قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کا وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ
گزشتہ روز پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد آج قومی اسمبلی اور سینیٹ کے الگ الگ اجلاس ہوئے جس میں اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے بازؤں پر کالی پٹیاں باندھ کر شرکت کی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا جب کہ اس دوران دونوں ایوانوں میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور وزیراعظم استعفیٰ دو کے نعرے بھی لگائے گئے۔
چیرمین سینیٹ رضا ربانی کی صدارت میں سینیٹ کا اجلاس ہوا جس میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں استعفیٰ کے مطالبے پر متفق ہیں اس لئے وزیراعظم اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی نااہلی کا 2 ججز نے بڑی دلیری سے فیصلہ دیا اور 3 ججوں نے اس فیصلے کی تردید نہیں کی بلکہ مزید تحقیقات کا حکم دیا، تین ججز نے بھی وزیراعظم کے خلاف بہت کچھ لکھا، ججز نے فیصلے میں لکھا کہ وزیراعظم اپنی صفائی پیش نہیں کر سکے لہذا اپوزیشن اس معاملے کو ہر فورم پر اٹھائے گی۔
سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی روایات تاریخ کا حصہ ہے کہ نواز شریف اور شریف خاندان پر نرم ہاتھ رکھا جاتا ہے، 1993 میں ان کی حکومت ختم ہوتی ہے اور 6 ہفتوں میں سپریم کورٹ بحال کردیتا ہے جب کہ 3 سال بعد بینظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوتی ہے لیکن اس کو بحال نہیں کیا جاتا، یہ سپریم کورٹ پر حملہ کرتے ہیں لیکن ان پر کچھ نہیں ہوتا جب کہ جے آئی ٹیسانحہ ماڈل ٹاون پر بھی بنی اس کا کیا ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہیں، مریم نواز جن کا اس معاملے میں کلیدی کردار ہے انہیں استثنیٰ دے دیا گیا اور جے آئی ٹی سے پہلے ہی انہیں فارغ کردینے کی بات سمجھ نہیں آتی، جج صاحب نے صحیح کہا تھا کہ فیصلہ بڑے عرصے تک یاد رکھا جائے گا، 1954 میں مولوی تمیز الدین کا فیصلہ بھی آج تک لوگوں کو یاد ہے جب کہ اگر جوڈیشل کمیشن بنتا اور نوازشریف پیش ہوتے تو مزا آتا جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نوازشریف کو مستعفی ہوجانا چاہیے
ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کی زیر صدارت قومی اسمبلی کااجلاس شروع ہوا جس میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم استعفیٰ دیکر ایوان اور جمہوری نظام کو بچائیں کیونکہ جے آئی ٹی وزیراعظم سے تحقیقات نہیں کرسکتی جب کہ 2 ججز نے وزیراعظم کو نااہل قراردیا ہے۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ جب پارلیمنٹ پر برا وقت آیا، پارلیمنٹ اور جمہوریت کمزور ہو رہے تھے اور حکمران استعفیٰ دے رہے تھے تو پیپلز پارٹی نے نواز شریف سے کہا کہ استعفیٰ دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے پارلیمان اور جمہوریت کمزور ہوگی، ہمیں ہمیشہ فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ دیا گیا اور کہا گیا کہ ہم نواز شریف کو بچا رہے ہیں مگر وقت نے ثابت کیا کہ ہم نے ہمیشہ جمہوریت اور اداروں کا ساتھ دیا، ادارے ریاست اور پاکستان کے عوام کی طاقت ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کل ادارے نے کھل کر فیصلہ دیا ہے لیکن اگر کوئی بات نہیں سمجھتا، یا طاقت کے بل پر نہیں مانتا تو پھر ہماری مجبوری ہے اور ہمیں احتجاج کرنا پڑ رہا ہے، کل سپریم کورٹ کے 2 ججز نے واضح فیصلہ دیا لیکن باقی ججز نے یہ نہیں کہا وہ اس بات سے متفق نہیں بلکہ انہوں نے صرف جے آئی ٹی بنانے کا کہا، جے آئی ٹی ہمارے لیے شرم کی بات ہے، 19 گریڈ کے آفیسر سے کہا گیا ہے جس سے تم تنخواہ لیتے ہواس کی تحقیقات کرو، یہ کونسی تحقیقات ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : پاناما کیس کے فیصلے میں وزیراعظم کو نااہل قرارنہیں دیا گیا
سینیٹ اور اسمبلی کے اجلاس سے قبل پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں فاروق ایچ نائیک اور اعتزاز احسن نے اجلاس کے شرکا کو فیصلے پر تفصیلی بریفنگ دی۔ اس موقع پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کا موقف بہت واضح ہے، ہمیں احتجاج کرنا چاہیے تاہم ہم سسٹم گرانا نہیں چاہتے لیکن وزیر اعظم کو گھر جانا پڑے گا۔
اس خبرکو بھی پڑھیں : سپریم کورٹ کے فیصلے سے جمہوریت اور انصاف کو نقصان پہنچا
شیخ رشید نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو وزیراعظم کے استعفے کے لیے گرینڈ الائنس بنانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اکٹھی ہوگئی ہے اور مل کر وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگیں گے۔
دوسری جانب قومی اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے چیرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے ججز نے وزیراعظم کے حوالے سے جو تاریخی ریمارکس دیئے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں سنے، سپریم کورٹ کے سینئر ججز نے کہا کہ نوازشریف نا اہل ہیں کیونکہ انہوں نے جھوٹ بولا جب کہ دنیا کے کسی ملک میں اگر ججز کی جانب سے وزیر اعظم کے لیے اس طرح کی رائے دی جاتی ہے تو وزیراعظم کی پارٹی کے ممبران ہی ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ ججزکی جانب سے نوازشریف کے لیے ان ریمارکس کے بعد پارٹی ممبران کیسے عوام کے پاس جائیں گے، ڈیوڈ کیمرون کوکیا ضرورت تھی استعفی دینے کی لیکن اس نے کہا کہ میرا وزیراعظم رہنے کا اخلاقی جوازختم ہوگیا، سپریم کورٹ نے قطری کا خط بھی مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے ہمارے الزامات پر جے آئی ٹی بنائی ہے، ایک طرف سپریم کورٹ کہتی ہے کہ انصاف کے ادارے مفلوج ہو گئے ہیں، نیب کی کارکردگی سب کے سامنے ہے تو اب یہ ہی ادارے نواز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے کیسے تحقیقات کریں گے، اداروں نے کام کرنا ہوتا تو نوازشریف کب کے پکڑے جا چکے ہوتے۔
امیرجماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ پاناما پر سپریم کورٹ کا فیصلہ منزل نہیں لیکن عوام کی کامیابی ہے جب کہ نواز شریف کے وزیراعظمہوتے ہوئے ادارے کیسے ان کے خلاف تحقیقات کریں گے، اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ نواز شریف تحقیقات ہونے تک استعفیٰ دیں اور60 دن بعد اگر کلیئر ہوجائیں تو دوبارہ وزیراعظم بن سکتے ہیں۔