رشوت کی لعنت اور معاشرتی بگاڑ

رشوت ایک ناجائز ذریعہ آمدن ہی نہیں بل کہ اس کے ذریعے دوسرے آدمی کی حق تلفی بھی ہوتی ہے.


جس معاشرے میں انصاف کو بیچا جائے، وہاں مجرم دندناتے پھریں گے، معاشرے میں بے امنی پھیلے گی۔ فوٹو:فائل

RIYADH: رشوت کے لغوی معنی ناجائز نذرانہ یا ظلم سے لی جانے والی رقم کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں رشوت دراصل اس مال کو کہتے ہیں جسے ضرورت مند شخص اس شرط پر حاکم کو دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ دے یا کسی ایسے شخص کو اس شرط پر دے جو حاکم سے اس کا کام کرا دے گا۔ ( فتاوی شامی : 362/5)

اسلام جہاں حلال ذرایع سے رزق کمانے کی تعلیم دیتا ہے وہیں حرام ذرایع سے اجتناب کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رشوت ایک حرام اور ناجائز ذریعہ آمدن ہے اور اسلام حرام سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔

ارشاد الہی ہے، مفہوم : '' اے انسانو! زمین میں سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔'' ( البقرہ )

حلال کی تعریف کرتے ہوئے مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی لکھتے ہیں: ان اشیاء سے بھی احتراز ضروری ہے جو غرور، خود نمائی، بے جا تعیش اور جابرانہ نخوت کا سبب بن کر مساوات، اخوت اور مساوات باہمی کے رشتوں کو قطع کرے اور خود غرضی، ظلم اور بداخلاقی کی جانب دعوت دیتے ہیں۔ ( بہ حوالہ : اسلام کا اقتصادی نظام )

علامہ رشید رضا اپنی تفسیر '' المنار '' میں '' طیّب'' کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ طیّب سے مراد وہ اشیاء ہیں جن کے ساتھ غیر کا حق متعلق نہ ہو۔ پس جو شے ناحق لی گئی اور صحیح طریق کار سے حاصل نہیں کی گئی بل کہ سود، رشوت، جوا، ظلم، غصب، دھوکا، خیانت اور چوری جیسے ناپاک ذرایع سے حاصل کی گئی وہ بھی حرام ہے اس لیے کہ طیّب نہیں۔ ( بہ حوالہ: المنار،87/1)

رشوت ایک ناجائز ذریعہ آمدن ہی نہیں بل کہ اس کے ذریعے دوسرے آدمی کی حق تلفی بھی ہوتی ہے اور اسے اُس کے حق یا عہدے سے محروم کر دیا جاتا ہے، جس کا وہ حق دار ہوتا ہے اور درج بالا تفسیر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہی خبیث اور حرام ہے کہ دوسرے کا حق تلف کیا جائے۔ اسی ظلم کا انجام بیان کرتے ہوئے حضرت نبی کریم ؐ نے صحابہ کرام ؓ سے سوال کیا تمہیں معلوم ہے کہ مفلس کون ہے۔۔۔ ؟

صحابہؓ نے کہا مفلس ہم میں سے وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں نہ سامان۔

آپؐ نے فرمایا بے شک میری امت میں مفلس وہ ہوگا جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوۃ لے کر آئے گا۔ اس حال میں کہ اس نے کسی شخص کو گالی دی ہوگی، کسی شخص پر بہتان لگایا ہوگا اور کسی شخص کا مال ہڑپ کیا ہوگا اور کسی شخص کا خون بہایا ہوگا اور کسی شخص کو مارا پیٹا ہوگا، پس اس کی نیکیاں انہیں دے دی جائیں گی اور اگر اس کے ذمے تمام قرض چکانے سے پہلے ہی اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو ان (مظلوموں) کی برائیاں لے کر اس پر ڈال دی جائیں گی۔ پھر اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ ( بہ حوالہ: صحیح مسلم )

قرآن مجید میں ہر ناجائز ذریعے سے مال کھانے سے منع کرتے ہوئے حکم دیا گیا، مفہوم: اور آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ اور نہ حکام کے سامنے پیش کرو، نہ گناہ کے ساتھ جانتے بوجھتے لوگوں کے مال کھاؤ۔ (البقرہ)

اس ارشاد خداوندی کے الفاظ عام ہیں کہ باطل اور ناجائز طریق سے کسی کا مال نہ کھاؤ، اس میں کسی کا مال غصب کرلینا مثلا چوری، ڈاکا، سود، جوا، رشوت، حرام اشیا کی تجارت، ناجائز معاملات، جھوٹ بول کر یا جھوٹی قسم کھا کر کوئی مال حاصل کرنا وغیرہ مال حاصل کرنے کے باطل اور حرام طریقے ہیں۔ یہاں کھانے سے مراد صرف کھانا نہیں بل کہ ان کا ہر قسم کا استعمال بھی حرام ہے۔

(بہ حوالہ: اختصار از معارف القرآن:460/1)

حکام کے سامنے پیش کرنے سے مراد دوسرے کے مال کی ملکیت کا جھوٹا دعوی لے کر حاکموں کے پاس جانا بھی ہے اور حکام کو رشوت دے کر دوسرے کی ملکیت پر غاصبانہ قبضہ بھی۔ (روح المعانی 60/2)

قرآن مجید کی طرح احادیث نبوی ؐ میں بھی حرام مال کھانے کی مذمت کی گئی ہے نبی اکرم ؐ کا ارشاد ہے: جس انسان کا گوشت پوست ظلم اور سود سے بنا ہے تو اس جسم کے لیے جہنم کی آگ زیادہ بہتر ہے۔ ( مشکوۃالمصابیح، کتاب البیوع)

٭ آپ ؐ کا ایک ارشاد حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے منقول ہے: ''جس بدن کو حرام کی غذا کھلا کر پالا گیا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ ( بیہقی )

٭ اﷲ کے رسول (حضرت محمد ؐ) نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت کی ہے۔

٭ رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں آگ میں ہیں۔

٭ ایک حدیث میں سخت حرام کی تشریح کرتے ہوئے رشوت اور زنا کی آمدنی کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ آپ ؐ فرماتے ہیں : سخت حرام آمدنی کے دو دروازے ہیں جن سے لوگ کھاتے ہیں، رشوت اور عصمت فروشی۔

٭ آنحضورؐ نے رشوت دینے والے اور لینے والے پر لعنت فرمائی ہے اور اس پر بھی جو رشوت کا معاملہ کرائے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، ترمذی)

٭ آنحضورؐ نے فرمایا جو کسی کی سفارش کرے اور وہ اسے کچھ ہدیہ دے اور یہ قبول کرے تو وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے پر آگیا۔ (ابوداؤد)

ان احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ صرف رشوت لینا ہی جرم نہیں بل کہ رشوت دینا بھی جرم ہے اور دونوں کو جہنم کی آگ کا ایندھن بننا پڑے گا، نیز ان کے ساتھ رشوت کا معاملہ کروانے والا بھی اﷲ کی رحمت سے محروم رہے گا۔

افسوس ہے ان مسلمانوں پر جو اتنی واضح قرآنی ہدایات اور نبی کریم ﷺ ارشادات کے باوجود تھوڑے سے دنیاوی فائدے کے لیے رشوت کھاتے ہیں اور اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن بناتے ہیں۔

فقہائے اسلام نے اس امر کی تصریح کی ہے کہ ظالم و جابر آدمی سے اپنی عزت و جان بچانے یا اپنا حق وصول کرنے کے لیے بے بس و مجبور انسان رشوت دینے پر گناہ گار نہ ہوگا، بل کہ اس کے بہ جائے رشوت لینے والا ظالم ہی دہرے گناہ میں ملوث اور عذاب کا مستحق ہوگا۔ (فتح القدیر:255/7)

رشوت کسی معاشرے میں اس وقت جنم لیتی ہے جب وہاں عدل و انصاف کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور انسان خود غرضی اور مفاد پرستی کا شکار ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو ان کے حقوق جائز طریقے سے بھی حاصل نہیں ہوتے۔ رشوت کے نتیجے میں اعلی اخلاقی اقدار عدل، ایثار، رواداری، اخوت وغیرہ ختم ہوجاتے ہیں۔ انسان میں لالچ اور خود غرضی پیدا ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ صرف اپنے فائدے کے لیے سوچتا ہے اور دوسروں کے نقصان کی فکر نہیں کرتا۔ رشوت خور دوسرے کا نقصان کرکے صرف اپنا فائدہ چاہتا ہے جو اسلام کی تعلیمات کے برعکس ہے۔

اسلام انفرادی فائدے کے بہ جائے اجتماعی فائدے کی تلقین کرتا ہے اسی لیے وہ سود کو حرام قرار دے کر زکوۃ کو عام کرتا ہے۔ کیوں کہ زکوۃ کے نتیجے میں پورے معاشرے کو فائدہ پہنچتا ہے دولت چند ہاتھوں کی لونڈی نہیں بنتی بل کہ ایک عام آدمی بھی دولت کے فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ اسلام خود غرضی اور لالچ کے بہ جائے ایثار و قر بانی کے جذبات اور عمل کو فروغ دیتا ہے۔ ایثار اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دینے کا نام ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مکتب نبوی ؐ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ خود بھوکے رہتے اور دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اپنے اموال میں اپنے مہاجر بھائیوں کو حصہ دیتے ہیں تاکہ ان کی ضروریات پوری ہوسکیں۔ جنگ یرموک میں خود تو پیاس سے شہید ہوجاتے ہیں لیکن دوسرے مسلمان کو پیاسا نہیں دیکھ سکتے۔ جب کہ رشوت کے ہاتھوں ان تمام نیک جذبات کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

رشوت ایک حرام ذریعہ آمدن ہے جس کے نتیجے میں نہ کوئی دعا قبول ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی عبادت۔ رشوت عدل کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ رشوت ظلم کی ایک بدترین شکل ہے اور ظلم کو اﷲ تعالی نے اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان حرام قرار دیا ہے۔ جس معاشرے میں انصاف کو بیچا جائے گا وہاں مجرم دندناتے پھریں گے، معاشرے میں بے امنی پھیلے گی، مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ بے باک ہو کر جرائم کا ارتکاب کریں گے۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ عدالت ان کی آخری امید ہوتی ہے جہاں سے انصاف ملنے کی توقع ہوتی ہے اور جب وہاں سے بھی انصاف نہیں ملتا تو وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے بے امنی، دہشت گردی، قتل و غارت گری اور معاشرتی بے راہ روی کی راہ ہم وار ہوتی ہے۔

اب تو چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ جائیداد کے کاغذات حاصل کرنے ہوں یا بجلی گیس کا بل ٹھیک کرانا ہو، عدالت سے کسی فیصلے کی نقل حاصل کرنی ہو یا مقدمے کی اگلی تاریخ لینی ہو، کوئی فیس ادا کرنا ہو یا تن خواہ کا اجرا اور درستی ہو، رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا اور عوام اپنا کام جلد نکلوانے کے لیے رشوت دیتے اور لیتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی قانون اور ضابطے کو نہیں مانتے وہ سرعام یہ گناہ کرتے ہیں اور ان کے دل میں کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ اس گناہ کا ارتکاب ہمارے معاشرے کے اکثر لوگ کرتے ہیں مگر عوام کیا کریں جس معاشرے میں رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا وہاں عوام کو مجبورا رشوت دینا پڑتی ہے۔ رشوت جسے قانون جرم قرار دیتا ہے لیکن اس سماج میں بدقسمتی سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ رشوت نہ دینے والا قانونی طور پر مجرم ہے۔

ہمیں اپنے تئیں رشوت سے بچنے اور معاشرے کو اس گناہ سے بچانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ رشوت ایک گناہ ہے اور گناہ کی سزا ضرور ملے گی۔ اس دنیا میں اگر نہ ملی تو آخرت میں ضرور ملے گی۔ اﷲ تعالی سے یہ التجا ہے کہ وہ ہمیں اس دنیا و آخرت میں اس لعنت سے اور اس کی تباہ کاریوں سے بچائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |