ہم ’مسلمان‘ کیوں ہیں

کیا اسلام کا تعارف بس یہی ہے؟ اور کیا ایسے جواب سن کے کسی ’نو مسلم‘ کی اسلام میں کوئی دلچسپی پیدا ہوسکتی۔


مدیحہ ضرار April 23, 2017
مسلمان ہونا تو ہمیں بخوبی یاد کروا دیا جاتا ہے لیکن کیسے ہوتے ہیں مسلمان؟ اِس کا جواب ساری زندگی ہم کہیں نہ کہیں اپنے اندر یا اپنے معاشرے میں موجود مختلف چہروں میں تلاش کرتے رہتے ہیں۔

ہم کون ہیں؟ ہم 'مسلمان' ہیں۔
ہمیں کس نے پیدا کیا؟ ہمیں الله تعالی نے پیدا کیا۔
ہمارا مذہب کیا؟ ہمارا مذہب 'اسلام' ہے۔

بعض دفعہ سوال پوچھنا غلط نہیں ہوتا، بلکہ سوال کا رٹے رٹائے جواب کے ساتھ اُس کی اہمیت کو کھوکھلا کردینا ضرور ہوتا ہے۔ ہماری زندگیوں میں بھی 'ہم کون؟' سے شروع ہونے والا یہ سوال ہمارے لیے اسلام کا سب سے پہلا تعارف ہوتا ہے۔ مسلمان ہونا تو ہمیں بخوبی یاد کروا دیا جاتا ہے لیکن کیسے ہوتے ہیں مسلمان؟ اِس کا جواب ساری زندگی ہم کہیں نہ کہیں اپنے اندر یا اپنے معاشرے میں موجود مختلف چہروں میں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جیسے ہم پاکستانی، سندھی، پنجابی، پٹھان بن جاتے ہیں، ایسے ہی کہیں نہ کہیں ہم مسلمان بھی بن ہی جاتے ہیں۔ پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا گیا یہ اسلام ہماری زندگیوں میں بس چند عبادات، کچھ عقائد اور رسومات کی حد تک ہی رہتا ہے جسے ہم بڑی عقیدت مندی سے اپنے سے منسلک مذہب کا نام دیتے ہیں۔

پھر جیسے جیسے ہماری سوچ اور عمر میں پختگی آتی ہے مذہب کی سمجھ بوجھ یتیم ہی رہتی ہے جس کی پرورش میں کوئی خاص محنت نہیں کی ہوتی۔ ہاں بس اسلامی شناخت دینے کے لیے کچھ احسانات ضرور کردیے جاتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ اگر آج ہم سے کوئی غیر مسلم یہ سوال پوچھے کہ
''ہم مسلمان کیوں ہیں؟''

سچ بتائیے کیا ہمارے پاس اِس آسان سے سوال کا جواب ہے؟ شاید نہیں۔ اِس 'نہیں' کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ سوال نہ تو ہمیں کبھی ڑٹایا گیا اور نہ ہی کبھی اِس سے پہلے ہم سے پوچھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بہت دیانتداری سے ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ 'ہم مسلمان کیوں ہیں؟'

اگر ہمارے پاس کوئی جواب ہے تو وہ یہ کہ
''ہم کلمہ پڑھتے ہیں''، ''پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں'' اور ''ہم شراب اور سور کا گوشت نہیں کھاتے۔''

لیکن سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا اسلام کا تعارف بس یہی ہے؟ اور کیا ایسے جواب سن کے کسی 'نو مسلم' کی اسلام میں کوئی دلچسپی پیدا ہوسکتی۔

لیکن مزے کی بات یہ کہ یہی سوال جب ایک 'نو مسلم' فرانسیسی خاتون Sylvie Fawzy سے پوچھا گیا تو اُس کا جواب کچھ ہوں تھا۔
''اسلام میں مجھے ایسی طرزِ ندگی ملی جس کے پاس ہر سوال کا جواب ہے۔ جو انسان کو اِس طرح سے منظم کرتی ہے کہ ہمیشہ اِس کو فائدہ پہنچے، درحقیقت اسلام انسان کی فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ اِس کے کپڑے، کھانے پینے کے طریقے، روز مرہ کے کام کاج، شادی، رشتے ناطے نیز ہر معاملے میں اسلام انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اِس لیے اِس میں کوئی حیران کن بات نہیں کہ جو بھی اسلام کو مانتا ہے وہ خود کو مطمئن اور محفوظ محسوس کرتا ہے، جو کہ میری نظر میں سب سے زیادہ اہم نقطہ ہے۔''

اب آپ ہمارے جواب میں اور اِس نو مسلم خاتون کے جواب میں فرق ملاحظہ کیجیے۔ یہ فرق شاید اِس لیے ہے کہ وہ جانتی ہے کہ 'وہ مسلمان کیوں ہے؟' اُس کی جو بنیادیں اسلام کو لے کر بنی ہیں وہ ہماری طرح کھوکھلی اور خالی نہیں۔ اگر وہ رسومات کی حد تک ہماری جیسی مسلمان ہوتی تو سب سے پہلے اِن رسومات کا سہارا لے کر خود کو مسلمان ہونا گنواتی۔ لیکن وہ اصل میں ایک ایسے اسلام کی نمائندگی کر رہی ہے جو کہ حقیقت میں اُس کی زندگی میں ایک دین کی حیثیت سے رائج ہے، جو اُس کے نظامِ زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے۔ آج ہماری اسلامی سمجھ کی یتیم ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہماری اسلام سے مکمل نا واقفیت ہے۔ جب ہم نے اپنے ذہن کو ہی خالی چھوڑ رکھا ہے تو پھر کوئی بھی آکر ہمیں کوئی تعریف دے جائے اسلام کی، ہمارے لیے وہ قبول کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے لیے اب اسلام کی تعریف اسلامی رسومات ہیں جو ہماری زندگی میں خوش قسمتی سے مذہب تو بن گیا لیکن دین نہ بن سکا۔

 
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں