موبائل فون دہشتگردی کا ہتھیارسرمایہ کاری کےچکرمیں قیمتی جانوں سےنہیں کھیل سکتےرحمن ملک
سرمایہ کاری بھی مستحکم ملکوں میں ہی ہوتی ہے۔ اگر ملک مستحکم نہیں ہوگا تو پھر سرمایہ کاری کون کرے گا، رحمان ملک۔
لاہور:
میڈیا سے وابستہ افراد کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری کے لئے ہر وقت حکمرانوں اور بیوروکریسی کے تعاون کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
اسی ضرورت کے تحت میڈیا ان سے رابطے کرتا ہے تو اکثر ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فون کالز، ایس ایم ایس یا فیکس کے ذریعے ارباب اختیار سے بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن سخت سوالوں کا جواب دینے سے کترانے والے حکمران اور سرکاری افسر میڈیا سے پہلو تہی برتتے ہیں۔ یہی معاملہ کچھ میرے اس فیچر کے دوران بھی ہوا۔ اس میں وزارت داخلہ کی آراء شامل کرنے کے لئے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک سے بات کرنا ناگزیر تھا۔
حکمرانوں کے عمومی رویے اور ملک کی موجودہ ابتر صورتحال میں وزیر داخلہ رحمان ملک کی مصروفیات کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی بد دلی سے انھیں ایس ایم ایس بھیجا گیا، لیکن رات کے تقریباً 11بجے میں حیران رہ گیا جب محترم رحمان ملک کا فون آگیا۔ انھوں نے خود فون کرکے احساس ذمے داری کا واضح ثبوت دیا اور دیگر ارباب اختیار کے لئے قابل تقلید مثال قائم کی۔ انھوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ میرے فیچر کے حوالے سے سوالوں کے جوابات دیئے۔ انھوں نے جو گفتگو کی وہ قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔
دہشتگردی میں موبائل فون کے بڑھتے ہوئے استعمال پر وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ موبائل فون دہشتگرد کا ہتھیار بن چکا ہے، جس کو دہشتگرد بڑی آسانی سے جہاں مرضی بیٹھ کر اپنے حساب سے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ دوسرے شہروں میں بیٹھ کر ٹارگٹ ہٹ کرتے ہیں۔ موبائل کے ذریعے دھماکہ میں دہشتگرد وائبریٹر لگاتے ہیں جس سے بڑے سے بڑا دھماکہ خیز مواد اڑایا جا سکتا ہے۔ یہ وائبریٹر اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ اس سے چھوٹا بلب تک روشن ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں جب موبائل فون پاکستان آیا اور تیزی کے ساتھ ملک بھر میں پھیل گیا، اس وقت کی حکومت نے اس کو اتنا سنجیدگی سے نہیں لیا۔
موبائل فون اور سم کی پاکستان آمد کے موقع پر بہت ڈھیلی ڈھالی پالیسی اپنائی گئی۔ اب اتنا کچھ جو ملک میں ہو رہا ہے اس کے سدباب کے لئے ہمیں موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کا تعاون درکار ہے۔ ہم چاہتے ہیں صرف منظور شدہ ڈیلر ہی سِم فروخت کرے۔ سم فروخت کرنے کے لئے سیل سینٹرز میں جدید آلات نصب کئے جائیں گے، جس کے لئے موبائل فون کمپنیوں نے 3ماہ کا وقت مانگا، جس میں اب تقریباً ڈیڑھ ماہ باقی رہ گیا۔ یہ وقت دے کر ہم انتظار کر رہے ہیں، اس کے بعد بھی اگر سِم کی فروخت کا طریقہ کار قانون کے مطابق نہ ہوا تو پھر ایکشن لیا جائے گا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ سِم دینے کی پالیسی کو سخت بنایا جائے گا۔
سِم کا صرف جائز استعمال ہونا چاہیے، ناجائز استعمال اب پاکستان میں ہم نہیں ہونے دینگے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ہم نے سِموں کی اسی طرح فروخت جاری رکھی تو اس سے دہشتگرد مزید مضبوط ہوں گے۔ محرم الحرام اور اس کے بعد چہلم حضرت امام حسینؓ کے موقع پر ہم نے موبائل فون سروس کی بندش سے بہترین نتائج حاصل کئے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر ہم موبائل کمپنیوں اور سِموں کی فروخت کو باقاعدہ قانون کے دھارے میں لے آئیں تو بم دھماکوں پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ موبائل سِم کی وجہ سے 80فیصد بم دھماکے ہونے کے بیان پر قائم ہوں۔
ملک میں موبائل کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے رحمان ملک کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاری بھی مستحکم ملکوں میں ہی ہوتی ہے۔ اگر ملک مستحکم نہیں ہوگا تو پھر سرمایہ کاری کون کرے گا۔ پھر سب سے زیادہ ضروری زندگی ہے۔ صرف سرمایہ کاری کے چکر میں اپنے شہریوں کی قیمتی جانوں سے نہیں کھیل سکتے۔ ہم ملک میں موبائل سروس کا خاتمہ نہیں چاہتے، صرف ان کو قانون کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں جیسے سِموں کی فروخت ہوتی ہے ایسا کسی ملک میں نہیں ہوتا۔ دیکھنا ہوگا کہ کیا سِموں کی فروخت کا یہی معیار دیگر ممالک میں بھی ہے۔ ایسے ممالک بھی ہیں جہاں پاسپورٹ کے بغیر سِم کا اجراء ممکن ہی نہیں۔ اس کے علاوہ بھی سِم حاصل کرنے کے لئے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ موبائل کمپنیاں جب دنیا بھر میں قانون کے مطابق سخت شرائط کیساتھ سِمیں جاری کرتی ہیں تو پھر ہمارے ملک میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔
میڈیا سے وابستہ افراد کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری کے لئے ہر وقت حکمرانوں اور بیوروکریسی کے تعاون کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
اسی ضرورت کے تحت میڈیا ان سے رابطے کرتا ہے تو اکثر ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فون کالز، ایس ایم ایس یا فیکس کے ذریعے ارباب اختیار سے بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن سخت سوالوں کا جواب دینے سے کترانے والے حکمران اور سرکاری افسر میڈیا سے پہلو تہی برتتے ہیں۔ یہی معاملہ کچھ میرے اس فیچر کے دوران بھی ہوا۔ اس میں وزارت داخلہ کی آراء شامل کرنے کے لئے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک سے بات کرنا ناگزیر تھا۔
حکمرانوں کے عمومی رویے اور ملک کی موجودہ ابتر صورتحال میں وزیر داخلہ رحمان ملک کی مصروفیات کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی بد دلی سے انھیں ایس ایم ایس بھیجا گیا، لیکن رات کے تقریباً 11بجے میں حیران رہ گیا جب محترم رحمان ملک کا فون آگیا۔ انھوں نے خود فون کرکے احساس ذمے داری کا واضح ثبوت دیا اور دیگر ارباب اختیار کے لئے قابل تقلید مثال قائم کی۔ انھوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ میرے فیچر کے حوالے سے سوالوں کے جوابات دیئے۔ انھوں نے جو گفتگو کی وہ قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔
دہشتگردی میں موبائل فون کے بڑھتے ہوئے استعمال پر وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ موبائل فون دہشتگرد کا ہتھیار بن چکا ہے، جس کو دہشتگرد بڑی آسانی سے جہاں مرضی بیٹھ کر اپنے حساب سے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ دوسرے شہروں میں بیٹھ کر ٹارگٹ ہٹ کرتے ہیں۔ موبائل کے ذریعے دھماکہ میں دہشتگرد وائبریٹر لگاتے ہیں جس سے بڑے سے بڑا دھماکہ خیز مواد اڑایا جا سکتا ہے۔ یہ وائبریٹر اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ اس سے چھوٹا بلب تک روشن ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں جب موبائل فون پاکستان آیا اور تیزی کے ساتھ ملک بھر میں پھیل گیا، اس وقت کی حکومت نے اس کو اتنا سنجیدگی سے نہیں لیا۔
موبائل فون اور سم کی پاکستان آمد کے موقع پر بہت ڈھیلی ڈھالی پالیسی اپنائی گئی۔ اب اتنا کچھ جو ملک میں ہو رہا ہے اس کے سدباب کے لئے ہمیں موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کا تعاون درکار ہے۔ ہم چاہتے ہیں صرف منظور شدہ ڈیلر ہی سِم فروخت کرے۔ سم فروخت کرنے کے لئے سیل سینٹرز میں جدید آلات نصب کئے جائیں گے، جس کے لئے موبائل فون کمپنیوں نے 3ماہ کا وقت مانگا، جس میں اب تقریباً ڈیڑھ ماہ باقی رہ گیا۔ یہ وقت دے کر ہم انتظار کر رہے ہیں، اس کے بعد بھی اگر سِم کی فروخت کا طریقہ کار قانون کے مطابق نہ ہوا تو پھر ایکشن لیا جائے گا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ سِم دینے کی پالیسی کو سخت بنایا جائے گا۔
سِم کا صرف جائز استعمال ہونا چاہیے، ناجائز استعمال اب پاکستان میں ہم نہیں ہونے دینگے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ہم نے سِموں کی اسی طرح فروخت جاری رکھی تو اس سے دہشتگرد مزید مضبوط ہوں گے۔ محرم الحرام اور اس کے بعد چہلم حضرت امام حسینؓ کے موقع پر ہم نے موبائل فون سروس کی بندش سے بہترین نتائج حاصل کئے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر ہم موبائل کمپنیوں اور سِموں کی فروخت کو باقاعدہ قانون کے دھارے میں لے آئیں تو بم دھماکوں پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ موبائل سِم کی وجہ سے 80فیصد بم دھماکے ہونے کے بیان پر قائم ہوں۔
ملک میں موبائل کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے رحمان ملک کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاری بھی مستحکم ملکوں میں ہی ہوتی ہے۔ اگر ملک مستحکم نہیں ہوگا تو پھر سرمایہ کاری کون کرے گا۔ پھر سب سے زیادہ ضروری زندگی ہے۔ صرف سرمایہ کاری کے چکر میں اپنے شہریوں کی قیمتی جانوں سے نہیں کھیل سکتے۔ ہم ملک میں موبائل سروس کا خاتمہ نہیں چاہتے، صرف ان کو قانون کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں جیسے سِموں کی فروخت ہوتی ہے ایسا کسی ملک میں نہیں ہوتا۔ دیکھنا ہوگا کہ کیا سِموں کی فروخت کا یہی معیار دیگر ممالک میں بھی ہے۔ ایسے ممالک بھی ہیں جہاں پاسپورٹ کے بغیر سِم کا اجراء ممکن ہی نہیں۔ اس کے علاوہ بھی سِم حاصل کرنے کے لئے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ موبائل کمپنیاں جب دنیا بھر میں قانون کے مطابق سخت شرائط کیساتھ سِمیں جاری کرتی ہیں تو پھر ہمارے ملک میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔