب و تشکیل کرتا ہے۔ یہی وہ نظام ہے جو زر کی محبت کو ختم کرکے انسانوں کے مابین برابری کا احساس قائم کرتا ہے۔ ''اسرارِ خودی'' میں 'ضبطِ نفس' کے عنوان سے زکوٰۃ کے فضایل پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
حُبِّ دولت را فنا سازد زکوٰۃ
ہم مساوات آشنا سازد زکوٰۃ
جب کہ ''رموزِ بے خودی'' میں استدلالی اور تمثیلی رنگ و آہنگ میں عدل اور مساوات کے تصورات اجاگر کیے گئے ہیں۔ یہاں فکر و نظر اقبال عدل اور مساوات کے تصورات کو رسالتِ محمدیہؐ سے اثر پذیر دکھاتی ہے۔ اس مجموعے میں ''درمعنی ایں کہ مقصودِ رسالت محمدیہؐ تشکیل و تأسیسِ حریت و مساوات و اخوتِ بنی نوع آدم است'' کے زیر عنوان اقبال کہتے ہیں کہ آمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیش تر دنیا میں انسان، انسان کا غلام تھا اور بڑا ہی ناکس اور زیردست تھا۔ قیصروکسریٰ کی سطوت و شوکت اس کے لیے رہزن تھی جس نے اس کے دست و پا اور گردن میں کئی زنجیریں باندھ رکھی تھیں___ایسے میں نبیؐ رحمت آئے اور 'مسندِ خاقاں' غلاموں کے سپرد ہو گئی۔ یوں گویا تنِ آدم میں تازہ جاں پھونک دی گئی___ اور یہ کیوں کر ممکن ہوا؟ اس کی وضاحت اقبال ابیاتِ ذیل کی صورت میں کرتے ہیں:
''کل مومن اخوۃ'' اندر دلش
حریت سرمایۂ آب و گلش
ناشکیبِ امتیازات آمدہ
در نہادِ اُو مساوات آمدہ
گویا جب مومن یہ تصور کر لیتا ہے کہ وہ دوسرے مومن کا بھائی ہے تو خود بخود مساوات و برابری اور عدل و انصاف کے اصولوں پر مبنی معاشرہ وجود میں آ جاتا ہے۔
جہاں تک عادلانہ و منصفانہ نظام کے نفاذ کا تعلق ہے، اس سلسلے میں علامہ کے خیال میں اسلامی تاریخ کا مطالعہ بہترین معاونت کرتا ہے۔''رموزِ بے خودی'' میں ''حکایتِ سلطان مراد و معمار در معنیِ مساواتِ اسلامیہ'' کے زیر عنوان اقبال حکایتی و واقعاتی انداز میں اُس قصّے کو چھیڑتے ہیں جب قاضی کی عدالت میں ایک ایسا معمار فریاد کُناں ہوا جس کا ہاتھ سلطان مُراد نے اس کے طرزِ تعمیر کو پسند نہ کرنے کے باعث کاٹ دیا۔ شواہد کو پیش نظر رکھ کر قاضی نے بے دھڑک سلطان کے خلاف فیصلہ سُنا دیا اور کہا کہ اسلام کی رُو سے قانونِ قصاص ہی میں زندگی ہے اور اسی اصول سے زندگی کو ثبات حاصل ہے۔
اسلام کی نظر میں کمتر غلام احرار سے کسی صورت کم نہیں کہ بادشاہ کا خون معمار کے خون سے زیادہ رنگین نہیں ہوتا۔ چناں چہ سلطان نے بے اختیار اللہ کے حکم پر اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا، وہ الگ بات کہ مدعی(معمار) نے قرآن میں مرقوم ''اِن اللہ یا مرکم بالعدل والاحسان'' کے فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ خدا اور مصطفیؐ کے واسطے سلطان کو بخش دیا جائے۔ یوں اقبال برابری کے قانون کی شرح کرتے ہوئے ایک چیونٹی کے مانند حقیر معمار کو سلیمان جیسے سلطان پر فائق ٹھہرا کر 'سطوتِ آئینِ پیغمبرؐ سے روشناس کرا دیتے ہیں۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ قرآن کے سامنے بندہ و مولا برابر ہیں اور بوریا نشیں اور مسندِ دیبا پر متمکن ہونے والے میں کوئی فرق نہیں:
یافت مُورے بر سلیمانے ظفر
سطوتِ آئینِ پیغمبرؐ نگر
پیشِ قرآں بندہ و مولا یکے است
بوریا و مسندِ دیبا یکے است
یہ ہے عدل اور مساوات کا وہ تصور جو اسلام نے پیش کیا اور یہی وہ تصور ہے جس کا باعث ایک ایسی حجازی ملت قائم ہوئی جس نے قیصروکسریٰ کے استبداد کو مٹایا اور تاجِ سردارا کو اپنے پاؤں میں کچل ڈالا۔ اقبال نے اپنی طویل ڈرامائی تمثیل ''جاویدنامہ'' میں 'طاسینِ محمد' کے تحت ''نوحۂ روحِ ابوجہل درِ حرمِ کعبہ' کی ذیل میں مندرج اشعار میں ابوجہل کی روح کا نوحہ قلم بند کیا ہے جو بڑے رونے پیٹنے کے انداز میں اعلان کرتی ہے کہ ہمارا سینہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے عدل اور مساوات پر مبنی نظام نے داغ داغ کر دیا ہے۔
ان کی ایک ضرب نے لات و منات کو پاش پاش کر دیا۔ وہ ایسا نظام لائے کہ عجمی و عربی، اسود و احمر، بالاوپست، بندہ و آقا،ملک و نسبت اور ذات و حسب کے امتیازات مٹ گئے۔ اقبال کے الفاظ میں اسلام کی آمد پر ابوجہل کی روح کے نوحے کا کچھ حصہ ملاحظہ کیجیے جو اس کی طرف سے تو آہ و بکا کا اظہار ہے لیکن حضورؐ کے لائے ہوئے عدل اور مساوات پر مبنی نظامِ زیست کی ایک بڑی عمدہ جھلک ہے___وہ جھلک جس کی روشنی میں آج ہمیں اپنے تمام تر شعبہ ہائے حیات کو منور کرنے کی اشد ضرورت ہے___اقبال کے اشعار کچھ یوں ہیں:
مذہب او قاطعِ مسلک و نسب
از قریش و منکر از فضلِ عرب
در نگاہِ او یکے بالا و پست
با غلامِ خویش بریک خواں نشست
قدرِ احرارِ عرب نشناختہ
باکُلفتانِ حبش در ساختہ
احمراں با اسوداں آمیختند!
آبروے دُودمانے ریختند!
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک و نسب کی تفریق اور اس پر تفاخر کے جذبے کو آج بھی قطع کرنے کی ضرورت ہے۔ ملتِ اسلامیہ کی یک جہتی کا راز صرف اسی امر میں مضمر ہے کہ پست و بالا برابر ہو جائیں، آقا و غلام کی تفریق مِٹ جائے اور احمر اور اسود ایک ہو جائیں___ یہی وہ پیغام ہے جو خطبۂ حجۃ الوداع میں دیا گیا اور جو معاشرے میں عدل و مساوات کے قیام کے لیے ایک کلیدی نکتہ ہے۔
اقبال کا تصورِ عدل و مساوات
کسی بھی معاشرے کے استحکام میں عدل و مساوات پر مبنی اصول و ضوابط اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے نظامِ زیست تباہ ہو جاتے ہین، جن میں عدل و انصاف اور مساوات کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے۔ یہ فطرت کا قائم کردہ وہ اصولی ضابطہ ہے، جس کے ہونے سے قومیں ترقی کرتی ہیں اور نہ ہونے سے بر بادی کے دہانے تک پہنچ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاعرِ مِلّی علامہ محمد اقبالؒ نے استحکامِ ملّت پر مبنی ان کلیدی اصولوں کو اکثر مقامات پر موضوعِ شعر بنایا اور واضح طور پر اس امر کا اظہار کیا کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور معاشرے کے استحکام کے لیے عدل و مساوات کا داعی ہے۔
اقبال کے مطابق اسلام میں 'بندہ' اور 'بندہ نواز' کی تقسیم نہیں ہے بلکہ سرکارِ خدا میں 'بندہ و صاحب و محتاج و غنی' ایک ہو جایا کرتے ہیں۔ سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا لازوال خطبہ اس امر کی واضح شہادت فراہم کرتا ہے کہ کسی کالے کو گورے پر، گورے کو کالے پر، عجمی کو عربی پر، عربی کو عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں، ماسوائے تقویٰ کے___چناں چہ پیروانِ اسلام پر اُس نبیؐ کی سنت کی پیروی لازم ہے جس نے 'حبشی زادئہ حقیر' کو 'دوام' بخش دیا۔ یہ اُسی کے عشق کا فیض عام ہے کہ جس نے اسود و احمر میں اختلاط پیدا کیا اور غریب کو ہم پہلوئے امیر کر دیا۔
اقبال کی نظر میں ایسی اقوام کے سفینے ڈوب جاتے ہیں جو اپنی اساس عدل اور مساوات پر نہیں رکھتیں اور ان مثبت عناصر کے فقدان سے انسانیت فساد سے ہم کنار ہو جاتی ہے۔ ''بانگِ درا'' میں اقبال بڑے عالمانہ اور واعظانہ اسلوب میں لکھتے ہیں:
تمیزِ بندہ و آقا فسادِ آدمیت ہے
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
فکرِ اقبال کی رُو سے ایسے علوم، ایسی دانش اور تدبیر اور ایسی حکومت سازی کبھی نہیں پنپ سکتی جو غریب کا لہو چُوس کر استوار کی جائے۔ جس کے تحت نعرے تو مساوات کے بلند کیے جائیں لیکن عملی طور پر غریب کو غریب تر بنا دیا جائے اور وہ جیتے جی مر جائے___ایسے مقامات پر اقبال فکری و انقلابی رنگ و آہنگ اپناتے ہوئے اس طرح کے شعر رقم کرتے ہیں:
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدّبر، یہ حکومت!
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیمِ مساوات!
______
دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مُردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے
______
خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعلِ ناب
از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اقبال نے عدل مساوات کے تصورات کو اجاگر کرتے ہوئے دہقاں، مزدور یا معاشرے کے مادی اعتبار سے کم حیثیت طبقے کو کہیں بھی محض نعرئہ مستانہ الاپنے کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ زیادہ تر ایک مذہبی اسکالر، ایک مؤقر فلسفی اور ایک ماہر معاشیات و سماجیات کی حیثیت سے اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔ اقبال سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں عادلانہ و منصفانہ اصول رائج کرنے کے لیے کچھ عملی ضابطوں کے نفاذ کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں بہترین رہ نمائی اسلام ہی سے لی جا سکتی ہے۔
اس زاویے سے فکرِ اقبال کا زیادہ بلیغ طور پر اظہار فارسی کلام میں ہوا ہے جہاں وہ توضیحی اسلوب اپناتے ہوئے 'عدل' اور 'مساوات' کے اساسی نکات کی نہایت قابلِ عمل اور قابلِ قبول تفسیریں پیش کرتے ہیں۔ اقبال کے مطابق اسلام کا نظامِ زکوٰۃ معاشرے میں مساوات کی موثر طور پر ترتیب و تشکیل کرتا ہے۔ یہی وہ نظام ہے جو زر کی محبت کو ختم کرکے انسانوں کے مابین برابری کا احساس قائم کرتا ہے۔ ''اسرارِ خودی'' میں 'ضبطِ نفس' کے عنوان سے زکوٰۃ کے فضایل پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
حُبِّ دولت را فنا سازد زکوٰۃ
ہم مساوات آشنا سازد زکوٰۃ
جب کہ ''رموزِ بے خودی'' میں استدلالی اور تمثیلی رنگ و آہنگ میں عدل اور مساوات کے تصورات اجاگر کیے گئے ہیں۔ یہاں فکر و نظر اقبال عدل اور مساوات کے تصورات کو رسالتِ محمدیہؐ سے اثر پذیر دکھاتی ہے۔ اس مجموعے میں ''درمعنی ایں کہ مقصودِ رسالت محمدیہؐ تشکیل و تأسیسِ حریت و مساوات و اخوتِ بنی نوع آدم است'' کے زیر عنوان اقبال کہتے ہیں کہ آمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیش تر دنیا میں انسان، انسان کا غلام تھا اور بڑا ہی ناکس اور زیردست تھا۔ قیصروکسریٰ کی سطوت و شوکت اس کے لیے رہزن تھی جس نے اس کے دست و پا اور گردن میں کئی زنجیریں باندھ رکھی تھیں___ایسے میں نبیؐ رحمت آئے اور 'مسندِ خاقاں' غلاموں کے سپرد ہو گئی۔ یوں گویا تنِ آدم میں تازہ جاں پھونک دی گئی___ اور یہ کیوں کر ممکن ہوا؟ اس کی وضاحت اقبال ابیاتِ ذیل کی صورت میں کرتے ہیں:
''کل مومن اخوۃ'' اندر دلش
حریت سرمایۂ آب و گلش
ناشکیبِ امتیازات آمدہ
در نہادِ اُو مساوات آمدہ
گویا جب مومن یہ تصور کر لیتا ہے کہ وہ دوسرے مومن کا بھائی ہے تو خود بخود مساوات و برابری اور عدل و انصاف کے اصولوں پر مبنی معاشرہ وجود میں آ جاتا ہے۔
جہاں تک عادلانہ و منصفانہ نظام کے نفاذ کا تعلق ہے، اس سلسلے میں علامہ کے خیال میں اسلامی تاریخ کا مطالعہ بہترین معاونت کرتا ہے۔''رموزِ بے خودی'' میں ''حکایتِ سلطان مراد و معمار در معنیِ مساواتِ اسلامیہ'' کے زیر عنوان اقبال حکایتی و واقعاتی انداز میں اُس قصّے کو چھیڑتے ہیں جب قاضی کی عدالت میں ایک ایسا معمار فریاد کُناں ہوا جس کا ہاتھ سلطان مُراد نے اس کے طرزِ تعمیر کو پسند نہ کرنے کے باعث کاٹ دیا۔ شواہد کو پیش نظر رکھ کر قاضی نے بے دھڑک سلطان کے خلاف فیصلہ سُنا دیا اور کہا کہ اسلام کی رُو سے قانونِ قصاص ہی میں زندگی ہے اور اسی اصول سے زندگی کو ثبات حاصل ہے۔
اسلام کی نظر میں کمتر غلام احرار سے کسی صورت کم نہیں کہ بادشاہ کا خون معمار کے خون سے زیادہ رنگین نہیں ہوتا۔ چناں چہ سلطان نے بے اختیار اللہ کے حکم پر اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا، وہ الگ بات کہ مدعی(معمار) نے قرآن میں مرقوم ''اِن اللہ یا مرکم بالعدل والاحسان'' کے فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ خدا اور مصطفیؐ کے واسطے سلطان کو بخش دیا جائے۔ یوں اقبال برابری کے قانون کی شرح کرتے ہوئے ایک چیونٹی کے مانند حقیر معمار کو سلیمان جیسے سلطان پر فائق ٹھہرا کر 'سطوتِ آئینِ پیغمبرؐ سے روشناس کرا دیتے ہیں۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ قرآن کے سامنے بندہ و مولا برابر ہیں اور بوریا نشیں اور مسندِ دیبا پر متمکن ہونے والے میں کوئی فرق نہیں:
یافت مُورے بر سلیمانے ظفر
سطوتِ آئینِ پیغمبرؐ نگر
پیشِ قرآں بندہ و مولا یکے است
بوریا و مسندِ دیبا یکے است
یہ ہے عدل اور مساوات کا وہ تصور جو اسلام نے پیش کیا اور یہی وہ تصور ہے جس کا باعث ایک ایسی حجازی ملت قائم ہوئی جس نے قیصروکسریٰ کے استبداد کو مٹایا اور تاجِ سردارا کو اپنے پاؤں میں کچل ڈالا۔ اقبال نے اپنی طویل ڈرامائی تمثیل ''جاویدنامہ'' میں 'طاسینِ محمد' کے تحت ''نوحۂ روحِ ابوجہل درِ حرمِ کعبہ' کی ذیل میں مندرج اشعار میں ابوجہل کی روح کا نوحہ قلم بند کیا ہے جو بڑے رونے پیٹنے کے انداز میں اعلان کرتی ہے کہ ہمارا سینہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے عدل اور مساوات پر مبنی نظام نے داغ داغ کر دیا ہے۔
ان کی ایک ضرب نے لات و منات کو پاش پاش کر دیا۔ وہ ایسا نظام لائے کہ عجمی و عربی، اسود و احمر، بالاوپست، بندہ و آقا،ملک و نسبت اور ذات و حسب کے امتیازات مٹ گئے۔ اقبال کے الفاظ میں اسلام کی آمد پر ابوجہل کی روح کے نوحے کا کچھ حصہ ملاحظہ کیجیے جو اس کی طرف سے تو آہ و بکا کا اظہار ہے لیکن حضورؐ کے لائے ہوئے عدل اور مساوات پر مبنی نظامِ زیست کی ایک بڑی عمدہ جھلک ہے___وہ جھلک جس کی روشنی میں آج ہمیں اپنے تمام تر شعبہ ہائے حیات کو منور کرنے کی اشد ضرورت ہے___اقبال کے اشعار کچھ یوں ہیں:
مذہب او قاطعِ مسلک و نسب
از قریش و منکر از فضلِ عرب
در نگاہِ او یکے بالا و پست
با غلامِ خویش بریک خواں نشست
قدرِ احرارِ عرب نشناختہ
باکُلفتانِ حبش در ساختہ
احمراں با اسوداں آمیختند!
آبروے دُودمانے ریختند!
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک و نسب کی تفریق اور اس پر تفاخر کے جذبے کو آج بھی قطع کرنے کی ضرورت ہے۔ ملتِ اسلامیہ کی یک جہتی کا راز صرف اسی امر میں مضمر ہے کہ پست و بالا برابر ہو جائیں، آقا و غلام کی تفریق مِٹ جائے اور احمر اور اسود ایک ہو جائیں___ یہی وہ پیغام ہے جو خطبۂ حجۃ الوداع میں دیا گیا اور جو معاشرے میں عدل و مساوات کے قیام کے لیے ایک کلیدی نکتہ ہے۔