عہدِ جدید اور انسانی احساس کی صورت گری دوسرا حصہ
انسانی زندگی میں وجودی ضرورتوں کی نفی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی روحانی تقاضوں کو فراموش کیا جاسکتا ہے۔
شر کا بڑھتا ہوا غلبہ اور خیر کی پسپائی دراصل تکوینی عمل کا منظرنامہ ہے۔ فوٹو : فائل
سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخر زندگی کی اتنی سہولتوں اور آسائشوں کے ہوتے ہوئے وہ کیا شے ہے جو آدمی کے اندر ایسی توڑ پھوڑ کرتی ہے کہ پھر اُس کا جی اس جینے سے ہی اٹھ جاتا ہے۔
نازونعمت کے ہوتے ہوئے آخر کیا ہوتا ہے کہ آدمی خود اپنی جان کا دشمن ہوجاتا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ آج کے آدمی کی زندگی بہت مصروف ہوگئی ہے، اتنی کہ اُس کے پاس خود اپنے لیے، یعنی اپنی خلوت کی دنیا کے لیے کوئی وقت باقی نہیں رہا۔ یہ خیال غلط بھی نہیں ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ آخر کس وجہ سے آدمی اتنا وقت نکال لیتا ہے کہ وہ صرف خود کو دیکھے اور وہ بھی محض مغائرت کی نگاہ سے۔ آخر کس بنیاد پر وہ اپنے آپ سے اتنا رنجیدہ ہوجاتا ہے اور خود کو اتنا قابلِ نفرت سمجھنے لگتا ہے کہ موت کے سوا اُسے کوئی راستہ نظر ہی نہیں آتا؟ خودکشی کا لمحہ اچانک تو نہیں آتا ہوگا۔
احساس کی کوئی ایک رَو انسان کو کشاں کشاں اس مرحلے تک لاتی ہوگی۔ ایسا آخر کیا ہوتا ہے کہ اکثر لوگ جو اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ خود بیزاری کے اس مرحلے تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنا خاتمہ کیے بغیر نہیں رہتے۔ اس ساری ترقی کے باوجود عہدِجدید کا سماجی اور سائنسی نظام دونوں مل کر بھی آدمی کو اس مرحلے سے بچانے میں ناکام رہتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ اور ایسے ہی اور بھی کتنے سوالات ہیں جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
یہ ساری باتیں، سوال، تجزیے اور اعدادوشمار تو بہرحال آج ہمارے سامنے آئے ہیں، یعنی حالیہ برسوں میں توجہ کا مرکز بنے ہیں، لیکن دیکھنے والی آنکھوں نے اس سے پہلے اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ عہدِجدید کی یہ دنیا کس راستے پر بڑھ رہی ہے اور انسان آگے چل کر کس صورتِ حال سے دوچار ہوگا۔ اہلِ مشرق میں یا چلیے دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ روایتی تہذیبی معاشروں میں تو ایسے اہلِ نظر موجود رہے ہیں جو دنیا کی بدلتی ہوئی روش کو دیکھ کر پہلے سے تشویش اور تردّد کا اظہار کرتے آئے ہیں۔
اس لیے کہ یہاں کے تہذیبی، سماجی، فکری اور ادبی مزاج میں انسان کی داخلی دنیا کو ہمیشہ اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ لہٰذا یہاں انسان کا داخلی منظرنامہ یا احساس کی رو مسلسل توجہ کا مرکز رہی ہے۔ البتہ مغرب کا مزاج رینے ساں کے بعد بہت حد تک بدل گیا تھا اور خارجی دنیا پر اس کی توجہ نسبتاً زیادہ مرکوز ہوئی۔ اشیا، افراد، واقعات، بلکہ پورا سماج ایک فیس ویلیو پر چلنے لگا۔ داخلی حوالے یا اندر کی گواہی سے کسی کو سروکار ہی نہ رہا۔ اس کا فائدہ کیا ہوا اور نقصان کیا، یہ ایک الگ اور قدرے تفصیلی بحث ہے، سو اس کو پھر کسی اور موقعے پر دیکھیں گے۔
خیر، ایسا تو نہیں ہوا کہ مغرب میں اس عرصے میں اہلِ نظر ہی نہ آئے ہوں۔ زیرِبحث مسئلے کے تناظر میں آج کے مغرب کی ترقی یافتہ دنیا کو سامنے رکھا جائے تو وہاں بھی ہمیں ایسے بعض اہلِ دانش دکھائی دیتے ہیں جنھوں نے حالات کے تغیر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے علی الاعلان اس امر کا اظہار کیا تھا کہ ان کے دور کا انسان اور اس کی دنیا خرابی کے اس راستے پر جا پڑے ہیں جو مکمل تباہی کی طرف جاتا ہے۔
اس ضمن میں سب سے اہم نام تو یقیناً فرانس کے عالم رینے گینوں کا ہے جنھوں نے مشرقی تہذیبوں کا گہری نگاہ سے مطالعہ کیا تھا۔ اس مطالعے کی روشنی میں انھوں نے اس راز کو سمجھ لیا تھا کہ آدمی کی مکمل شخصیت، اصل میں اکائی کی طرح قائم ہوتی ہے اور وقت کے تغیرات کے زیرِاثر ٹوٹنے سے کیوں کر محفوظ رہتی ہے۔ مشرقی تہذیبوں کے تناظر میں انھوں نے یہ بھی جان لیا تھا کہ کوئی تہذیب اپنے افراد کی روح کی پاس داری کس طرح کرتی ہے۔ اس معاملے کو سمجھنے کے بعد جب انھوں نے اپنے سماج اور اُس میں آنے والی تبدیلی کو دیکھا اور وقت کے بدلتے ہوئے قدموں کی چاپ سنی تو انھوں نے مغرب کے لیے کہا تھا کہ وہاں عہدِجدید ایک طوفان کی صورت آرہا ہے، ایک ایسے طوفان کی طرح جس کے آگے کوئی بند نہیں باندھا جاسکتا۔
وہ سمجھ گئے تھے کہ اس طوفان کو روکا تو نہیں جاسکتا، البتہ انھوں نے دیکھا کہ بچاؤ کی ایک صورت نکل سکتی ہے، یعنی اس زمانے میں ایک کام کیا جاسکتا ہے اور وہی سب سے ضروری کام ہے، یہ کہ تہذیب کے بیج کو یعنی اس کی بنیاد کو بچایا جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ وقت ہر تہذیب پر اُس کے مخصوص حالات اور اس کی داخلی کیفیت کے مطابق اثرانداز ہوتا ہے، لیکن اُس کے اثرات پہنچتے سبھی سمتوں تک پہنچتے ہیں۔ چناںچہ مغرب کی ہوائیں صرف مغرب تک نہیں رہ سکتی تھیں، انھیں شمال، جنوب اور مشرق تک بھی جلد یا بدیر پہنچنا ہی تھا۔ جدید دنیا کے اس منظرنامے کو سامنے رکھتے ہوئے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اب مغربی طرزِفکر کی یہ ہوائیں دنیا کے دوسرے خطوں اور معاشروں میں کہاں کہاں تک پہنچ چکی ہیں اور کیا کیا گُل کھلا رہی ہیں۔
رینے گینوں کی متعدد کتابیں ہیں، جن میں انھوں نے بالخصوص مغرب کے تناظر میں اس عہد کے مسائل اور اس کی صورتِ حال کا نہایت گہرائی سے تجزیہ کیا ہے، اور اُن کے بارے میں نہایت بصیرت افروز باتیں کی ہیں۔ اُن کی دو کتابیں خصوصیت کے ساتھ ان مباحث سے تعلق رکھتی ہیں، ایک ہے Reign of Quantity اور دوسری ہے Crisis of the Modern World۔ رینے گینوں کا کہنا ہے کہ عہدِجدید کی ایک اہم علامت صنعت کا غیرمعمولی بلکہ غیرعقلی فروغ بھی ہے، جس نے مقدار کو اپنا بنیادی سروکار بنایا ہے۔
انسانی سماج میں اس سے پہلے ہر معاملے میں معیار کو فوقیت حاصل تھی، لیکن اب یہ دور مقدار کی جیت کا زمانہ ہے۔ آج معیار آدمی کا مسئلہ نہیں رہا ہے۔ یہ بات اب صرف صنعت کے شعبے تک بھی محدود نہیں رہی، بلکہ سماج کے ہر شعبے میں اب یہی رویہ کارفرما ہے۔ پہلے اشیا اور اُن کو بنانے والے ادارے پائیداری کے حوالے سے اپنی ایک شناخت رکھتے تھے۔ یہ کنزیوم ایبل پروڈکٹس کا دور ہے۔ اس کی نمائندگی اشیا میں دراصل ٹیشو پیپر کرتا ہے۔ یہی تصورات اب دوسری سب اشیا میں بھی رائج ہوچکا ہے۔
پہلے کسی بھی شعبے اور اس کی مصنوعات کے معاملے میں معیار کا وہی درجہ تھا جو انسانی وجود کے لیے روح کا ہوتا ہے۔ معیار سے توجہ ہٹنے کا اس کے سوا اور کوئی مطلب نہیں کہ آج انسان ہر قیمت پر منفعت کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ معیار کا تعلق عینیت سے ہے۔ اس طرح وہ ایک غیرمادّی شے ہے، جب کہ اس دور میں انسان کے لیے غیرمادّی یا غیرمنفعت بخش شے کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ اس حقیقت کا اثر انسانی زندگی اور اس کے رویوں پر یہ ہوا کہ اب مادّیت اور وجودیت ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔
روح اور اُس کی فلاح کے تقاضوں پر اب آدمی کا دھیان ہی نہیں ہے۔ انسان کی کامیابی اور سماج میں اس کی حیثیت کا انحصار اب صرف اُس کے مادّی پہلو پر ہے۔ چناںچہ آج انسان کی مادّی حیثیت ہی اس کے سماجی اثر و رسوخ کا دائرہ متعین کرتی ہے۔ علم، فکر، اخلاق اور کردار جیسے غیرمادّی پہلو اب درخورِاعتنا نہیں سمجھے جاتے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اِس دور میں انسانی قدرومنزلت کے تعین کے لیے ان میں سے کسی کا بھی کوئی کردار باقی نہیں رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان جس اکائی کا نام ہے، وہ وجود اور روح کے ملنے سے تشکیل پاتی ہے۔ لہٰذا متوازن طرزِاحساس کے لیے دونوں ہی کا لحاظ ضروری ہے۔
انسانی زندگی میں وجودی ضرورتوں کی نفی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی روحانی تقاضوں کو فراموش کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے جس جہت میں بھی کمی یا کم زوری واقع ہوگی، وہ انسانی شخصیت میں خلا پیدا کرے گی۔ رینے گینوں کہتے ہیں کہ مقدار کی اہمیت اور معیار کا غیر اہم ہوجانا ظاہر کرتا ہے کہ عہدِجدید کے انسان کی زندگی میں سے وجود اور روح کا توازن ختم ہوگیا ہے، جس نے اسے بحران میں مبتلا کردیا ہے۔
اس عہد کی صورتِ احوال کو دیکھتے ہوئے مارٹن لنگز نے اپنی کتاب Ancient Beliefs and Modern Superstitions میں اس دور کے انسان کی زندگی کے ان پہلوؤں سے بحث کی ہے جن کے ذریعے اُس کے اندیشوں اور توہمات کا اظہار ہوتا ہے۔ مارٹن لنگز نے پرانے روایتی معاشرے کے انسان کی زندگی کے تقابل میں آج کی انسانی صورتِ حال کو رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں، پہلے انسان کے پاس یقین کی طاقت تھی۔ یہ طاقت اُسے اعتقاد اور ایمان نے دی تھی۔ مارٹن لنگز کا اس نکتے پر اصرار ہے اور انھوں نے اسے بیان بھی بہت صراحت سے کیا ہے کہ ایمان محض ایک مجرد اصطلاح نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ٹھوس عملی زندگی کا نام ہے۔ ایک ایسی زندگی جس میں اشیا کی اپنی جگہ ہے، لیکن ان کے ساتھ اور ان سے کہیں زیادہ اہم جگہ انسان اور اس کے خالق کی ہے۔ یہ اس دور کے انسان کا بہت بڑا اور بنیادی مسئلہ ہے کہ وہ یقین کی قوت سے محروم ہوگیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس محرومی کے نتیجے میں وہ اندیشوں، واہموں اور الجھنوں میں گھر کر رہ گیا ہے۔ ان سے بچنے کے لیے وہ وقتی ضرورتوں، مادّی اشیا اور آسائشوں میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ کچھ وقت کے لیے اسے امان مل بھی جاتی ہے، بہلاوا قائم بھی ہوجاتا ہے، لیکن جلد ہی اشیا کی بے قیمتی اور انسانی زندگی سے اُن کا سرسری اور وقتی تعلق واضح ہوجاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو پھر اشیا کو حاصلِ حیات سمجھنے والا انسان انکشاف کے اس عمل کے نتیجے میں شدید اور گہرے دباؤ کی کیفیت سے گزرتا ہے اور خود کو بے آسرا محسوس کرتا ہے۔
روایتی معاشرے کے انسان کے پاس جو ایمان کی قوت تھی وہ اسے کسی بھی طرح اس سطح پر نہیں آنے دیتی تھی، اسے بے امان نہیں ہونے دیتی تھی۔ اس عہد کے انسان نے اپنی یہ تقدیر اپنے ہاتھ سے لکھی ہے، اور اب وہ اسی کا دکھ اٹھا رہا ہے۔
جدید دنیا کے انسان کے روحانی بحران پر مارٹن لنگز نے ایک اور زاویے سے سے گفتگو اپنی کتاب The Eleventh Hour میں کی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے اس عہد کی صورتِ حال کو نبوت اور روایت کی روشنی میں دیکھا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس دور کا ذہنی، اخلاقی اور روحانی منظرنامہ جس انحطاط کا شکار اور الجھنوں میں گھرا ہوا نظر آتا ہے، یہ دراصل تکوینی صورتِ حال ہے۔
انھوں نے ایک طرف الہامی مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے تناظر میں اور دوسری طرف ہندوازم اور بدھ ازم وغیرہ کے حوالے سے اس امر کی نشان دہی کی ہے۔ ادیانِ عالم جو کہتے ہیں کہ انسانیت پہلے شر کی انتہا پر جائے گی اور پھر واپس خیر کی طرف آئے گی، مارٹن لنگز کے بقول اس عہد کی گنجلک اور ابتر صورتِ حال جس میں خیر تیزی سے بے اثر اور شر اسی رفتار سے مؤثر ہورہا ہے، اسی امر کی غماز ہے۔ شر کا بڑھتا ہوا غلبہ اور خیر کی پسپائی دراصل تکوینی عمل کا منظرنامہ ہے۔ انسان کے خمیر میں چوںکہ خیر کا عنصر رکھا گیا ہے، اس لیے وہ خیر کی طرف ضرور لوٹ کر آئے گا، لیکن اس سے پہلے یہ زمانہ شر کی تکمیل کا ہے۔ اس لیے آج ہر طرف شر غلبہ پاتا ہوا اور مختلف شکلوں میں بڑھتا اور پھیلتا ہوا نظر آرہا ہے۔
عہدِجدید کے مسائل اور اس کی صورتِ حال کے حوالے سے لارڈ ناتھ بورن نے بھی قابلِ غور نکات پیش کیے ہیں۔ اپنی کتاب Looking Back on Progress کے پہلے ہی باب میں انھوں نے بڑی وضاحت اور قطعیت کے ساتھ اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے گفتگو آگے بڑھائی ہے کہ عہدِجدید میں دنیا کی گنجلک اور ناخوش گوار صورتِ حال یہ ثابت کرتی ہے کہ خارجی حالات کی تبدیلی سے جن نتائج کی امیدیں لگائی گئی تھیں، وہ اب تک پوری نہیں ہوئی ہیں اور نہ ہی آگے چل کر ان کے بر آنے کی کوئی واضح اور یقینی صورت نظر آتی ہے، الّا یہ کہ ان نتائج کے حصول کے لیے فکری، سماجی اور معاشی دائروں میں کیے جانے والے اقدامات کی رفتار اور اُن کے تناسب کو بڑھایا جائے۔
یہ ایک ہم نکتہ ہے۔ اس لیے کہ مقصد کے حصول کے لیے اقدامات اگر اس سطح پر نہیں ہورہے جس پر اُن کی ضرورت ہے تو ان سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ تاہم آگے چل کر بورن ایک اور اہم، بلکہ زیادہ اہم سوال اٹھاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مزید تگ و دو سے پہلے ضروری ہے کہ دیکھا جائے انسانی زندگی میں تبدیلی کے لیے جو ذرائع اختیار کیے گئے ہیں، وہ واقعتاً مؤثر بھی ہیں کہ نہیں؟ علاوہ ازیں ان کے نزدیک اس امر کا جائزہ بھی ضروری ہے کہ انسانی ترقی اور فلاح کے جو اہداف مقرر کیے گئے ہیں، دیکھا جائے کہ ان کی سمت بھی درست ہے کہ نہیں؟ بس یہی سوال عہدِجدید کی انسانی صورتِ حال کی حقیقت کو ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اس عہد میں انسانی مسائل کا معاملہ روحانی نوعیت کا ہے، جب کہ انسانی فلاح کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، وہ دراصل صرف جسمانی یا وجودی حد تک محدود ہے۔ گویا ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص کو دل کا عارضہ لاحق ہو اور اسے نئے کپڑے پہنا کر اور عطر لگا کر یہ سمجھا جائے کہ اُس کی بہتری کا سامان کرلیا گیا ہے اور وہ اب بالکل ٹھیک ٹھاک ہوجائے گا۔ ممکن ہے، نئے کپڑے پہن کر اور خوش بو لگا کر وہ ذرا سی دیر کے لیے بشاشت محسوس کرے، لیکن اس کی صحت کی بحالی کا جو ہدف ہے، وہ حاصل نہیں کیا جاسکتا، کیوںکہ اس کام کے لیے درست سمت میں پیش رفت نہیں کی جارہی۔
یہی اس عہد کے انسان کی صورتِ حال ہے۔ خارجی آسائشیں اُس کے روحانی مسائل کو نہ صرف حل کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتیں، بلکہ وہ بحران میں مزید اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ اس لیے آج کی انسانی صورتِ حال روز بہ روز مزید سے مزید تر ابتری کی طرف جارہی ہے۔
(جاری ہے)