ذوقِ مطالعہ کی امین ایک لائبریری کا قصہ

ٹی وی نے مطالعے کی عادت کو تباہ کیا، بعض رسائل کی آدھی قیمت بھی نہیں نکل پاتی۔

کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ بھی کتابیں کھوکر معاف کرانے آجاتے ہیں، آدھا محلہ میرا قرض دار ہے، نصف صدی سے ’’چاند لائبریری‘‘ چلانے والے نور احمد کی کہانی۔ فوٹو : فائل

بازار میں مختلف چیزوں کی دکانیں کھلی ہیں، کہیں پرچون والے ہیں تو کہیں سبزی فروشوں کے ٹھیلے۔۔۔ کہیں دیہاڑی دار محنت کش اپنے اوزار سجائے اپنی محنت کے خریدار کا انتظار کر رہے ہیں، ان سب سے الگ تھلگ اور اپنی طرز کی ایک منفرد ''دکان'' بھی موجود ہے، جس میں شلوار قمیص میں ملبوس سفید داڑھی والے، ناک پر نظر کی عینک ٹکائے ایک بزرگ نیلے رنگ کی ایک میز کے عقب میں سادہ سی کرسی پر براجمان ہیں۔

ان کے اس کائونٹر پر جلی حروف میں ''چاند لائبریری'' کندہ ہے، جب کہ پس منظر میں موجود مختصر سی جگہ میں دیوار پر لگے شیلفوں میں سیکڑوں کتابیں رکھی ہیں۔ ایک طرف ماہانہ رسائل اور ڈائجسٹوں کے خانے ہیں تو دوسری جانب پرانے ناولوں کے گوشے، کہ جن کے صفحات کی گہری زرد رنگت ان کی طویل عمری ظاہر کرتی ہے، کئی پر پڑی گرد کی دبیز تہہ ان کے کم استعمال کی خبر بھی دے رہی ہے، جب کہ ان کے دائیں سمت والے خانے میں لگے ماہانہ رسائل خاصی اجلی رنگت میں ہیں۔ بھانت بھانت کی دکانوں کے ازدحام میں یہ ''دکان'' راہ گیروں کو لمحے بھر کے لیے رک کر دیکھنے پر ضرور مجبور کرتی ہے۔ گویا

مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر
شہر میں کھولی ہے حالی نے دکاں سب سے الگ

اہل علاقہ کے لیے تو شاید یہ معمول سہی، لیکن اجنبی متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہتا اور کوئی باذوق سردست یاد آنے والی کسی کتاب کا نام لے کر ان سے دریافت بھی کرلیتا ہے۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کراچی میں بھی زندگی خاصی دھیمی ہوا کرتی تھی اور فرصت کے لمحات بِتانے کے لیے جہاں بہت سی دیگر سرگرمیاں جاری رہتیں وہیں مطالعے کا ذوق بھی اپنے عروج پر ہوتا تھا۔۔۔ اور لوگوں کی اس ضرورت کو پوری کرنے کے لیے جا بہ جا کتب خانے کھلے ہوتے تھے، جہاں سے لوگ عاریتاً اپنی من پسند کتب اور رسائل پڑھنے کے لیے لے جاتے۔ یوں بعض منہگی کتب بھی بہت کم پیسوں میں قارئین کی دسترس میں آجایا کرتیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں مطالعے کا چلن کم ہوا یہ کتب خانے بھی سمٹتے چلے گئے۔ اب شاذ و نادر ہی کسی علاقے میں کوئی ایسا کتب خانہ نظر آتا ہے، جو لوگوں کی علمی وادبی ذوق کی آب یاری کر رہا ہو۔ گزرے زمانے کی ایک ایسی ہی مثال ''چاند لائبریری'' ہے، جو گذشتہ پانچ دہائیوں سے زاید عرصے سے دہلی کالونی میں قایم ہے۔

لائبریری کے مالک نور احمد کے مطابق یوں تو وہ کتابوں اور لائبریری کا کام 1963ء سے جُزوقتی طور پر کر رہے ہیں، لیکن ملازمتوں کے سلسلے کے باعث اس میں تسلسل نہ رہتا تھا۔ ایک مرتبہ جب ملازمت چھُٹی تو پھر مستقل بنیادوں پر یہ کام کرنے کی ٹھانی اور ملازمتوں کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔ یہ 1966ء کی بات ہے جب کرائے کی جگہ میں چاند لائبریری کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس زمانے میں فی کتاب ایک آنہ کرایہ لیا جاتا۔ اس علاقے کی مختصر سی آبادی کے باوجود اُس وقت یہاں چار بڑی لائبریریوں کو ملا کر کل سترہ اٹھارہ لائبریریاں موجود تھیں، لیکن اب ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہی۔ اس زمانے میں بچوں کا شغل ہی یہ ہوتا تھا کہ جوں ہی چھٹیاں ہوئیں اور وہ گھر کے باہر چھوٹی میز پر چند کتابیں جما کر بیٹھ گئے، چوں کہ لوگوں میں پڑھنے کا شوق تھا، لہٰذا ان بچوں کی لائبریری بھی خوب چلتی۔ نور احمد نے بھی کم عمری میں اس کام سے شوق کیا تھا، لہٰذا آغاز میں پہلے سے جمع شدہ یہ پچاس، ساٹھ کتب نکالیں۔ سستا زمانہ تھا، فقط چند روپوں میں بہتیری کتب لے آئے۔

تقسیم ہند سے سات، آٹھ برس قبل دہلی میں آنکھ کھولنے والے نور احمد کے بڑے بھائی پاکستان بننے کے بعد کراچی آگئے تھے، لہٰذا یہ بھی ان کے پاس چلے آئے اور ایک جاننے والوں کے توسط سے نوکری پر لگے۔ نیا شہر نئی جگہ اور پھر نئے کام کے باعث بات نہ بن سکی۔ تاہم ایک دکان پر ناتجربہ کاری کے باوجود ملازمت مل گئی۔ خاندان بجلی کے کام میں مہارت رکھتا ہے، انہوں نے بھی بجلی کا کام سیکھا لیکن کیا کبھی نہیں۔ وہ تقسیم کے بعد لٹے پٹے مہاجرین کی جھونپڑیوں سے آباد ہونے والی دہلی کالونی کے نصف صدی سے زاید کے سفر کے چشم دید گواہ ہیں، جس میں مہاجرین کے سر چھپانے کی خاطر ٹین کی چھتوں اور دیواروں کے عارضی سائبان بنائے گئے اور علاقے کا یہ حصہ اس ہی مناسبت سے ''ٹین کالونی'' کے نام سے بھی موسوم رہا۔ اس وقت یہاں بجلی اور گیس تو درکنار پانی تک موجود نہ تھا اور ذرا دور موجود پہاڑی کی طرف ریلوے لائن پر فوجی گاڑی آ کر پانی مہیا کرتی، لیکن اب علاقے نے بہت ترقی کرلی ہے۔

دورانِ ملازمت ان کی بہت زیادہ چھٹیوں کی عادت کے سبب مالک طعنے دیتے تھے کہ دیکھتا ہوں کیسے اپنا کام کرتے ہو؟ یوں انہوں نے بطور چیلینج اپنا کام شروع کیا اور چُھٹی نہ کرنے کی بات کو یوں سچ کر دکھایا کہ اتوار کو بھی شام کے وقت لائبریری کھولتے ہیں۔

جب لائبریری کا آغاز کیا تو لوگوں میں مطالعے کا ذوق بہت بلند تھا۔ اس زمانے میں لائبریری کے باقاعدہ ممبر بنائے جاتے تھے، جس کی فیس پانچ روپے (قابل واپسی) اور ایک روپیہ ماہانہ ہوتی تھی۔ کتب خانے کے رکن بننے کے بعد قاری ایک وقت میں کوئی بھی ایک کتاب جاری کرا سکتا تھا اور جتنی کتب سے چاہے بہ آسانی استفادہ کر سکتا تھا، البتہ نئے رسالے اور کتب کے لیے دو آنے الگ سے لیے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ سلسلہ دم توڑ گیا۔

شہر کے مختلف ناشرین بھی نور احمد کا خاص خیال رکھتے اور طباعت کے بعد بازار میں دینے سے قبل کتاب کا پہلا نسخہ ان کو دیتے تھے۔ ان کے کتب خانے سے فیض یاب ہونے والوں میں عام شہریوں سے لے کر پولیس اہل کاروں تک ہر طبقے کے لوگ شامل رہے۔ قارئین کے انتخاب کے لیے وہ پہلے باقاعدہ فہرست تیار کرتے، لیکن اب بغیر کسی فہرست اور نمبر کے ازبر رکھتے ہیں کہ کون سی کتاب کہاں رکھی ہے۔ اس طویل عرصے کے دوران سارے کام خود کیے اور کبھی کوئی ملازم نہیں رکھا۔

بھٹو دور میں کرفیو کے دوران بھی انہیں لائبریری کھولنے کا خصوصی پرمٹ ملا ہوا تھا۔ اس لیے وہ کرفیو میں بھی جزوی طور پر لائبریری کھولے رکھتے اور لوگ اس سے خوب استفادہ کرتے۔

نور احمد نے اپنی لائبریری کو صرف ماہانہ رسائل، ڈائجسٹ، ناول اور افسانوں تک محدود رکھا۔ ان کے موجودہ ذخیرے میں ابن صفی، رضیہ بٹ، سلمیٰ کنول، اے آر خاتون، میناناز، نسیم حجازی، قیصر رام پوری، مظہر کلیم، اشتیاق احمد وغیرہ کی کتب موجود ہیں۔ ماہانہ رسائل اس کے علاوہ ہیں۔ بعض ناولوں کے نئے ایڈیشن بہت منہگے ہیں اس لیے ان کے خریدار بھی آتے ہیں لیکن وہ فروخت نہیں کرتے۔

چاند لائبریری خالصتاً پیشہ ورانہ بنیادوں پر استوار ہوئی اور آج لوگوں کے ذوقِ مطالعہ کے زوال کے باوجود اسی بنیاد پر چل رہی ہے۔ جب کام شروع کیا تو کرایہ ایک آنہ ہوتا تھا جب کہ آج دس روپے ہے۔ کام پہلے کے مقابلے میں روپے میں چار آنے رہ گیا ہے۔ نور احمد صاحب کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، جن کی شادی ہوچکی ہے۔ پہلے نور احمد صاحب پورے گھر کا بار اٹھاتے تھے تو آج بھی یافت کا واحد ذریعہ یہی لائبریری ہے اور بقول ان کے اﷲ کا شکر ہے آج بھی دو بندوں کا گزارہ آسانی سے ہو جاتا ہے۔

نور احمد صاحب اپنا کام صرف دکان تک رکھنے کے قائل ہیں۔ لوگ سرِراہ کتاب واپس کرتے ہیں، لیکن وہ نہیں لیتے۔ جو قاری اگلے دن دیر سے کتاب واپس کرتا ہے اسے بھی تنبیہ کے بعد آیندہ کے لیے منع کر دیتے ہیں کہ تمہاری وجہ سے گاہک واپس جاتا ہے۔ بہت سے لوگ یہ فرمایش کرتے ہیں کہ فلاں کتاب واپس آئے تو ہمارے لیے رکھ لینا اور جب رکھ لی جائے تو پھر ان کا پتا نہیں ہوتا، شکایت کرو تو سینہ ٹھوک کر کہتے ہیں کہ ہم کرایہ دے دیں گے، لیکن عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے اب وہ کہتے ہیں کہ کتاب روکوں گا نہیں، موجود ہو تو لے جانا۔


لائبریری کے نفع و نقصان کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ نقصان زیادہ ہے۔ ماضی میں بہت چلنے والے بعض رسائل کی تو آج کل آدھی قیمت بھی نہیں نکل پاتی، لیکن چوں کہ ان کے مستقل گاہک ہیں اس لیے کاروباری نقطۂ نظر سے اس گھاٹے کے باوجود وہ رسائل لانا نہیں چھوڑتے کہ گاہک کو انکار نہ ہو، البتہ بعض کتب ایسی ہیں جو اس نقصان کا ازالہ کر دیتی ہیں۔ آج کل لائبریری کا زیادہ دارومدار ڈائجسٹوں اور عمران سیریز پر ہے، لیکن ماہانہ رسائل کا حقیقی دورانیہ صرف ایک مہینا ہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ پڑے رہتے ہیں۔

نور احمد ہمیشہ نقد کام کے قائل ہیں، لیکن لوگ اب بھی مہینے مہینے بھر اور کچھ اس سے بھی زیادہ کا ادھار کرتے ہیں۔ ''اس پر طرہ یہ کہ جب تقاضا کرو تو اعتراض ہوتا ہے کہ اتنے پیسے کیسے بن گئے۔ میں رجسٹر آگے کر دیتا ہوں کہ خود دیکھ لیجیے۔ بہت سوں کو تو ادائیگی کا کہنا بھی خاصا گراں گزرتا ہے کہ دے دیں گے، کوئی بھاگے تھوڑی جا رہے ہیں، اس طرح آج بھی آدھا محلہ میرا قرض دار ہے۔ بعض گاہک ایسے بھی ہیں کہ کرایہ دینے سے بچنے کے لیے آنکھ بچا کر خاموشی سے کتاب رکھ کر چلے جاتے ہیں۔ بعض کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ بھی کتابیں کھو کر تلافی کے بجائے معافی کے خواستگار ہوتے ہیں۔ ایسوں کا معاملہ میں اﷲ پر چھوڑ دیتا ہوں اور ساتھ کہہ بھی دیتا ہوں کہ بھئی آپ خود کتاب کی واپسی کے دین دار ہوں گے۔''

اس وقت درجن بھر سے زاید ماہانہ رسائل و جرائد ان کی لائبریری میں آتے ہیں اور لوگوں کی طلب کو دیکھتے ہوئے بعض ڈائجسٹوں کی آٹھ، آٹھ کاپیاں لینا پڑتی ہیں۔ مستقل گاہکوں کی تعداد پہلے سو، سوا سو کے درمیان تھی اب پندرہ، بیس رہ گئی ہے۔ خواتین کی تعداد زیادہ ہے، تعطیلات پر مرد حضرات کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ٹی وی اور کیبل نے بنیادی طور پر مطالعے کا شوق ختم کیا۔ بقول انور فرہاد

ایک ٹی وی بولتا رہتا ہے بس
سب کتابیں شیلف میں خاموش ہیں

ان کا کہنا ہے کہ مطالعے میں کمی کے ساتھ اب کرائے پر کتب اور رسائل لے کر پڑھنے کا رجحان بھی کم ہوا ہے، اور لوگ رسائل خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے کرائے پر کتب اور رسائل دینے کے ساتھ ڈائجسٹ فروخت کرنا بھی شروع کر دیے ہیں۔ تاہم، اس میں بھی بعض ڈائجسٹ اگر نہ بکیں تو پھر ردی ہو جاتے ہیں۔

لائبریری کے ساتھ ساتھ انہوں نے کتابوں کی جلد سازی اور پتنگیں بنانے کا کام بھی کیا۔ وقت کے ساتھ دونوں کام تقریباً ختم ہوگئے۔ اس حوالے سے نور احمد کہتے ہیں کہ اسکول والوں نے بچوں کو جلدبَندی سے روک دیا ہے، پہلے یہ پورے تین ماہ کا نہایت اہم سیزن لگتا تھا۔ دن میں پچیس، تیس جلدیں بنالیتے اور پانچ، چھے آنے فی جلد لیتے، اب بہت سے نجی اسکول اپنی منہگی کتب فروخت کرنے کے لیے جلد بندی سے روکتے ہیں، تاکہ کتابیں جلدوں میں محفوظ نہ ہوں اور ان کی کتابیں فروخت ہوں، لہٰذا وہ صرف پلاسٹک کوٹنگ پر زور دیتے ہیں۔ سات آٹھ سال سے جلدوں کا کام بند ہے، شاذونادر ہی کوئی کتاب جلد بندی کے لیے آجاتی ہے۔ پہلے جلد سازی کا اتنا کام تھا کہ روزانہ چالیس، پچاس کتب آتی تھیں، لوگ اصرار کر کر کے دے جاتے، جب کہ پتَنگوں کا رواج کم یا ختم ہونے کی وجہ وہ بلند عمارتوں کی تعمیر کو قرار دیتے ہیں۔

کاغذ و طباعت کی گرانی سے محض چند برسوں میں کتابوں کے دام دُگنے سے بھی زیادہ ہوگئے، جو ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اپنے قارئین کی کمی کا ایک بڑا سبب وہ محلے سے پرانے لوگوں کی نقل مکانی کو بھی قرار دیتے ہیں جو تسلسل سے ان سے کتابیں اور ڈائجسٹ لیتے چلے آ رہے تھے، اب دور گھر لینے کے باعث انہیں یہاں آنے سے بہتر یہ لگتا ہے کہ وہ خرید لیں۔ خود ان کی بیگم کو بھی ڈائجسٹوں کا شوق تھا، جس کی بنا پر انہیں گھر کے لیے علیحدہ رسالے لینے پڑتے تھے لیکن عمر کے ساتھ ان کا شوق ختم ہوگیا، جب کہ پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو نئی نسل کی طرح کتابوں کے بجائے موبائل فون اور ٹی وی سے زیادہ لگائو ہے۔ پہلے پرانے رسالوں کے بیوپار بھی ان کے پاس آتے رہتے تھے اور چار، پانچ روپے کے حساب سے پوری لاٹ کا سودا ہو جاتا تھا، لیکن اب خود کھوڑی گارڈن جا کر بیچ کر آنا پڑتا ہے۔

ذاتی زندگی میں نور احمد فارغ وقت گھر میں بچوں کے ساتھ گزارنا پسند کرتے ہیں، ٹی وی دیکھتے ہیں اور نہ ہی دوستوں میں زیادہ اُٹھنا بیٹھنا ہے۔ نواسے نواسیوں اور پوتے، پوتیوں کے ساتھ کھیلنا، انہیں گھمانا پھرانا اور ان کی خواہشات پوری کرنا بے حد مرغوب ہے۔ بچپن میں گلّی ڈنڈے کا بہت شوق تھا، صبح سے جو نکلتے تو مغرب تک بھی اس سے دل نہ بھرتا تھا۔ ابھی تیسری جماعت میں تھے کہ تقسیم کے ہنگامے ہو گئے لہٰذا تعلیم کا سلسلہ ادھورا رہ گیا، بس گزارے کے لائق لکھنے پڑھنے اور حساب کتاب ہی کو غنیمت جانا۔ ان کے نزدیک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بدامنی ہے۔ پہلے پتلون پہنتے تھے، اب شلوار قمیص پہننا پسند کرتے ہیں۔ کھانے میں گاجر اور چقندر کے علاوہ سب کھا لیتے ہیں۔ سیاست میں صرف مولانا ظفر انصاری کی شخصیت سے ہی متاثر ہوسکے، جنہوں نے ستر کی دہائی میں ان کے علاقے سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ ان کے بقول وہ ایک صاف گو آدمی تھے اور انہوں نے انتخابی مہم کے دوران واضح طور پر کہا کہ میں آپ کے علاقے کو لیز کرا سکتا ہوں اور نہ ہی پانی کا مسئلہ حل کر سکتا ہوں، لیکن میرا یہ وعدہ ہے کہ میں جیتا تو صرف پاکستان کے لیے کام کروں گا۔

جب نور احمد صاحب سے اتنے بڑے علاقے میں اپنی نوعیت کے اس واحد رہ جانے والے ''کتاب گھر'' کے مستقبل کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ''بس جب تک وہ ہیں، یہ نگر آباد ہے ان کے بعد یہ سلسلہ بھی جاری نہ رہ سکے گا! ''

کرایہ یا قیمت۔۔۔؟
لائبریری کی 47 سالہ تاریخ میں انہیں کتابیں واپس نہ کرنے کے مسائل سے بھی خوب واسطہ رہا۔ لگے بندھے گاہکوں کو فقط زبانی اعتبار پر رسائل و کتب دے دیتے ہیں، اس کے باوجود بہت سے لوگ اب بھی رسائل و کتب لے کر بھول جاتے ہیں اور کئی دنوں بعد لا کر دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ فلاں مسئلہ ہوگیا تھا جس کے باعث نہ آ سکے۔

ایسے میں اب کرائے کی یہ رقم رسالے یا کتاب کی قیمت سے بھی زیادہ بلکہ دگنی، تگنی ہوجاتی ہے جو ظاہر ہے دینے والوں پر گراں گزرتی ہے، اس لیے اکثر دیر سے آنے والے بہتر سمجھتے ہیں کہ کتاب یا رسالہ ''کھو دینے'' کا عذر کریں تاکہ صرف اس کی قیمت ہی دینا پڑے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ مجھ سے کرائے کی زبان کرکے گئے تھے اس حساب سے بتا دیجیے کہ کتنے پیسے بنے؟ تو کہتے ہیں کہ اتنے کا تو رسالہ بھی نہیں! لہٰذا مجبوراً خاموش ہو جاتا ہوں۔

ایک مرتبہ ایک ڈاکٹر کتابیں لے کر گیا اور کافی دنوں بعد آکر اس نے نہ صرف معذرت کی بلکہ کتابوں کا مکمل کرایہ بھی دیا کہ مجھے اچانک لندن جانا پڑ گیا تھا، اس لیے نہ آسکا۔ اس ہی طرح ایک خاتون نے بہت دنوں بعد کتاب واپس کی کہ میرے قریبی عزیز کا انتقال ہو گیا تھا، میں نے ان سے کرایہ نہیں مانگا، لیکن وہ خود ایک دن کا کرایہ دے گئیں کہ ایک دن تو میں نے پڑھا تھا۔

فلم دیکھنے جانے کا قصہ!
نور احمد صاحب بچپن میں اپنے فلم دیکھنے جانے کا قصہ سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دوست کی ایما پر ایک مرتبہ پروگرام بنا کہ آج سنیما گھر جا کر فلم دیکھتے ہیں۔ دوست سے پوچھا کہ کتنے پیسے خرچ ہوں گے۔ اس نے بتایا کہ چھے، چھے آنے کا ٹکٹ اور کھانے پینے کا کُل ملا کر دونوں کا ایک روپیہ خرچ ہو گا۔ پیسوں کا حساب کتاب لگانے کے بعد دونوں نے رخت سفر باندھا، ابھی اسٹاپ پر ہی کھڑے تھے کہ ان کے دل میں نہ جانے کیا آئی کہ ارادہ بدل گیا کہ خوامخواہ بیٹھ کر فلم دیکھنے میں وقت ضایع کرنا، ایک روپیے کا کچھ کھا پی لیں تو بہتر ہے۔ یوں زندگی میں پہلی اور آخری بار فلم دیکھنے جانے کا اتفاق نہ ہوسکا باوجود اس کے کہ دہلی شہر میں ان کے بہنوئی کا سینما بھی تھا۔

''زندگی میں کبھی کتاب نہیں پڑھی''
کتابوں کی دنیا میں چار دہائیوں سے زاید عرصہ گزارنے والے نور احمد سے جب ان کی پسندیدہ کتاب کی بابت سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا،''کوئی مانے یا نہ مانے میں نے طویل عرصے سے کتابوں کے کام کے باوجود آج تک کوئی کتاب نہیں پڑھی، جب کہ گھر میں بھائیوں کو مطالعے کا اتنا شوق تھا کہ بس میں جا رہے ہیں تو بغل میں کوئی کتاب دبی ہے اور گھر آ رہے ہیں تو کوئی کتاب ہاتھ میں ہے، گویا اس کے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا، لیکن میں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔''
Load Next Story