مشال اور سوال

وہ لوگ جو سوال نہیں کرسکتے وہ احمق ہیں اور جن کے ذہن میں سوال ابھرتا نہیں وہ غلام ہیں


Dr Tauseef Ahmed Khan April 22, 2017
[email protected]

جو لوگ سوال نہیں اٹھاتے وہ منافق ہیں، وہ لوگ جو سوال نہیں کرسکتے وہ احمق ہیں اور جن کے ذہن میں سوال ابھرتا نہیں وہ غلام ہیں۔ ورگورڈن بائزن کا یہ قول مشال خان کے لیے ایک رہنما قول تھا۔ وہ نہ منافق تھا، نہ احمق اور نہ ہی ذہنی غلام تھا۔ وہ سوال کرتا تھا۔ یہ سوالات شعبہ ابلاغ عامہ ولی خان یونیورسٹی، پاکستانی ریاست اور انسانوں کے بارے میں ہوتے تھے۔

اس کو ولی خان یونیورسٹی کے حالات پر تشویش تھی۔ یونیورسٹی میں کرپشن، طلبا کے لیے سہولتوں میں کمی اور فیسوں میں اضافے پر وہ سوالات کرتا تھا۔ جب وہ ماسکو تعلیم کے لیے گیا تو وہاں بھی وہ سوالات اٹھاتا تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے باوجود روس میں برداشت کا معیار بلند ہے، اس بنا پر وہاں مشال کے ساتھ کچھ نہیں ہوا۔ مگر مشال کی سوال کرنے کی عادت نے اس کی زندگی لے لی۔ یونیورسٹی کے اہلکاروں نے عوامی احتساب سے بچنے کے لیے مشال عبداﷲ اور دیگر دو ساتھیوں پر توہینِ رسالت کے الزامات لگائے۔ ان الزامات کی ترویج کے لیے اعلامیہ جاری کیا، پھر اہلکاروں نے نوجوانوں کے جذبات بھڑکائے، یوں مشتعل ہجوم نے جمعہ کو مشال کو شعبہ ابلاغ عامہ کے سامنے قتل کردیا۔ اس کا ساتھی حملے میں شدیدزخمی ہوا۔

ذرایع ابلاغ پر شایع ہونے والی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے مشال اور ا س کے ساتھیوں کو سزا دینے کے لیے طلبا میں اشتعال پھیلایا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ دائیں بازو کی طلبا تنظیموں کے کارکنوں کے علاوہ باچا خان کے افکار پر قائم ہونے والی پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے طلبا بھی اس پرتشدد ہجوم کا حصہ تھے، جس نے مشال کو قتل کیا۔ یوں پی ایس ایف کے کارکنوں نے باچا خان کا عدم تشدد، رواداری اور فکر کی آزادی کے فلسفے کو چکنا چور کردیا۔ مشال کے قتل سے یہ ثابت ہوگیا کہ محض قوم پرستی کا نعرہ باچا خان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی گارنٹی نہیں ہے۔ مشال کے قتل کی ہر ممکن مذمت ہورہی ہے۔ وزیراعظم، ان کی بیٹی مریم نواز، وفاقی وزراء اور سیاسی رہنما سب مذمت کررہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس قتل کا ازخود نوٹس لیا اور آئی جی خیبر پختونخوا کو 48 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش سے پتہ چلا کہ مشال عبداﷲ اور اس کے ساتھیوں پر لگائے جانے والے الزامات جھوٹے تھے۔ مشال کے سوئم والے دن سیکڑوں لوگ اس کے گاؤں گئے۔ مشال کے والد اور بہن کی قیادت میں احتجاجی جلوس نکلا۔ اس جلوس میں بچوں اور خواتین کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔ پختون دیہی معاشرے میں خواتین کا جلوس نکلنا حیرت انگیز بات تھی، مگر مشال کا قتل ہولناک واقعہ ہے، اس پر کوئی باشعور شخص خاموش نہیں رہ سکتا۔

سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس اور بعض ملزموں کے اقبالی بیانات سے مشال کی معصومیت عیاں ہوگئی ہے مگر اس معاشرے کا بنیادی مسئلہ یعنی انتہاپسندانہ ذہن کی تیاری کا معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ پاکستان مسلمانوں کے لیے جدید ملک کے قیام کے لیے قائم کیا گیا تھا، مگر محمد علی جناح جانتے تھے کہ جدید ملک بنانے کے لیے ملک کو حقیقی جمہوریہ بنانا ضروری ہے تاکہ تمام شہریوں کو کسی امتیاز کے بغیر ریاست تحفظ کرسکے۔

اس مقصد کے لیے قائداعظم نے 11 اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی کے اجلاس کے دوسرے دن پالیسی تقریر کی تھی، مگر اس وقت کے جنونی عناصر نے ریاست کے خدوخال کو بگاڑنے اور ایک مذہبی انتہاپسندانہ ریاست بنانے کے لیے کام شروع کردیا۔ مذہبی انتہاپسندانہ ریاست کے قیام سے جمہوریت کی نفی ہوتی تھی اور اکثریت اقتدار سے محروم ہورہی تھی اور اقلیت کو ملک پر حکومت کرنے کے مواقع مل رہے تھے۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان اپنا حلقہ نہ ہونے کی بناء پر عدم تحفظ کا شکار تھے۔ بنگال میں قوم پرستانہ جذبات مضبوط ہورہے تھے۔ لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد منظور کرائی۔ اس قرارداد کے 1956ء کے آئین کا حصہ بننے کے بعد ریاست کی جانب سے انتہاپسندی کے پرچار کا راستہ کھل گیا۔

اگرچہ فیلڈ مارشل ایوب خان ایک لبرل شخصیت تھے اور ان کے تیار کرہ 1962ء کے آئین میں بنیادی خامیاں تھیں مگر یہ آئین ایک سیکیولر آئین تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستانی ریاست نے خواتین کے حقوق کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ ایوب خان نے اس جدوجہد کے دباؤ پر عائلی قوانین نافذ کیے، یوں طلاق کا روایتی طریقہ تبدیل ہوا اور مرد پر دوسری شادی کے لیے بیوی سے اجازت لازمی قرار دے کر ان قوانین سے معاشرے میں ایک استحکام پیدا ہوا۔ عورتوں کو بنیادی حقوق حاصل ہونا شروع ہوئے مگر رجعت پسند عناصر نے ان قوانین کے خلاف مہم شروع کی۔ پھر جنرل یحییٰ خان کا دور آیا۔ جنرل شیر علی خان وزیر اطلاعات مقرر ہوئے۔ صدر یحییٰ خان کے پاس وقت نہیں تھا۔

اس بنا پر جنرل شیرعلی نے نظریہ پاکستان کا شوشا چھوڑا۔ مسلم لیگ کی کسی قرارداد میں نظریہ پاکستان کا ذکر نہیں ملتا۔ مگر 1970ء کے انتخابات میں پانچوں صوبوں میں منتخب ہونے والی سیاسی جماعتوں کی اکثریت لبرل اور سیکیولر اپروچ رکھتی تھی اور عوام ان جماعتوں سے جڑے ہوئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مذہبی جماعتوں کو 1970ء کے انتخابات میں عبرت ناک شکست ہوئی۔ جب پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے بنیادی اصلاحات کیں، مگر بھٹو صاحب اپنے آمرانہ رویہ کی بنا پر قریبی رفیقوں کی صحبت سے محروم ہوئے تو رجعت پسندوں نے انھیں ایسے کاموں کی طرف راغب کیا جس سے انتہاپسندی پروان چڑھتی تھی۔ ملک کے شہریوں کے ایک حصے کو ان کے عقیدے کی بناء پر بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم وغیرہ نے ریاست کے خدوخال پر منفی اثرات ڈالنا شروع کیے۔

اس کا فائدہ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کو ہوا۔ 1971ء میں اقتدار میں آنے کے بعد رجعت پسندانہ نظریات کی پیروی شروع کردی۔ افغانستان کو اپنے ملک کا پانچواں حصہ بنانے کے منصوبہ پر عملدرآمد شروع ہوا۔ اس منصوبے کو جس کے خدوخال امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے تیار کیے تھے، کا بنیادی ہتھیار مذہبی انتہاپسندی قرار پایا۔ اس منصوبے کے لیے جہاد کی برآمد کا سلسلہ شروع ہوا۔

جنرل ضیاء الحق کے بیانیہ) (Narrative کو تقویت ملی۔ بلوچستان اور اندرونِ سندھ اور جنوبی پنجاب کی سرائیکی بیلٹ اور جب پختونخوا میں مدارس کا جال بچھایا گیا۔ جہاد کے نام پر نوجوانوں کو فوجی تربیت دے کر افغانستان بھیجا جانے لگا اور مسلمان ممالک کے جنگجوؤں کو پاکستان اور افغانستان میں جمع کیا گیا۔ معاملہ صرف مدارس تک محدود نہ رہا بلکہ جدید تعلیمی ادارو ں کے نصاب کو غیر سائنسی کردیا گیا اور رجعت پسندانہ نفرت آمیز مواد کو نصاب کا حصہ بنادیا گیا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں فرقہ وارانہ منافرت بڑھی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے شہریوں کے حقوق غصب ہوئے۔ پھر آہستہ آہستہ اس ماحول میں پرورش پانے والی نسلیں ملک کے اہم اور غیر اہم عہدوں پر تعینات ہوئیں۔ صرف اساتذہ ہی رجعت پسند نہ ہوئے بلکہ افسران، ادیب، صحافی اور خواتین سب اس لہر میں بہہ گئے۔

جنرل ضیاء کے دور میں متنازعہ قوانین کے نفاذ نے اقلیتی فرقوں اور دیگر مذاہب میں خوف کا ماحول گہرا کیا اور اس صورتحال کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اب اقلیتی فرقوں میں بھی انتہاپسندی بڑھنے لگی۔ کہا جاتا ہے کہ ایران میںایرانی انقلاب نے بھی مسلمان دنیا کو تقسیم کیا۔ سعودی عرب، عراق اور لیبیانے ایرانی انقلاب کے اثرات کو روکنے کے لیے انتہاپسندانہ پروجیکٹس پر خوب سرمایہ کاری کی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ کراچی کی سڑکوں پر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ معمول بن گئی۔ المیہ یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں قاتل اور مقتول دونوں جنت میں جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس صورتحال کے نتیجے میں سب کچھ جل کر بھسم ہوگیا۔ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ کا داعش میں شامل ہونا صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ قومی اسمبلی نے مشال کے قتل کی مذمت کی ہے۔ مشال کے قتل پر بھرپور احتجاج ہی امید کی کرن ہے۔

(وضاحت:جمعیت علمائے اسلام کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ جے یو آئی کے تاریخی اجتماع میں جمعیت علمائے ہند کے ایک وفد نے شرکت کی تھی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی صاحب ہیں اور مولانا عبدالغفور حیدری کونسل کے سربراہ نہیں ہیں۔ مصنف ان غلطیوں پر معذرت خواہ ہے۔ )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں