’’مَن کے قلندر‘‘ لطف و سرور کا حصول ایک ہُنر ہے
ہمارا ماضی اگر خوش گوار رہا تو یادوں کے جھروکوں سے روح کو سرور دینے والی ہوائیں ہمارے دِل کے تاروں کو چھیڑتی ہیں۔
من کی نگری اُسی وقت شانت رہتی ہے، جب ہم حال میں جی رہے ہوں۔ فوٹو : فائل
من کا نگر ہو، دِل ہم سفر ہو، سوچ سمندر ہو، رات کا پہر ہو اور سفر در سفر ہو تو خیال کی لگامیں ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہیں، اور وہ کس وحشی جانور کی طرح ماضی اور حال کے ہرے بھرے جنگل میں دندناتا ہوا، چاروں اور منہہ مارتا پھرتا ہے۔ اُن اُن باتوں اور یادوں کو کھوج نکالتا ہے جِن کو فراموش کیے زمانہ گزر چکا ہوتا ہے۔ کھٹ کھٹ کرکے ایک کے بعد ایک نیا سین ذہن کے اسکرین پر آنے لگتا ہے۔
سو سال پہلے کی خاموش فلموں کی طرح۔ ہر دو مناظر میں بظاہر کوئی ربط بھی نہیں ہوتا۔ لیکن کِسی سوچی سمجھی اسکیم کے بِنا ایک کے بعد ایک منظر، نظر کے سامنے سے گھوم جاتا ہے۔ تنہائی اور فراغت کے لمحات میں ایسا سب ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ بچپن کا کوئی واقعہ، لڑکپن کا کوئی قصّہ، تو جوانی کا کوئی حادثہ، کِسی دوست کا چہرہ، وہ عزیز رشتے دار جو اب اِس دنیا میں نہیں ہیں۔ اُن کے ساتھ بیتے لمحات کا عکس۔ پانچ مِنٹ میں زندگی کے پانچ دس سالوں کی سمری تصویروں کی شکل میں سامنے آجاتی ہے۔
ہمارا ماضی اگر خوش گوار رہا تو یادوں کے جھروکوں سے روح کو سرور دینے والی ہوائیں ہمارے دِل کے تاروں کو چھیڑتی ہیں۔ لیکن اگر ہمارے ماضی کے مزاروں میں تندوتلخ باتوں کے ڈھیر مدفون ہوں تو تنہائی کی توانائی اِن باتوں کی جُگالی میں خرچ ہونے لگتی ہے۔
جو گزر گیا اور ماضی کا حصّہ بن گیا اسے ہم واپس نہیں لاسکتے۔ البتہ جو گُزررہا ہے اور ہمارے حال کا حصّہ ہے اُسے ہم ضرور بھرپور بنا کر طمانیت وسکون سے سرشار کرسکتے ہیں۔ حال خوب صورت ہو تو ماضی ازخود خوشگوار شکل میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔
حال کو خوبصورت بنانے کے لیے نہ کِسی پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنا پڑتا ہے۔ نہ ہل بیل چلانا پڑتا ہے۔ بہت سادہ سا نُسخہ ہے۔ اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑنا پڑتا ہے۔ حال کو قطرہ قطرہ پینا پڑتا ہے۔ حال میں زندہ رہنا، سیکھنا پڑتا ہے۔ لیکن ہم سب اپنے حال میں کِسی نہ کِسی حوالے سے ناخوش اور غیرمطمئن ہیں۔ کوئی نہ کوئی معاملہ یا کوئی مسئلہ ایسا ہوتا ہے جو ہم سے حل نہیں ہوپا رہا ہوتا، اور اِس کی وجہ سے ہم اپنے موجودہ وقت کو مطمئن نہیں بنا سکتے۔ پُرسکون نہیں رہ پاتے، اور ایک کسک، ایک کمی، ایک جھول، ایک اُلجھن، ایک دُکھ ہمارے دامن سے ہمہ وقت چپکا رہتا ہے۔
ہزار نعمتوں ہزار سہولتوں کے میّسر ہونے کے باوجود زندگی کا ایک پہلو ہماری توجہ کو ایسے باندھے رکھتا ہے کہ ہم اپنے حال کو طمانیت اور سکون سے محروم کرڈالتے ہیں۔ ہماری سوچ کی سوئی ایک ہی معاملے اور مسئلے کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ نہ کوئی مسئلے کا حل سمجھ آتا ہے۔ نہ مشکل دور ہوپاتی ہے۔ اُلٹا ہمارے اعصاب پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے اور ہر گزرتا ہوا دِن، حال کی تلخیوں کو ماضی کی کثافتوں میں مِلا کر ہماری یادوں کے کرب کو بڑھاتا جاتا ہے۔
من کی نگری اُسی وقت شانت رہتی ہے، جب ہم حال میں جی رہے ہوں۔ اپنے حال سے مطمئن ہوں، جو نعمتیں ہمیں میّسر ہوں۔ اُن پر شُکر ادا کر ہے ہوں، جو صعوبتیں ہمارے لیے لکھی ہوں۔ اُن پر صبر کر رہے ہوں۔ ہماری ضروریات اور ہماری خواہشات کی فہرست زیادہ لمبی نہ ہو اور اِن دو کے بیچ عملی ہم آہنگی ہو۔ Needs اور Desires کے دائرے کا Circumferance جتنا بڑا ہوگا، ہمارے ذہنی سکون کا سرکل اتنا ہی چھوٹا ہوتا چلا جائے گا۔ ہماری زیادہ توانائی خرچ ہوگی۔ ہماری تھکن تو بڑھے گی۔ ہماری Frustration بھی بڑھتی چلی جائے گی، اور ہم یکسوئی اور قناعت کی دولت سے بھی ہاتھ دھوبیٹھیں گے۔ حال کی حالت میں بے چینی اور بے سکونی پھیلتی چلی جائے گی، اور ہماری ماضی بھی تکلیف دہ اور بے آرام ہوجائے گا۔
لاکھوں میں چند ایک لوگ ہی ہوتے ہیں جو اپنے حال میں مگن اور مست ہوں۔ اندیشۂ سودوزیاں سے عاری، قانع، صابر اور شاکر۔ اپنی کمیوں پر شکوؤں اور شکایتوں سے خالی، جو مِل جائے، جو ہو جائے۔ سب اچھا ہے، جو نہ مِلے، جو نہ ہوپائے، تو وہ بھی اچھا ہے۔ ایسے لوگوں کے من میں امن رہتا ہے، شانتی رہتی ہے، محفلوں میں لوگوں کے بیچ بھی، تنہائی میں اپنی ذات کے روبرو بھی۔
حال میں جینا سیکھ لینے والوں کو ایک تُحفہ قدرت کی جانب سے بھی عطا ہوتا ہے، انوکھا اور اچھوتا۔ Recycling اور Transformation کا۔ صبر وشُکر کے انعام کے طور پر ایسے لوگوں کے اندر ایک ایسا Auto Recyling Plant انسٹال کردیا جاتا ہے کہ پھر حالات واقعات معاملات تعلقات کے تمام تلخ وتیز اور کھردرے روڑے کنکر، خود کارانہ طور پر اُس پلانٹ میں ڈالتے چلے جاتے ہیں اور دوسری طرف سے انتہائی مفید اور کارآمد سوچ اور جذبے کے بلاکس بن بن کر نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔
ہر منفی بات اور تجربہ، ہر تکلیف دہ حادثہ، ہر تلخ یاد کی تلچھٹ۔ سب کے سب Recycle ہوکر امید اور اطمینان کی شکل میں ڈھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یوں ایسے مست و مگن لوگوں کے ماضی کے شیلف پر من کی نگری میں ڈوبے ہوئے مست ومگن بُدھا کے بُت سجتے چلے جاتے ہیں۔
آپ دیکھیے۔ آج سے دیکھنا شروع کیجیے۔ اپنے چاروں طرف نظریں دوڑائیے۔ دائیں بائیں۔ آگے پیچھے۔ اپنے اندر جھانکیے۔ من کا اطمینان کِس کِس کو نصیب ہے۔ آپ کے اپنے اندر خوش گوار یادوں کے کتنے چراغ روشن ہیں۔ آپ کے اِردگرد لوگوں کی بھیڑ میں کتنے قلندر کتنے درویش اپنے حال میں مگن ہیں۔ آپ ڈھونڈتے رہیں گے، لیکن آپ سمیت شاید ہی کوئی اپنے من کی نگری کا بادشاہ ہو۔ ہم سب ہی مطمئن اور خوش رہنا بھول چکے ہیں۔ فِکرفردا، حساب کتاب، فائدے نقصان نے ہمارے احساس کے Soft Cushins گِھس گھِس کے کُھردرے کردیے ہیں۔ ہم اپنے سائے پر بھی شک کرنے لگے ہیں۔ ہر طرح کے عیش، آرام اور سہولت کے سامان میّسر ہونے کے باوجود ہمیں ہر شے مزید درکار ہوتی ہے۔ کچھ اور کی طلب اور خواہش، ہمیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔
ایک کام کے بعد دوسرا کام، ایک پروموشن کے بعد دوسرے گریڈ کی جستجو، ایک لاکھ کے بعد دس لاکھ کا حصول، ہر سال نئے ماڈل کی گاڑی اور نیا آئی فون، بس ایک قدم اور۔ ایک چھلانگ اور۔ بس ایک پروجیکٹ اور۔ ایسا Cycle شروع ہوجاتا ہے کہ پھر ہم رُک نہیں پاتے۔ کسی مقام پر ٹھہر نہیں پاتے۔
ہماری ذہنی، جسمانی اور جذباتی مشقّت ہمیں نڈھال کردیتی ہے۔ ہماری ذہنی، جسمانی اور جذباتی تھکن ہمیں اپنے آج، اپنے حال کی چھوٹی چھوٹی باتوں، چیزوں اور خوشیوں سے لطف اندوز نہیں ہونے دیتی۔ صبح سویرے پیپل کے درخت پر بیٹھی کوئل کی کُو کُو۔ رنگ برنگے آسٹریلین طوطوں کی مدھر آوازیں۔
سردیوں کے سنّاٹے کی صبح سویرے کی سنہری دھوپ۔ ساحلِ سمندر پر ننگے پاؤں ریت پر چلنا۔ گرم دوپہر میں ٹھنڈا ٹھار گنّے کا رس سے بھرا گلاس۔ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر آلوچنے کی چاٹ تھامے اپنے سامنے سے گزرتی گاڑیوں کی لمبی قطار کو دیکھنا۔ بچپن کے دوست کے ساتھ پٹھان کے ہوٹل پر لوہے کی کرسی پر بیٹھے بیٹھے گھنٹوں گزارنا۔ بستر پر لیٹ کر کِسی خوب صورت سے ناول کے کرداروں کے ساتھ خود کو بھی کہانی کے مدّوجزر میں اُلجھانا۔ رات کے پہلے پہر آنگن میں فرشی تشست سجا کر چاند ستاروں کو تکنا۔ سڑک پر بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنا۔ موتیا، چنبیلی اور گلاب کے پودوں کو پانی دینا اور روز کے روز تازہ پھولوں کو توڑ کر تپائی پر لارکھنا۔ درودشریف کا وِرد کرتے ہوئے لمبی واک پر نکل جانا۔ ابلتے ہوئے پانی میں چائے کی پتّی ڈال کر چائے کو دَم دینا اور اُس کی خوشبو سونگھنا۔ جیمز بانڈ یا ہیری پورٹر کی فلم لگا کر ایکشن اور فکشن کی دنیا میں کھو جانا۔
ایسے ہی دیگر چھوٹے چھوٹے کاموں اور ننھی منّی باتوں سے اپنے حال کی مَٹی پر چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی بوندیں گرتے ہوئے دیکھنا اور لطف وسرور سے اپنے من کی نگری کو روشن کرنا ایک آرٹ ایک ہُنر ہے، جو قدرت کی طرف سے تو ہمیں By Birth ملتا ہے۔ لیکن ہماری Faulty لرننگ، ٹریننگ اور گرومنگ ہمیں اپنے اِس پیدائشی حق کے مستقل حل کے استعمال سے روک دیتی ہے اور ہم ہر اُس کام اُس بات سے کنّی کترانے لگتے ہیں، جس میں ہمیں کوئی Monetary Gain نظر نہیں آتا اور ہر اُس کام اُس بات کی طرف لپکنے لگتے ہیں، جس میں دو پیسے کا فائدہ دکھائی دے رہا ہو۔
یہ لپک جھپک ہم سے حال میں جی لینے اور جیتے رہنے کا سواد چھین لیتی ہے، اور ہماری نفسیات کے Android سسٹم میں بے چینی کی ایسی Application ڈال دیتی ہے، جو ہماری امید وتوانائی کی بیٹری کو مستقل Drain out کرتی رہتی ہے اور ہمیں بار بار خود کو ری چارج کرنے کے لیے پیسوں سے عارضی خوشیاں خریدنا پڑتی ہیں اور پیسے کمانے کے لیے اپنے وقت اور اپنی محنت کو مستقل خرچ کرتے رہنا پڑتا ہے۔
وقت، محنت اور توانائی کا مستقل استعمال ہمیں حال میں مگن رہنے سے محروم کردیتا ہے اور ہمارے ہاتھ سے توازن اور اعتدال کا دامن چھوٹ جاتاہے۔ حال ہم سے روٹھ جاتا ہے۔ مستقبل Insecure ہونے لگتا ہے۔ اور ماضی کی سفید اسکرین پر سیاہ دھبّوں کی تعداد بڑھنے لگتی ہے۔
من کے نگر میں امن وسکون اُسی وقت ممکن ہے جب ہمارا حالRat Race کی بے چینی و بے سکونی سے عاری وخالی ہو اور حال کے اطمینان کی کنجی، شکروقناعت میں چُھپی ہوتی ہے۔