بلوچستان توجہ چاہتا ہے
کوئٹہ میں پائیدار بنیادوں پر قیام امن کے لیے اقدامات مزید وقت ضایع کیے بغیر عمل میں لائے جانے چاہئیں
لاہور:
ملک میں المناک سانحات کا رونما ہونا معمول بنتا جا رہا ہے، کوئی دن نہیں جاتا جب ملک کے کسی نہ کسی حصے میں کوئی المیہ رونما نہ ہوتا ہو جس میں کتنے ہی انسان اپنی قیمتی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ آج ملک کا کوئی حصہ دہشت گردوں اور شدت پسندوں کی کارروائیوں سے محفوظ نہیں ہے۔ دہشت گرد جہاں چاہتے ہیں جس وقت چاہتے ہیں دھماکا کردیتے ہیں۔ حکومت، حکومتی رٹ اور حکومتی اداروں کی کارکردگی بدقسمتی سے کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔
حکومت کو صرف اس بات کی فکر کھائے جارہی ہے کہ بس کسی طرح اپنے پانچ سال پورے کرکے تاریخ کے صفحات پر مدت پوری کرنے والی حکومت قرار پائے، چاہے یہ مدت کتنے ہی مظلوموں اور بے گناہ شہریوں کی لاشوں اور کتنے ہی گھرانوں کے اجڑنے سے پوری ہو۔ علمدار روڈ کوئٹہ میں ہونے والا واقعہ حکومت و حکومتی اداروں کی کارکردگی اور حکومت کی جانب سے عوام کی جان و مال کے تحفظ کے بلند و بانگ دعوئوں کے منہ پر دہشت گردوں کی طرف سے نئے سال کا ایسا دلخراش طمانچہ ہے جس نے انسانیت کو نہ صرف بری طرح سے دہلا دیا ہے بلکہ عوام کو اپنی جان ومال کے تحفظ کے لیے ازخود سوچنے پر مجبور بھی کردیا ہے۔ کوئٹہ میں ہونے والا افسوسناک سانحہ حکومت کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔
دلدوز صدمے سے دوچار غمزدہ مظاہرین کے احتجاج میں پورے ملک سے ہر طبقہ فکر کے افراد نے شرکت کرکے غمزدہ خاندانوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ جس کے نتیجے میں حکومتی مشینری بالآخر حرکت میں آئی اور صوبے کے وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کی حکومت کو برطرف کرکے گورنر راج نافذ کردیا گیا۔ بلوچستان ایک طویل عرصے سے حکومتی بے حسی کا شکار ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بلوچستان سے متعلق اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ بلوچستان کی اہم حکومتی شخصیات بھی بلوچستان میں چوری ڈکیتی کے واقعات کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان واقعات پر قابو پانے اور کامیاب حکمرانی کے تاثر کو تقویت دینے، حکومت پر عوام کا اعتماد بحال کرنے، ان میں جان و مال کے تحفظ کا احساس پیدا کرنے کے لیے حکمرانو ں نے سوائے ایف سی تعینات کرنے کے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جو حالات و واقعات کے حوالے سے نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا۔
انتہا یہ ہے کہ حکومت نے صوبے کی ترقی کے لیے جو حقوق بلوچستان پیکیج کا اعلان کیا تھا ایک مدت گزر گئی مگر اسے اس کی اصل روح کے مطابق پوری طرح روبہ عمل نہ لایا جاسکا۔ بلوچ عوام کی غربت و افلاس و بے روزگاری کے خاتمے کے لیے حکومت نے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا، نہ ہی دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں، اساتذہ، صنعتکاروں، تاجروں اور کاروباری افراد کو کوئی تحفظ فراہم کیا گیا۔ سارا صوبہ دہشت گردی، لاقانونیت، بے گناہ افراد کی بم دھماکوں میں ہلاکت اور بوری بند لاشوں کی آگ میں جل رہا ہے۔ بعض بیرونی عناصر کی مداخلت کے ثبوت بھی سامنے آچکے ہیں جو علیحدگی پسند عناصرکی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی انسانی حقوق کی پامالی کے نام پر مستقل اظہار تشویش کیا جا رہا ہے اور بلوچستان کے عوام اب صوبائی حکومت پر اعتماد کرنے پر کسی صورت آمادہ نہیں، لوگ اب صرف فوج کی تعیناتی چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے متعدد مرتبہ اپنے ریمارکس میں حکومت کی ناکامی، لاقانونیت اور بدامنی کے متعلق دو ٹوک انداز میں جو آبزرویشن دی جاچکی ہے وہ واقعی لمحہ فکریہ ہے۔ بلوچستان میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے، اب اگر حکومت نے عوامی مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے صوبے میں آئین پاکستان کی شق 234 کے تحت گورنر راج نافذ کربھی دیا ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آیندہ ایسے دل سوز واقعات نہیں ہوں گے۔ ابھی صوبے میں ایک غیر یقینی سی صورتحال ہے۔
لوگ تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ مظاہرین کے بار بار اصرار کے باوجود حکومت نے کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کرنے کے مطالبے پر کسی واضح احکام سے گریز کیا البتہ حکومت اپنا یہی موقف دہراتی رہی کہ ضرورت پڑنے پر گورنر فوج کی مدد لے سکتے ہیں۔ یعنی حکومت کے نزدیک ایک ہی روز میں سو سے زیادہ افراد کی ہلاکتوں کا افسوسناک واقعہ بھی تاحال حکومت کی رائے میں ضرورت جیسے لفظ کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا۔ اب تو برطرف وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی بھی منظر عام پر آگئے ہیں جو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنی باتوں سے خبروں کو گرما رہے ہیں۔ ان کے نزدیک امن و امان کی ذمے داری ان کی نہیں بلکہ پولیس اور ایف سی کی تھی، صرف یہی نہیں بلکہ ان کی حکومت کی برطرفی امن و امان کے بجائے ریکوڈک معاملے کے باعث ختم کی گئی ہے۔ اسلم رئیسانی اتنے طویل عرصے میں بھی صوبے کے حالات درست کرنے اور اسے سنگین بحران سے نکالنے کے لیے موثر اقدامات نہیں کرپائے۔
بلوچستان خصوصاً کوئٹہ میں پائیدار بنیادوں پر قیام امن کے لیے اقدامات مزید وقت ضایع کیے بغیر عمل میں لائے جانے چاہئیں اور اس عمل میں تمام فریقوں کو پورے اخلاص سے شریک ہونا چاہیے تاکہ آگ و خون کا یہ بھیانک کھیل بند ہو سکے۔ بلوچستان کے تمام مسائل کو سیاسی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔ 18 ویں آئینی ترمیم میں صوبوں کو جو یکساں حقوق دیے گئے ہیں، انھیں سامنے رکھتے ہوئے بلوچستان کے عوام کے تحفظات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے ہی مسئلے کا سیاسی اور پائیدار حل نکالا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کے رقبے، آبادی اور پسماندگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بلوچ عوام کا آئینی و قانونی حق بھی ہے کہ ان کے جانی و مالی تحفظ اور معاشی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
صوبے میں ایک طرف لوگوں کے لاپتہ ہونے اور بعد ازاں لاشیں ملنے کی شکایتیں ہیں تو دوسری طرف پنجاب اور ہزارہ کے لوگوں کے قتل اور بوری بند لاشوں جیسے واقعات بھی روز کا معمول بن گئے ہیں۔ اہم تنصیبات اڑائے جانے کے واقعات، غیر ملکی ماہرین کے اغوا سمیت دیگر متعدد حوالوں سے بھی قانون کی عملداری نہ ہونے کا تاثر نمایاں ہے۔ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، ڈاکٹرز، انجینئرز اور دوسرے ماہرین اپنے آبائی صوبوں کو واپس جا رہے ہیں جس کے باعث صوبے کی تعمیر و ترقی کی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ یہ ساری صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ لوگوں کو انصاف ملنے کا اعتماد دیا جائے۔