دلّی کی چند عجیب ہستیاں
آن کے آگے جان قربان کرنے والے چوروں، جواریوں، ڈاکوؤں کے دستور بھی نرالے تھے۔
جناب انتظار حسین نے اپنے ایک کالم میں جب دلّی کے حوالے سے مرزا فرحت اللہ بیگ، ڈپٹی نذیر احمد، ناصر نذیر فراق، خواجہ حسن نظامی، منشی فیض الدین، اشرف صبوحی اور شاہد احمد دہلوی کا ذکر کیا تو بہت کچھ یاد آگیا، شاہد احمد دہلوی کی 'دلّی کی بپتا ، گنجینۂ گوہر، بزم خوش نفساں، اجڑا دیار'' یاد آگئیں جن کا ذکر میں بہت پہلے کالموں میں کرچکی ہوں۔ شاہد صاحب اور خواجہ حسن نظامی نے 1857 اور تقسیم کے وقت کی دلّی کا نقشہ کھینچا ہے۔
اسے پڑھ کر کوئی بھی صاحب دل اپنے آنسو روک نہیں سکتا، کیونکہ دلّی کا المیہ صرف ہزاروں انسانوں کی موت اور خانماں بربادی کا نوحہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجڑتی تہذیب کا نوحہ ہے، مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کا نوحہ ہے۔ خواجہ حسن نظامی کی ''بیگمات کے آنسو اور غدر دہلی کے افسانے'' شہزادوں، شہزادیوں اور بیگمات کی وہ بپتا ہیں جب انھیں بازاروں میں گھسیٹا گیا، برسوں پرانے نمک خواروں نے بے وفائی کی اور جن مہ لقاؤں کی جھلک کبھی کسی نے نہ دیکھی تھی انھیں کم ذاتوں کے ہاتھوں بیچ دیا گیا۔ میرؔ ہوں کہ غالبؔ، خواجہ میر دردؔ ہوں یا کوئی اور دلّی والا، سب کچھ بھسم ہونے کے بعد بھی دلّی ان کے اندر زندہ رہتی ہے۔
جس وقت میں انتظار صاحب کا کالم پڑھ رہی تھی اسی وقت اتفاق سے میرے پاس اشرف صبوحی کی ''دلّی کی چند عجیب ہستیاں'' پڑی تھیں جو میں نے ایک دن قبل ہی خریدی تھی، یہ کتاب کبھی بچپن میں پڑھی تھی جو انڈیا سے شایع ہوئی تھی۔ 2012 میں اسے پہلے بار انجمن ترقی اردو پاکستان نے بڑے سلیقے سے شایع کیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی بالکل منفرد کتاب ہے اور بے حد دلچسپ بھی۔ عام طور پر لوگ بڑے بڑے نام ور اور مشہور لوگوں کے خاکے لکھتے ہیں۔
لیکن اشرف صبوحی نے دلّی کے ان لوگوں کو اپنا موضوع بنایا ہے جو اپنے فن میں تو نامی گرامی ہیں، لیکن سماج کے طے کردہ اصولوں کے سنگھاسن پر وہ بیٹھنے کے قابل نہیں۔ ان میں داستان گو بھی ہیں، رکاب دار بھی، بھٹیارے اور نان بائی بھی۔ پڑھتے جائیے اور لطف اٹھاتے جائیے، زبان کا چٹخارا، محاورے کا برمحل استعمال،جملے کی کاٹ، سادگی، سلاست، ذخیرہ الفاظ کی وسعت، کیا نہیں ہے اس میں۔ سچ تو یہ ہے کہ زبان سیکھنی ہو تو اشرف صبوحی کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
''مٹھو بھٹیارا'' کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ''پچھلے وقتوں میں ہر آدمی اپنی کھال میں رہتا تھا، جس رنگ میں ہوتا وہی دکھاتا،جس قوم کا ہوتا وہی بتاتا، یہ نہیں کہ پیٹ سے زیادہ ملا اور اپھر گئے، ہیں اوباش اور صورت ایسی اختیار کی کہ لوگ صوفی کہیں۔ تھے مردھوں میں اللہ نے کام چلادیا۔ اب مرزا مغل کی اولاد ہونے میں کیا شک رہا۔ اللہ نے جیسا بنادیا، جس پیشے میں رزق اتارا، جو صورت بنادی۔ اپنی شخصیت کی جھوٹی نمائش انسان کیوں کرے۔ جہاں ہوکیا وہاں شرافت نہیں دکھاسکتے؟ حلال خور، چمار، کنجڑے، قصاب سب اپنے اپنے درجے میں شریف ہوتے ہیں، اچھے کام کرو، دین داری بھل منسائی کے ساتھ دوسروں سے پیش آؤ، حرام خوری پر کمر نہ باندھو۔ یہی شرافت ہے۔ ''جنم کا اولیاء کرم کا بھوت، پہلے کپوت دوجے اچھوت''۔ اونچے خاندان میں سبھی تو فرشتے نہیں ہوتے''۔ (کپوت کہتے ہیں نالائق بیٹے کو)۔
اب ذرا ''گھمی کبابی'' کا ذکر سنیے ''گھمی کبابی کو کون نہیں جانتا، سارا شہر جانتا ہے، جب تک یہ زندہ رہا کبابیوں کی دنیا میں اس سے زیادہ دلچسپ کوئی کبابی نہ تھا، جامع مسجد کی سیڑھیوں سے لے کر آدھر دلّی دروازے تک اور ادھر حبش خاں کے پھاٹک تک اس کے کباب چٹخارے لے لے کر کھائے جاتے تھے، چھوٹے بڑے امیر غریب سب ہی پر میاں گھمی کے کبابوں نے سکّہ بٹھارکھا تھا، میاں گھمی کی صورت بھی ایسی گول مٹول تھی کہ گولے کا کباب معلوم ہوتے تھے، باتیں ایسی صاف ستھری زبان میں آواز کو جھولا دے کر کیا کرتے تھے کہ قلعے کی بولیوں ٹھولیوں کا لطف آجاتا تھا، اب تو وہ اردو ہی سننے میں نہیں آتی۔ بولنے والے نہ رہے تو سمجھنے والے کہاں سے آئیں؟
گھمی کبابی کا ذکر ایسی شستہ اور نستعلیق زبان میں پڑھ کر ہمیں دلّی کی جامع مسجد اور اس کے سامنے کے کبابی یاد آگئے۔ وہاں بھی ایک لڑکا یہی کوئی سترہ اٹھارہ سال کا سیخ کباب بناتا ہے۔ بکرے کے گوشت کے الگ اور بڑے کے الگ۔ دونوں کباب بے حد لذیذ، پیٹ بھر جاتا ہے، لیکن نیت نہیں بھرتی۔ ہم سوچ رہے تھے کہ جب اس نوعمر لڑکے کے ہاتھ میں اتنی لذت ہے تو بھلا گھمی کبابی کیا کمال کرتا ہوگا۔ اب تو دلّی کے ہوٹلوں اور دکانوں میں اکثریت بہاری لڑکوں کی ہے، جو روزگار کے لیے راجدھانی آگئے ہیں۔
لالو پرشاد یادو نے اپنے دور حکومت میں کہا تھا کہ ''میں دلّی کو بہار بنادوں گا'' سو وہ انھوں نے کر دکھایا۔ جو دلّی ہم نے دیکھی وہ اس دلّی کا پاسنگ بھی نہیں جس کا ذکر اشرف صبوحی، شاہد احمد دہلوی، ملا واحدی اور میر ناصر علی کی تحریروں میں ملتا ہے اور جس کے رنگین اور خونچکاں تذکرے ہم نے ہوش سنبھالتے سنے، لیکن اب بھی مٹیا محل کے بھٹیاروں اور کبابیوں کے کھانوں کی لذت اور خوشبو سے سارا محلہ مہکتا ہے۔
لیجیے اب ذرا ذکر ہوجائے ''مرزا چپاچی'' کا۔ ''خدا بخشے مرزا چپاتی کو، نام لیتے ہی صورت آنکھوں کے سامنے آگئی، گورا رنگ، بڑی بڑی ابلی ہوئی آنکھیں، لمبا قد،چوڑا شفاف ماتھا، تیموری ڈاڑھی، چنگیزی ناک، مغلی ہاڑ، لڑکپن تو قلعے کے درودیوار نے دیکھا ہوگا، جوانی دیکھنے والے بھی ٹھنڈا سانس لینے کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے، لٹے ہوئے عیش کی ایک تصویر تھے،کہتے ہیں دلّی کے آخری تاج دار ظفر کے بھانجے تھے، ضرور ہونگے، پوتڑوں کی شاہ زادگی دم توڑ رہی تھی، لیکن فراج میں وہی رنگیلاپن تھا، جلی ہوئی رسی کے سارے بل گن لو، جب تک جیئے پرانی وضع کو لیے ہوئے چلے،مرتے مرتے نہ کبوتر بازی چھوٹی نہ پتنگ بازی۔ خدا جانے غدر میں یہ کیونکر بچ گئے اور جیل کے سامنے والے خونی دروازے نے ان کے سر کی بھینٹ کیوں نہ قبول کی۔''
اور یہ رہیں ''سیدانی بی بی'' جو مغلانی تھیں اور پرستان تک کی سیر کر آئی تھیں کہ ان کے کام کی دھاک اور شہرت ایسی تھی جو پرستان کے بادشاہ تک جاپہنچی تھی اور اس نے انھیں اپنی بیٹی کے جوڑے ٹانکنے کو بلوایا تھا۔ ''سیدانی بی بی کا ایک وقت میں بڑا دور دورہ تھا، قلعے کی اچھی اچھی مغلانیاں ان کے سامنے کان پکڑتی تھیں، محلات میں جہاں کہیں کوئی نیا جوڑا سلا، کسی نئی وضع کی ٹکائی کا ذکر ہوا اور یہ بلائی گئیں۔ شہر کی بیگمات میں بھی ان کے ہنر کی دھاک تھی، سب انھیں آنکھوں پر بٹھاتے تھے، آج یا کلی چلی آرہی ہے کہ بڑی سرکار نے بلایا ہے۔
کل ڈولی کھڑی ہے کہ نواب سلطان جہاں بیگم نے یاد کیا ہے، سنا ہے نہایت شریف گھرانے کی بیٹی تھیں۔ مرہٹہ گردی میں ان کا خاندان تباہ ہوگیا۔ برس دن بیاہی بیوہ ہوگئیں۔ اس زمانے میں دوسری شادی کرنا بڑا عیب سمجھا جاتا تھا۔ مغلانی کا پیشہ اختیار کیا اور اپنی ہنرمندی کی بدولت رنڈاپا گزار دیا۔ جوانی تو عزت آبرو سے کٹ گئی، خوب کمایا ہزاروں انعام میں لیے، مگر رکھنا نہ جانا۔ دل کی حاتم اور طبیعت کی نرم تھیں، ادھر آیا ادھر لٹادیا۔ اپنا انجام کبھی نہ سوچا۔ ہنرمندوں اور پرانے شریفوں میں ایک یہی عیب ہوتا ہے کہ وہ وقت کی قدر نہیں کرتے۔ خدا کی بے نیازی کو بھول جاتے ہیں۔ بنے ہوئے زمانے میں بگڑنے کا خیال بھی نہیں آتا۔ جانتے ہیں کہ سدا یہی لہر بہر رہے گی۔ سیدانی بھی جوانی بھر اسی غلط فہمی کا شکار رہیں۔''
آخر میں ''پیر جی کوّے'' سے بھی ملاقات کرلیجیے۔ ''پیر جی کّوے جو آج بگلا بھگت بنے ہوئے نبی کریم کے قبرستان میں پڑے ہیں کبھی بڑے حضرت تھے، بدمعاشی کا کوئی فن ایسا نہ تھا جس میں یہ استاد نہ ہوں۔ لیکن آج کل جیسے یار مار بے مروت اور غریبوں کو ستانے والے نہیں اصلی معنوں میں شریف ڈاکو۔ ان کی ساری زندگی ٹٹول ڈالیے۔ کسی دن جو کسی کم زور پر طاقت آزمائی ہو۔ جہاں رہے سارے محلے کی حفاظت کی۔ بے کسوں کے والی وارث رہے۔ پیٹ بھروں کو لوٹا اور بھوکوں کو بھرا۔ جس نے چچا کہا وہ ہمیشہ کے لیے بھتیجا ہوگیا، جسے انھوں نے بھانجا بنالیا عمر بھر کے لیے وہ بھانجا ہوگیا۔ بیسیوں بگڑے گھر بنا دیئے۔ مجال تھی کہ ان کے جان پہچان والوں کا کوئی لڑکا بدچلن یا آوارہ ہوجائے۔ بات یہ تھی کہ جس زمانے میں انھوں نے ہوش سنبھالا معیار شرافت کچھ اور تھا۔ اس دور کے ہر شخص میں ایک وضع داری تھی، جسے دیکھو عہد کا پکا قول کا دھنی۔ آن کے آگے جان قربان کرنے والے چوروں، جواریوں، ڈاکوؤں کے دستور بھی نرالے تھے۔''