ملکی معیشت پر آئی ایم ایف کی تشویش

پاکستان کو پرچون، سروسز، پراپرٹی اور زراعت سمیت دیگرشعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا، آئی ایم ایف


Editorial January 19, 2013
پاکستان کو فراہم کیاجانیوالا قرضہ معاف کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ری شیڈول ہوسکتا ہے، آئی ایم ایف۔ فوٹو: رائٹرز/فائل

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے سیاسی جماعتوں اورصوبوں کے اتفاق رائے کے بغیر پاکستان کو نیا قرضہ فراہم کرنے سے انکارکر دیا ہے اور کہاہے کہ پاکستان کو اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کے تحت فراہم کیاجانیوالا قرضہ معاف کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ری شیڈول ہوسکتا ہے، پاکستان میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کرانے کے مخالف ہیں، رواں مالی سال کے لیے مقررکردہ ٹیکس وصولیوں کاہدف حاصل نہیں ہو سکے گا۔ پاکستان کو پرچون، سروسز، پراپرٹی اور زراعت سمیت دیگرشعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا ۔

پاکستان کے دورے پر آئے آئی ایم ایف جائزہ مشن کے سربراہ جیفری فرینکس نے جمعہ کو یہاں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ آئی ایم ایف بورڈ نے طے کیا ہے کہ سیاسی جماعتوں اورصوبوں کی مشاورت کے بغیر پاکستان کو نیا قرضہ نہیں دیا جائے گا اگر عبوری حکومت بھی سیاسی جماعتوں اور صوبوں سے اتفاق رائے کروا کر کہتی ہے تو بھی نیا قرضہ جاری کردیا جائے گا کیونکہ الیکشن میںکامیاب ہوکر انھی بڑی سیاسی جماعتوں کے منتخب لوگوں نے پارلیمنٹ میں آنا ہے ۔ حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ فرد جرم جیسے انکشافات عالمی مالیاتی ادارے کا در اصل ملکی معیشت کو درپیش مختلف النوع مسائل اور خاص طور پر بجلی بحران کی شدت اور اس سے برآمد ہونے والے اندوہ ناک نتائج کی چغلی کھاتے ہیں۔

ملکی معیشت کو درپیش چیلنجوں کا جائزہ لینے کے لیے تو ضخیم کتاب ضبط تحریر میں لانے کی ضرورت ہوگی تاہم بجلی بحران ہی وہ ٹارگٹ ہے جس میں حکومت کو اقدامات اٹھانے کے لیے وژن ، مالیاتی حکمت عملی، پاور ڈسٹری بیوشن ، جنریشن اورلائن لاسز کی روک تھام سے متعلق حقائق پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنا چاہیے۔ ادھر مالیاتی فنڈ کا کہنا ہے کہ ایکسٹنڈڈ فنڈ فسیلیٹی پروگرام کے تحت نیا قرضہ تین شرائط کے تحت دیاجائے گا جس میں پہلی شرط پاکستان کو پروگرام لینے کے بعدتین سے چار سال میں مالیاتی خسارہ تین سے ساڑھے تین فیصد تک لانا ہوگا، دوسری شرط مانیٹری پالیسی بہتر بنانا ہوگی اور مانیٹری اصلاحات متعارف کروانا ہوںگی جب کہ تیسری شرط کے تحت توانائی کے شعبے میں اصلاحات متعارف کرانا ہوںگی۔

بادی النظر میں آئی ایم ایف کا یہ اصرار کہ پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں کی صورتحال بہت خراب ہے اس وقت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر16 ارب ڈالر ہونا چاہیے تھے اور میکرو اکنامک کے استحکام کے لیے صوبوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ٹیکس سسٹم بہتر بنانا ہوگا اورٹیکس نظام میں پائی جانیوالی خامیاں دور کرنا ہوںگی ۔ بلاشبہ اقتصادی صورتحال توانائی بحران سے جڑی ہوئی ہے ۔آئی ایم ایف کے مطابق خسارہ 1624ارب روپے ہوگیا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر9 ارب کے رہ گئے ہیں جو تشویش ناک ہے ۔ جیفری فرینکس نے کہا کہ صرف بجلی کی قیمتیں بڑھانے کی بجائے بجلی کی پیداواری لاگت میں بھی کمی لانے کی ضرورت ہے ۔ان کاکہنا ہے کہ بجلی چوری نے پاکستانی معیشت کو تباہ کردیا ہے ۔

پاکستان اگر آئی ایم ایف کا نیا پروگرام نہیں لیتا تو معاشی حکمت عملی یکسر تبدیل کرنا ہوگی، توانائی کے شعبے میں بھاری سبسڈی سے معیشت متاثر ہورہی ہے ۔ آئی ایم ایف حکام کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ سے رابطے میں ہیں ، اگر اقوام متحدہ سے کلیئرنس نہ ملی تو آئی ایم ایف کا جائزہ مشن 22 جنوری تک پاکستان میں قیام کرنے کے بجائے آئندہ ایک دو روز میں واپس چلا جائے گا۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو اقتصادی محکومی کا جواز نہ بنایا جائے اور ہنگامی بنیادوں پر توانائی بحران کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں