ڈیرہ بگٹی
وسائل اور علاقائی ثقافت کی سرزمین جو مسائل کی آماجگاہ بنا دی گئی
پنجاب کے آخری ضلع راجن پور سے مغرب کی طرف روانہ ہوں تو تقریباً چالیس کلومیٹر کے بعد بے آب و گیاہ، بنجر اور پتھریلی سرزمین شروع ہو جاتی ہے' اس سے ذرا آگے پہاڑی علاقہ شروع ہو جائے تو سمجھ لیجئے آپ غیور،بہادر اور صدیوں کی روایات کے امین بگٹی قبائل کی سرزمین ضلع ڈیرہ بگٹی کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں۔ تین چار دہائیاںقبل اس علاقے کی کوئی خاص شناخت نہ تھی، پہلی عوامی شناخت اسے قدرتی گیس کی دریافت نے دی اور دوسری شناخت اسے نواب اکبر خان بگٹی نے دی جو یہاں آباد قبائل کے سردار تھے۔
ڈیرہ کے معنی ہیں رہائش یا آبادی ، یوں ڈیرہ بگٹی سے مراد ہے بگٹی قبائل کی آبادی۔ اس علاقے کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ برصغیر پر انگریزوں کے قبضے کے بعد یہاں کے بگٹی قبائل انگریزی فوجوں کے خلاف آخری وقت تک مزاحمت کرتے رہے تھے اور انھوں نے 19ویں صدی میں انگریزوں کے خلاف کئی معرکے جیتے ۔ آزادی چونکہ ان کے خون میں شامل تھی اس لئے انھوں نے انگریزی فوجوں کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ 19ویں صدی کے آخر میں انگریزوں کی طاقت بہت بڑھ چکی تھی اس لئے انھوں نے اس علاقے کا گھیرائو کر کے قبضہ کر لیا۔ تب ڈیرہ بگٹی کو ضلع سبی کا حصہ قرار دیا گیااور 1974ء تک یہی صورتحال برقرار رہی ،اسی سال ضلع سبی میں سے دو نئے اضلاع کوہلو اور نصیر آباد بنا دئیے گئے۔
یوں ڈیرہ بگٹی کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا، سوئی اور پھیلوغ اس کی تحصیلیں قرار پائیں، ضلع کا کل رقبہ 3922مربع کلومیٹر ہے اور ڈیرہ بگٹی اس کا ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے،ڈیرہ بگٹی مشہور پہاڑی سلسلے سلیمان رینج کا حصہ ہے، موسم خشک اور گرم ہے ،کم سے کم درجہ حرارت 8سنٹی گریڈ اور زیادہ سے زیادہ 41سنٹی گریڈ تک رہتا ہے،بارشیں بہت کم ہوتی ہیں ، 60ایم ایم یعنی 2.4انچ سالانہ اوسط سے بارش ہوتی ہے ۔2005ء کے اندازے کے مطابق ضلع ڈیرہ بگٹی کی آبادی اڑھائی لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے جس میں 99فیصد مسلمان ہیں۔
ڈیرہ بگٹی ٹائون کی آبادی تقریباً 19ہزار ہے اور یہاں رجیہا، کلپر، نوتھانی، میسوری ، فیروزنی، سلمان زئی، مندرانی،قاسمانی،شمبانی،سوبازئی، پہی اور موہارکن قبائل آباد ہیں، یہ سب بگٹی قبیلہ کی ہی شاخیں ہیں۔ ڈیرہ بگٹی کی تحصیل پھیلوغ کا انتظام بطور یونین کونسل چلایا جاتا ہے،یہ راجن پور کی طرف پنجاب کی سرحد کے قریب ترین ہے، ضلع کی تیسری اور بڑی تحصیل سوئی کو قدرتی گیس کے پلانٹ لگائے جانے کی وجہ سے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، یہ تحصیل پنجاب اور سندھ کے سنگم پر واقع ہے ، پنجاب کی سرحد سے اس کا فاصلہ 9کلومیٹر جبکہ سندھ کی سرحد سے 10کلومیٹر ہے۔ دریائے سندھ مشرق میں اس سے صرف 25کلومیٹر کی دوری پر بہتا ہے، جبکہ یہ دریا ڈیرہ بگٹی سے چالیس کلومیٹر دور جنوب میں واقع ہے۔
ڈیرہ بگٹی ثقافتی حوالے سے بہت متنوع ہے،صدیوں سے چلی آ رہی روایات اس جدید دور میں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجو د ہیں۔ مردوں کے قد دراز اور گھنی داڑھی رکھنے کا رواج ہے ، مرد سروں پر بڑی بڑی پگڑیاں اور ٹوپیاں پہنتے ہیں، لمبے اور کھلے کرتے اور ڈھیلی ڈھالی شلوار ان کا پیرہن ہے۔خواتین کڑھائی والا شلوار قمیص اورڈوپٹہ اوڑھتی ہیں ، پردے کا رواج ہونے کی وجہ سے گھروں سے باہر عورتیں بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ مختلف قبائل کی آپس میں دشمنیاں چلتی رہتی ہیں جو قتل و غارت اور علاقے میں کشیدگی کا باعث بنتی ہیں،1992ء کے الیکشن میں کلپر قبیلہ کے سردار خان محمد خان کے بیٹے عامر حمزہ کو قتل کر دیا گیا جس کا الزام راجیہا قبیلہ پر لگا دیا گیا حالانکہ ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ راجیہا قبیلہ نے قتل کیا یا کرایا ہے مگر کلپر قبیلہ والے بضد رہے اور انھوں نے بدلہ میں سلال بگٹی کو قتل کر دیا،نواب اکبر بگٹی اس قتل کا بدلہ لینے کے لئے پورے کلپر قبیلہ کو ڈیرہ بگٹی سے نکال دینا چاہتے تھے۔
ڈیرہ بگٹی کے لوگ اپنے فیصلے عدالتوں کی بجائے جرگے کے ذریعے کرانا زیادہ پسند کرتے ہیں ، جرگہ والے صدیوں پرانی روایات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں ، اس نظام کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ عدالتوں کے طویل چکر سے بچ جاتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی قدیم نظام کی وجہ سے بہت سے فیصلے جدید تہذیب و تمدن سے میل نہیں کھاتے جیسے گزشتہ سال اکتوبر میں باگڑی اور شاہوانی قبائل کے جھگڑے کا فیصلہ سناتے ہوئے جرگہ نے 13لڑکیا ں ونی کر دیں۔ رسوم رواج میں بندھے یہ لوگ اس پر کاربند رہنے پر مجبور ہیں ،کیونکہ ماہرین عمرانیات بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ روایات یا تو وقت کے ساتھ ساتھ خود تبدیل ہوتی ہیں یا پھر انھیں تبدیل کرنے کے لئے بہت کوشش کرنا پڑتی ہے اور ایسا کرنے والے کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح وڈیرہ کلچر نے بھی معاشرے کو جکڑا ہو اہے۔ یہاں کے باشندے کم حراروں والی خوراک استعمال کرتے ہیں تاکہ خود کو چاک و چوبند ر کھ سکیں ، تاہم بلوچی سجی یہاں کی خاص ''ڈش'' ہے۔
ڈیرہ بگٹی کی سرزمین صدیوں قدیم روایات کی امین ہے، یہاں پر پائی جانے والی معدنیات کی وجہ سے یہ ملک وقوم کے لئے انتہائی قیمتی اثاثہ ہے، مگر ناقص حکمت عملی اور یہاں کی روایات کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے مسائل اتنے زیادہ ہوچکے ہیں کہ جنھیں حل کرنے کے لئے انتہائی فہم و فراست اور طویل عرصہ درکار ہے۔
نواب اکبر خان بگٹی
نواب اکبر خان بگٹی اس علاقے کی پہچان بنے۔ وہ بلند آہنگ ، دوٹوک فیصلوں اور علاقے کی بہتری کے لئے آواز بلند کرنے کی وجہ سے قومی سطح پر جانے پہچانے گئے۔وہ اس علاقے کے تمام بگٹی قبائل کے سپریم کمانڈر بھی تھے۔آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ نواب اکبر خان بگٹی 1958ء میں قومی اسمبلی کے رکن بنے پھر انھیں جلد ہی وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ جنرل ایوب خان نے جمہوریت پر شب خون مارا تو ان کی وزارت بھی جاتی رہی مگر اس وقت تک ان کا نام سیاسی ایوانوں میں گونجنے لگا تھا ۔ طویل مارشل لاء کے بعد جب جمہوری دور کا آغاز ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا تو انھوں نے نواب اکبر بگٹی کو بلوچستان کا گورنر مقرر کیا،مگر حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے انھوں نے استعفیٰ دے دیا ۔
ان کے استعفیٰ کے بعد علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی اور حکومت نے بگٹی قبائل کو دبانے کے لئے فوجی آپریشن شروع کر دیا جس میں سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے۔ تجزیہ کاروں کا خیا ل ہے کہ گو نواب اکبر بگٹی اور دیگر قبائلی رہنمائوں کا موقف سخت اور دوٹوک تھا مگر حکومت کو حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنا چاہئے تھا ، جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدارسنبھالا تو اس نے بگٹی اور دیگر ناراض قبائل سے مذاکرات کئے یوں معاملات طے پا گئے اور سوئی گیس کے منصوبوں کی نئے سرے سے تیاریاں کی جانے لگیں۔اسی دوران نواب اکبر بگٹی نے جمہوری وطن پارٹی کی بنیاد رکھی یوں سیاست میں بھرپور حصہ لینے لگے۔
پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کیا ،بعض شر پسند عناصر نے جنرل پرویز مشرف اور نواب اکبر بگٹی کے درمیان غلط فہمیاں اتنی بڑھا دیں کہ مذاکرات کے تمام دروازے بند ہو گئے۔ غلط فہمیاں پھیلانے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گیس کے ذخائر کو اپنی مرضی سے استعمال کرنا چاہتے تھے مگر نواب اکبر خان بگٹی اس میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے، ان کا موقف تھا کہ علاقے کے وسائل کا زیادہ حصہ اسی علاقے کی فلاح وبہبود کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے جبکہ غلط فہمیاں پھیلانے والے اسے بغاوت کا رنگ دے کر پیش کرتے رہے ، اس طرح فوجی آپریشن کی راہ ہموار کی گئی تاکہ بلند آہنگ نواب اکبر بگٹی کو راستے سے ہٹایا جاسکے ، یوں نواب اکبر بگٹی فوجی آپریشن کے نتیجے میں 26اگست 2006ء کو جاں بحق ہو گئے۔
ڈیرہ بگٹی کے وسائل
ڈیرہ بگٹی کی سرزمین دیکھنے میں خشک ، بے آب و گیاہ اور پتھریلی ہے مگر اس سے یہ نہ سمجھئے گا کہ یہ زمین بے مصرف اور بے کار ہے ۔ قدرت نے اس سرزمین کو انمول خزانوں سے نوازاہے۔1953ء وہ سال ہے جب اس علاقے سے قدرتی گیس دریافت ہوئی اور ساری دنیا کی نظریں اس طرف مرکوز ہو گئیں اور یہ بنجر اور پتھریلی زمین سونے کی چڑیا دکھائی دینے لگی۔ یہاں سے نکلنے والی قدرتی گیس چونکہ سوئی کے مقام سے دریافت ہوئی تھی اس لئے اسے قدرتی کی بجائے سوئی گیس کے نام سے پکارا جانے لگا۔1953 ء میں گیس تو دریافت ہو گئی مگر مالی مسائل اور دیگر وجوہات کی بناء پر دس سال تک پلانٹ نہ لگایا جا سکا ۔
1963ء میں سوئی گیس فیلڈ کے نام سے پہلے پلانٹ نے کام شروع کیا اور پنجاب اور سندھ کے قریبی اضلاع کو گیس فراہم کی جانے لگی ۔ اس وقت سوئی گیس فیلڈ کے موجو دہ ذخائر تقریباً2 ٹریلین کیوبک فٹ ہیں اور اس پلانٹ کی روزانہ پیداوار 604ملین کیوبک فٹ ہے اور یہ ملک میں گیس کی مجموعی پیداوار کا26فیصد فراہم کرتا ہے، اس پلانٹ کا انتظام پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے ذمے ہے۔ دوسرا گیس پلانٹ پیر کوہ کے مقام پر 1981 میں لگایا گیا جس کی روزانہ پیدا وار 32838 ایم ایم ای ایف ٹی ہے۔ تیسرا گیس پلانٹ 1986ء میں اچ گیس فیلڈ کے نام سے لگایا گیا جس کی روزانہ پیدا وار 56535ایم ایم ای ایف ٹی ہے ، اسی طرح گیس کا چوتھا پلانٹ 1989ء میں لوٹی گیس فیلڈ کے نام سے لگایا گیا ۔
جس کی روزانہ پیدا وار 14085ایم ایم ای ایف ٹی ہے۔ اس کے بعد زیر زمین گیس اور دیگر معدنیات کی تلاش جاری رہی اور 1996ء میں ڈیرہ بگٹی کے بلاک زینیکس ون(zinx 1) میںقدرتی گیس کے ذخائر ملے اور اسی سال آئل اینڈ ڈیویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (OGDCL)کے ساتھ حکومتی معاہدہ طے پا گیا اور ڈرلنگ شروع کی گئی مگر علاقے میں صورتحال کشیدہ ہونے کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور پھر یہ سلسلہ سالہا سال تک موقوف رہا ، جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو 2010ء میں ڈرلنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا مگر کشیدگی اور دیگر مسائل کی وجہ سے مقرر ہ مدت میں کام مکمل نہ ہوسکا۔ اس منصوبے پر ابھی کام جاری ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ چھ ماہ میں یہاں سے گیس کی فراہمی شروع کر دی جائے گی ۔ ایک اندازے کے مطابق اس ذخیرے میں سوئی گیس فیلڈ سے دوگنا گیس موجود ہے جو اگلے سو سال کے لئے ملکی ضروریا ت کو پورا کر سکتی ہے۔
سوئی کے علاقے میں لگائے گئے چاروں گیس پلانٹ ملکی ضروریات کا 40فیصد فراہم کرتے ہیں اسی سے اس خطے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس ضلع میں گیس کے ساتھ ساتھ تیل کے ذخائر بھی موجود ہیں مگر بدقسمتی سے ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ملک و قوم اس سے مستفید نہیں ہو سکے۔ خطے کے حالات ہمیشہ کشیدہ رہنے کی وجہ سے تیل اور گیس کے مزید ذخائر کی تلاش میں بہت دشواریوں کا سامنا ہے ۔ اس علاقے کی بظاہر بنجر اور پتھریلی زمین کو معدنیات کی کثرت کی وجہ سے اگر سونے کی سرزمین کہا جائے تو غلط نہ گا۔
ڈیرہ کے معنی ہیں رہائش یا آبادی ، یوں ڈیرہ بگٹی سے مراد ہے بگٹی قبائل کی آبادی۔ اس علاقے کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ برصغیر پر انگریزوں کے قبضے کے بعد یہاں کے بگٹی قبائل انگریزی فوجوں کے خلاف آخری وقت تک مزاحمت کرتے رہے تھے اور انھوں نے 19ویں صدی میں انگریزوں کے خلاف کئی معرکے جیتے ۔ آزادی چونکہ ان کے خون میں شامل تھی اس لئے انھوں نے انگریزی فوجوں کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ 19ویں صدی کے آخر میں انگریزوں کی طاقت بہت بڑھ چکی تھی اس لئے انھوں نے اس علاقے کا گھیرائو کر کے قبضہ کر لیا۔ تب ڈیرہ بگٹی کو ضلع سبی کا حصہ قرار دیا گیااور 1974ء تک یہی صورتحال برقرار رہی ،اسی سال ضلع سبی میں سے دو نئے اضلاع کوہلو اور نصیر آباد بنا دئیے گئے۔
یوں ڈیرہ بگٹی کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا، سوئی اور پھیلوغ اس کی تحصیلیں قرار پائیں، ضلع کا کل رقبہ 3922مربع کلومیٹر ہے اور ڈیرہ بگٹی اس کا ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے،ڈیرہ بگٹی مشہور پہاڑی سلسلے سلیمان رینج کا حصہ ہے، موسم خشک اور گرم ہے ،کم سے کم درجہ حرارت 8سنٹی گریڈ اور زیادہ سے زیادہ 41سنٹی گریڈ تک رہتا ہے،بارشیں بہت کم ہوتی ہیں ، 60ایم ایم یعنی 2.4انچ سالانہ اوسط سے بارش ہوتی ہے ۔2005ء کے اندازے کے مطابق ضلع ڈیرہ بگٹی کی آبادی اڑھائی لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے جس میں 99فیصد مسلمان ہیں۔
ڈیرہ بگٹی ٹائون کی آبادی تقریباً 19ہزار ہے اور یہاں رجیہا، کلپر، نوتھانی، میسوری ، فیروزنی، سلمان زئی، مندرانی،قاسمانی،شمبانی،سوبازئی، پہی اور موہارکن قبائل آباد ہیں، یہ سب بگٹی قبیلہ کی ہی شاخیں ہیں۔ ڈیرہ بگٹی کی تحصیل پھیلوغ کا انتظام بطور یونین کونسل چلایا جاتا ہے،یہ راجن پور کی طرف پنجاب کی سرحد کے قریب ترین ہے، ضلع کی تیسری اور بڑی تحصیل سوئی کو قدرتی گیس کے پلانٹ لگائے جانے کی وجہ سے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، یہ تحصیل پنجاب اور سندھ کے سنگم پر واقع ہے ، پنجاب کی سرحد سے اس کا فاصلہ 9کلومیٹر جبکہ سندھ کی سرحد سے 10کلومیٹر ہے۔ دریائے سندھ مشرق میں اس سے صرف 25کلومیٹر کی دوری پر بہتا ہے، جبکہ یہ دریا ڈیرہ بگٹی سے چالیس کلومیٹر دور جنوب میں واقع ہے۔
ڈیرہ بگٹی ثقافتی حوالے سے بہت متنوع ہے،صدیوں سے چلی آ رہی روایات اس جدید دور میں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجو د ہیں۔ مردوں کے قد دراز اور گھنی داڑھی رکھنے کا رواج ہے ، مرد سروں پر بڑی بڑی پگڑیاں اور ٹوپیاں پہنتے ہیں، لمبے اور کھلے کرتے اور ڈھیلی ڈھالی شلوار ان کا پیرہن ہے۔خواتین کڑھائی والا شلوار قمیص اورڈوپٹہ اوڑھتی ہیں ، پردے کا رواج ہونے کی وجہ سے گھروں سے باہر عورتیں بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ مختلف قبائل کی آپس میں دشمنیاں چلتی رہتی ہیں جو قتل و غارت اور علاقے میں کشیدگی کا باعث بنتی ہیں،1992ء کے الیکشن میں کلپر قبیلہ کے سردار خان محمد خان کے بیٹے عامر حمزہ کو قتل کر دیا گیا جس کا الزام راجیہا قبیلہ پر لگا دیا گیا حالانکہ ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ راجیہا قبیلہ نے قتل کیا یا کرایا ہے مگر کلپر قبیلہ والے بضد رہے اور انھوں نے بدلہ میں سلال بگٹی کو قتل کر دیا،نواب اکبر بگٹی اس قتل کا بدلہ لینے کے لئے پورے کلپر قبیلہ کو ڈیرہ بگٹی سے نکال دینا چاہتے تھے۔
ڈیرہ بگٹی کے لوگ اپنے فیصلے عدالتوں کی بجائے جرگے کے ذریعے کرانا زیادہ پسند کرتے ہیں ، جرگہ والے صدیوں پرانی روایات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں ، اس نظام کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ عدالتوں کے طویل چکر سے بچ جاتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی قدیم نظام کی وجہ سے بہت سے فیصلے جدید تہذیب و تمدن سے میل نہیں کھاتے جیسے گزشتہ سال اکتوبر میں باگڑی اور شاہوانی قبائل کے جھگڑے کا فیصلہ سناتے ہوئے جرگہ نے 13لڑکیا ں ونی کر دیں۔ رسوم رواج میں بندھے یہ لوگ اس پر کاربند رہنے پر مجبور ہیں ،کیونکہ ماہرین عمرانیات بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ روایات یا تو وقت کے ساتھ ساتھ خود تبدیل ہوتی ہیں یا پھر انھیں تبدیل کرنے کے لئے بہت کوشش کرنا پڑتی ہے اور ایسا کرنے والے کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح وڈیرہ کلچر نے بھی معاشرے کو جکڑا ہو اہے۔ یہاں کے باشندے کم حراروں والی خوراک استعمال کرتے ہیں تاکہ خود کو چاک و چوبند ر کھ سکیں ، تاہم بلوچی سجی یہاں کی خاص ''ڈش'' ہے۔
ڈیرہ بگٹی کی سرزمین صدیوں قدیم روایات کی امین ہے، یہاں پر پائی جانے والی معدنیات کی وجہ سے یہ ملک وقوم کے لئے انتہائی قیمتی اثاثہ ہے، مگر ناقص حکمت عملی اور یہاں کی روایات کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے مسائل اتنے زیادہ ہوچکے ہیں کہ جنھیں حل کرنے کے لئے انتہائی فہم و فراست اور طویل عرصہ درکار ہے۔
نواب اکبر خان بگٹی
نواب اکبر خان بگٹی اس علاقے کی پہچان بنے۔ وہ بلند آہنگ ، دوٹوک فیصلوں اور علاقے کی بہتری کے لئے آواز بلند کرنے کی وجہ سے قومی سطح پر جانے پہچانے گئے۔وہ اس علاقے کے تمام بگٹی قبائل کے سپریم کمانڈر بھی تھے۔آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ نواب اکبر خان بگٹی 1958ء میں قومی اسمبلی کے رکن بنے پھر انھیں جلد ہی وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ جنرل ایوب خان نے جمہوریت پر شب خون مارا تو ان کی وزارت بھی جاتی رہی مگر اس وقت تک ان کا نام سیاسی ایوانوں میں گونجنے لگا تھا ۔ طویل مارشل لاء کے بعد جب جمہوری دور کا آغاز ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا تو انھوں نے نواب اکبر بگٹی کو بلوچستان کا گورنر مقرر کیا،مگر حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے انھوں نے استعفیٰ دے دیا ۔
ان کے استعفیٰ کے بعد علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی اور حکومت نے بگٹی قبائل کو دبانے کے لئے فوجی آپریشن شروع کر دیا جس میں سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے۔ تجزیہ کاروں کا خیا ل ہے کہ گو نواب اکبر بگٹی اور دیگر قبائلی رہنمائوں کا موقف سخت اور دوٹوک تھا مگر حکومت کو حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنا چاہئے تھا ، جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدارسنبھالا تو اس نے بگٹی اور دیگر ناراض قبائل سے مذاکرات کئے یوں معاملات طے پا گئے اور سوئی گیس کے منصوبوں کی نئے سرے سے تیاریاں کی جانے لگیں۔اسی دوران نواب اکبر بگٹی نے جمہوری وطن پارٹی کی بنیاد رکھی یوں سیاست میں بھرپور حصہ لینے لگے۔
پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کیا ،بعض شر پسند عناصر نے جنرل پرویز مشرف اور نواب اکبر بگٹی کے درمیان غلط فہمیاں اتنی بڑھا دیں کہ مذاکرات کے تمام دروازے بند ہو گئے۔ غلط فہمیاں پھیلانے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گیس کے ذخائر کو اپنی مرضی سے استعمال کرنا چاہتے تھے مگر نواب اکبر خان بگٹی اس میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے، ان کا موقف تھا کہ علاقے کے وسائل کا زیادہ حصہ اسی علاقے کی فلاح وبہبود کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے جبکہ غلط فہمیاں پھیلانے والے اسے بغاوت کا رنگ دے کر پیش کرتے رہے ، اس طرح فوجی آپریشن کی راہ ہموار کی گئی تاکہ بلند آہنگ نواب اکبر بگٹی کو راستے سے ہٹایا جاسکے ، یوں نواب اکبر بگٹی فوجی آپریشن کے نتیجے میں 26اگست 2006ء کو جاں بحق ہو گئے۔
ڈیرہ بگٹی کے وسائل
ڈیرہ بگٹی کی سرزمین دیکھنے میں خشک ، بے آب و گیاہ اور پتھریلی ہے مگر اس سے یہ نہ سمجھئے گا کہ یہ زمین بے مصرف اور بے کار ہے ۔ قدرت نے اس سرزمین کو انمول خزانوں سے نوازاہے۔1953ء وہ سال ہے جب اس علاقے سے قدرتی گیس دریافت ہوئی اور ساری دنیا کی نظریں اس طرف مرکوز ہو گئیں اور یہ بنجر اور پتھریلی زمین سونے کی چڑیا دکھائی دینے لگی۔ یہاں سے نکلنے والی قدرتی گیس چونکہ سوئی کے مقام سے دریافت ہوئی تھی اس لئے اسے قدرتی کی بجائے سوئی گیس کے نام سے پکارا جانے لگا۔1953 ء میں گیس تو دریافت ہو گئی مگر مالی مسائل اور دیگر وجوہات کی بناء پر دس سال تک پلانٹ نہ لگایا جا سکا ۔
1963ء میں سوئی گیس فیلڈ کے نام سے پہلے پلانٹ نے کام شروع کیا اور پنجاب اور سندھ کے قریبی اضلاع کو گیس فراہم کی جانے لگی ۔ اس وقت سوئی گیس فیلڈ کے موجو دہ ذخائر تقریباً2 ٹریلین کیوبک فٹ ہیں اور اس پلانٹ کی روزانہ پیداوار 604ملین کیوبک فٹ ہے اور یہ ملک میں گیس کی مجموعی پیداوار کا26فیصد فراہم کرتا ہے، اس پلانٹ کا انتظام پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے ذمے ہے۔ دوسرا گیس پلانٹ پیر کوہ کے مقام پر 1981 میں لگایا گیا جس کی روزانہ پیدا وار 32838 ایم ایم ای ایف ٹی ہے۔ تیسرا گیس پلانٹ 1986ء میں اچ گیس فیلڈ کے نام سے لگایا گیا جس کی روزانہ پیدا وار 56535ایم ایم ای ایف ٹی ہے ، اسی طرح گیس کا چوتھا پلانٹ 1989ء میں لوٹی گیس فیلڈ کے نام سے لگایا گیا ۔
جس کی روزانہ پیدا وار 14085ایم ایم ای ایف ٹی ہے۔ اس کے بعد زیر زمین گیس اور دیگر معدنیات کی تلاش جاری رہی اور 1996ء میں ڈیرہ بگٹی کے بلاک زینیکس ون(zinx 1) میںقدرتی گیس کے ذخائر ملے اور اسی سال آئل اینڈ ڈیویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (OGDCL)کے ساتھ حکومتی معاہدہ طے پا گیا اور ڈرلنگ شروع کی گئی مگر علاقے میں صورتحال کشیدہ ہونے کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور پھر یہ سلسلہ سالہا سال تک موقوف رہا ، جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو 2010ء میں ڈرلنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا مگر کشیدگی اور دیگر مسائل کی وجہ سے مقرر ہ مدت میں کام مکمل نہ ہوسکا۔ اس منصوبے پر ابھی کام جاری ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ چھ ماہ میں یہاں سے گیس کی فراہمی شروع کر دی جائے گی ۔ ایک اندازے کے مطابق اس ذخیرے میں سوئی گیس فیلڈ سے دوگنا گیس موجود ہے جو اگلے سو سال کے لئے ملکی ضروریا ت کو پورا کر سکتی ہے۔
سوئی کے علاقے میں لگائے گئے چاروں گیس پلانٹ ملکی ضروریات کا 40فیصد فراہم کرتے ہیں اسی سے اس خطے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس ضلع میں گیس کے ساتھ ساتھ تیل کے ذخائر بھی موجود ہیں مگر بدقسمتی سے ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ملک و قوم اس سے مستفید نہیں ہو سکے۔ خطے کے حالات ہمیشہ کشیدہ رہنے کی وجہ سے تیل اور گیس کے مزید ذخائر کی تلاش میں بہت دشواریوں کا سامنا ہے ۔ اس علاقے کی بظاہر بنجر اور پتھریلی زمین کو معدنیات کی کثرت کی وجہ سے اگر سونے کی سرزمین کہا جائے تو غلط نہ گا۔