عذیر بلوچ اور ناقابل تردید شواہد
’’ ہم نے لوگوں کو قتل کیا اور کارروائیوں کو ایسا رنگ دیا جس سے ظاہر ہو کہ یہ فرنٹئر کور(ایف سی) کا کام ہے۔‘‘
عذیر بلوچ کو سیشن کورٹ نے اقدام قتل اور ڈکیتی کے الزام سے، 8اپریل کو بری کردیا۔ تعجب کی بات نہیں کہ اس مقدمے میں بھی استغاثہ عذیر بلوچ اور اس کے بھائی کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ''ناکام'' رہا۔ امریکی اپنے قانونِ جرم وسزا پر بہت نازاں ہیں لیکن وہ نظام بھی امریکا کے بدترین مافیا سربراہ الکپون پر الزامات ثابت نہیں کرسکا تھا۔ الکپون کمرۂ عدالت میں ، اپنے خلاف پیش ہونے والے گواہوں کو خوف سے کانپتے دیکھ کر، قہقہے لگاتا اور انھیں نام لے کر پکارتا تھا۔ جان کے خوف سے یہ گواہ اپنے بیانات سے پھر جاتے۔ ایف بی آئی سے جب کچھ نہ بن پڑا تو کپون کو ٹیکس چوری کے الزام میں جیل بھیجا گیا۔قتل، بھتہ وصولی، ہتھیاروں کی اسمگلنگ، پولیس اور رینجرز پر حملوں سمیت 100سے زاید مقدمات میں اعتراف جرم کرنے والے عذیر بلوچ کو سزا نہ ہونے سے ہمارے عدالتی نظام کے بارے میں کیا بہت کچھ عیاں نہیں ہوجاتا؟
عذیر بلوچ کے والد فیض بلوچ ایک ٹرانسپورٹر تھے۔ لیاری میں سرگرم جرائم پیشہ ارشد پپو نے تاوان کے لیے فیض بلوچ کا اغوا کیا اور بعد ازاں اسے قتل کرڈالا۔ یہی واقعہ عذیر کو رحمن ڈکیت کے قریب لے آیا۔ 2009ء میں رحمن ڈکیت کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد عذیر نے لیاری انڈرولڈ میں اس خلاء کو بڑی حد تک پُر کردیا۔ اس نے اپنے باپ کے قتل کا انتقام لیا، ایک ایک کرکے اپنے مخالفین کا خاتمہ کیا اور لیاری پر اپنی حکومت قائم کرلی۔
پیپلز پارٹی کے لیڈر عذیر بلوچ سے تعلقات کی پرُزور تردید کرتے ہیں لیکن پی پی کے ساتھ عذیر کے قریبی تعلقات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ 2015ء کے اواخر میں ایک نجی ٹی وی چینل کی جانب سے جاری ہونے والی ویڈیو فوٹیج سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ پی پی کے کئی ممبران پارلیمنٹ کا عذیر بلوچ کے ساتھ تعلق ہے۔ عذیر بلوچ نے آصف زرداری کی ہمشیرہ، فریال تالپور کو بطور تحفہ قرآن مجید کا نسخہ پیش کیا۔
قائم علی شاہ نے 2013ء میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد شہلا رضا اور دیگر لیڈروں کے ہمراہ عذیر بلوچ سے ملاقات کی۔ یہ ملاقاتیں 2012ء اور 2013ء کے درمیان ہورہی تھیں، جب پی پی حکومت کی جانب سے عذیر بلوچ اور پیپلز امن کمیٹی کے دیگر دو کارندوں کے سر کی بیس لاکھ قیمت لگانے کا اعلان بغیر کوئی وجہ بتائے واپس لے لیا گیا تھا۔
اس وقت کے ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل اعجاز چوہدری(جو بعد ازاں لیفٹیننٹ جنرل اور کور کمانڈر کراچی ہوئے) 2012ء میں وزیر اعلیٰ کو عذیر بلوچ کے خلاف ناقابل تردید شواہد پیش کرچکے تھے۔ اعجاز چوہدری ہی نے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کی اتحادی حکومت کے جرائم پیشہ عناصر کو استعمال کرنے کے شواہد چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری کی عدالت میں پیش کیے تھے۔ جنرل اعجاز کو عدالت کی جانب سے ہدایت دی گئی تھی کہ یہ ثبوت براہ راست عدالت میں پیش نہ کیا جائے بلکہ ان کا مہربند لفافہ رجسٹرار آفس میں جمع کروادیا جائے۔ یہ احکامات کیوں دیے گئے؟ اس کی وجوہ اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ ہی بتا سکتے ہیں۔
جب عذیر بلوچ کے مربی، صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے زرداری سے راہیں جدا کیں تو پی پی حکومت نے بھی عذیر بلوچ سے فاصلے بڑھانا شروع کردیے۔ اسی دوران 2013ء میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف لیاری میں آپریشن شروع کیا گیا اور عذیر بیرون ملک فرار ہوگیا۔
رینجرز نے عذیر بلوچ کو جنوری 2016ء میں گرفتار کیا۔ مجسٹریٹ کے سامنے اس نے 24اپریل 2016ء کو اعترافی بیان دیا۔ اپنے بیان میں انھوں نے آصف علی زرداری کے حوالے سے حیران کن انکشاف کیے۔
عذیر بلوچ نے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ اسے پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے اعترافات کے مطابق پی پی کے رہنما ذوالفقار مرزا، قادر پٹیل اور یوسف بلوچ مجرمانہ کارروائیوں میں معاونت کے لیے اس کی مرضی کے ایس ایچ او تعینات کیا کرتے تھے۔
اس نے ہر ماہ کروڑوں روپے بھتہ وصول کرنے کا اعتراف کیا۔ اس میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اس کا حصہ بعض حکام کو پہنچایا جاتا رہا۔ حکومت سندھ نے اس پر کیا کارروائی کی؟ یا وفاقی حکومت ہی نے کوئی تردد کیا؟ کیا کوئی عدالت عظمی سے ''گڈ گورننس'' پرفکر مندی کی توقع رکھ سکتا ہے؟
بلوچستان میں بیرونی امداد سے خفیہ کارروائیوں کا اعتراف کرتے ہوئے عذیر بلوچ نے کہا'' ہم نے لوگوں کو قتل کیا اور کارروائیوں کو ایسا رنگ دیا جس سے ظاہر ہو کہ یہ فرنٹئر کور(ایف سی) کا کام ہے۔''
عذیر بلوچ کے پی پی رہنماؤں سے روابط کو اس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ درپردہ اسے مضبوط سیاسی ہاتھوں کا تحفظ حاصل رہا۔ ''ناکافی شواہد'' کی بنیاد پر انسداد دہشتگردی عدالت سے حال ہی میں عذیر کی بریت اسی جانب اشارہ ہے۔ اس معاملے میں فوج کی آمد ان قوتوں کے لیے مشکل حالات کا پیغام ہے جو ریاستی وسائل کے ذریعے عذیر کو دہشت پھیلانے کے لیے استعمال کرتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مرنے والوں کے ساتھ راز بھی دفن ہوجاتے ہیں۔ پی پی سے زیادہ کون خوش ہوگا اگر عذیر بلوچ کو صولت مرزا کی طرح سزائے موت دے دی جائے۔
عذیر بلوچ نے ریاستی اداروں میں اپنے سہولت کاروں کی مدد سے قتل، تشدد، زمینوں پر قبضے، بھتہ وصولی اور بے گناہ افراد کو دھمکانے کے جرائم کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ ناقابل تردید دستاویزی ثبوت بھی فراہم کیے ہیں، ایسے ثبوت انگریزی میں جنھیں Smoking Gunسے تعبیر کیا جاتا ہے۔
سینیٹ کے بااصول چیئرمین رضا ربّانی اپنی قیادت سے متعلق اس معاملے میں مصلحتاً خاموش ہیں۔عدلیہ جرائم کے اس نیٹ ورک کو نظر انداز نہیں کرسکتی، ماضی میں جس طرح سابق چیف جسٹس نے کیا۔ پانامہ کے فیصلے سے ہماری سمت کا تعین ہوگا۔ اگر مجرموں کو رعایت دی جاتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب اس ریاست پر صرف جرم کا راج ہوگا۔
عذیر بلوچ کے والد فیض بلوچ ایک ٹرانسپورٹر تھے۔ لیاری میں سرگرم جرائم پیشہ ارشد پپو نے تاوان کے لیے فیض بلوچ کا اغوا کیا اور بعد ازاں اسے قتل کرڈالا۔ یہی واقعہ عذیر کو رحمن ڈکیت کے قریب لے آیا۔ 2009ء میں رحمن ڈکیت کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد عذیر نے لیاری انڈرولڈ میں اس خلاء کو بڑی حد تک پُر کردیا۔ اس نے اپنے باپ کے قتل کا انتقام لیا، ایک ایک کرکے اپنے مخالفین کا خاتمہ کیا اور لیاری پر اپنی حکومت قائم کرلی۔
پیپلز پارٹی کے لیڈر عذیر بلوچ سے تعلقات کی پرُزور تردید کرتے ہیں لیکن پی پی کے ساتھ عذیر کے قریبی تعلقات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ 2015ء کے اواخر میں ایک نجی ٹی وی چینل کی جانب سے جاری ہونے والی ویڈیو فوٹیج سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ پی پی کے کئی ممبران پارلیمنٹ کا عذیر بلوچ کے ساتھ تعلق ہے۔ عذیر بلوچ نے آصف زرداری کی ہمشیرہ، فریال تالپور کو بطور تحفہ قرآن مجید کا نسخہ پیش کیا۔
قائم علی شاہ نے 2013ء میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد شہلا رضا اور دیگر لیڈروں کے ہمراہ عذیر بلوچ سے ملاقات کی۔ یہ ملاقاتیں 2012ء اور 2013ء کے درمیان ہورہی تھیں، جب پی پی حکومت کی جانب سے عذیر بلوچ اور پیپلز امن کمیٹی کے دیگر دو کارندوں کے سر کی بیس لاکھ قیمت لگانے کا اعلان بغیر کوئی وجہ بتائے واپس لے لیا گیا تھا۔
اس وقت کے ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل اعجاز چوہدری(جو بعد ازاں لیفٹیننٹ جنرل اور کور کمانڈر کراچی ہوئے) 2012ء میں وزیر اعلیٰ کو عذیر بلوچ کے خلاف ناقابل تردید شواہد پیش کرچکے تھے۔ اعجاز چوہدری ہی نے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کی اتحادی حکومت کے جرائم پیشہ عناصر کو استعمال کرنے کے شواہد چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری کی عدالت میں پیش کیے تھے۔ جنرل اعجاز کو عدالت کی جانب سے ہدایت دی گئی تھی کہ یہ ثبوت براہ راست عدالت میں پیش نہ کیا جائے بلکہ ان کا مہربند لفافہ رجسٹرار آفس میں جمع کروادیا جائے۔ یہ احکامات کیوں دیے گئے؟ اس کی وجوہ اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ ہی بتا سکتے ہیں۔
جب عذیر بلوچ کے مربی، صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے زرداری سے راہیں جدا کیں تو پی پی حکومت نے بھی عذیر بلوچ سے فاصلے بڑھانا شروع کردیے۔ اسی دوران 2013ء میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف لیاری میں آپریشن شروع کیا گیا اور عذیر بیرون ملک فرار ہوگیا۔
رینجرز نے عذیر بلوچ کو جنوری 2016ء میں گرفتار کیا۔ مجسٹریٹ کے سامنے اس نے 24اپریل 2016ء کو اعترافی بیان دیا۔ اپنے بیان میں انھوں نے آصف علی زرداری کے حوالے سے حیران کن انکشاف کیے۔
عذیر بلوچ نے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ اسے پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے اعترافات کے مطابق پی پی کے رہنما ذوالفقار مرزا، قادر پٹیل اور یوسف بلوچ مجرمانہ کارروائیوں میں معاونت کے لیے اس کی مرضی کے ایس ایچ او تعینات کیا کرتے تھے۔
اس نے ہر ماہ کروڑوں روپے بھتہ وصول کرنے کا اعتراف کیا۔ اس میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اس کا حصہ بعض حکام کو پہنچایا جاتا رہا۔ حکومت سندھ نے اس پر کیا کارروائی کی؟ یا وفاقی حکومت ہی نے کوئی تردد کیا؟ کیا کوئی عدالت عظمی سے ''گڈ گورننس'' پرفکر مندی کی توقع رکھ سکتا ہے؟
بلوچستان میں بیرونی امداد سے خفیہ کارروائیوں کا اعتراف کرتے ہوئے عذیر بلوچ نے کہا'' ہم نے لوگوں کو قتل کیا اور کارروائیوں کو ایسا رنگ دیا جس سے ظاہر ہو کہ یہ فرنٹئر کور(ایف سی) کا کام ہے۔''
عذیر بلوچ کے پی پی رہنماؤں سے روابط کو اس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ درپردہ اسے مضبوط سیاسی ہاتھوں کا تحفظ حاصل رہا۔ ''ناکافی شواہد'' کی بنیاد پر انسداد دہشتگردی عدالت سے حال ہی میں عذیر کی بریت اسی جانب اشارہ ہے۔ اس معاملے میں فوج کی آمد ان قوتوں کے لیے مشکل حالات کا پیغام ہے جو ریاستی وسائل کے ذریعے عذیر کو دہشت پھیلانے کے لیے استعمال کرتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مرنے والوں کے ساتھ راز بھی دفن ہوجاتے ہیں۔ پی پی سے زیادہ کون خوش ہوگا اگر عذیر بلوچ کو صولت مرزا کی طرح سزائے موت دے دی جائے۔
عذیر بلوچ نے ریاستی اداروں میں اپنے سہولت کاروں کی مدد سے قتل، تشدد، زمینوں پر قبضے، بھتہ وصولی اور بے گناہ افراد کو دھمکانے کے جرائم کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ ناقابل تردید دستاویزی ثبوت بھی فراہم کیے ہیں، ایسے ثبوت انگریزی میں جنھیں Smoking Gunسے تعبیر کیا جاتا ہے۔
سینیٹ کے بااصول چیئرمین رضا ربّانی اپنی قیادت سے متعلق اس معاملے میں مصلحتاً خاموش ہیں۔عدلیہ جرائم کے اس نیٹ ورک کو نظر انداز نہیں کرسکتی، ماضی میں جس طرح سابق چیف جسٹس نے کیا۔ پانامہ کے فیصلے سے ہماری سمت کا تعین ہوگا۔ اگر مجرموں کو رعایت دی جاتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب اس ریاست پر صرف جرم کا راج ہوگا۔