آدھی رات کے بعد
وٹو صاحب کہیں بھی فٹ ہوسکتے ہیں۔ ان کا نام الٹا پڑھیں یا سیدھا، ایک ہی رہتا ہے۔
مجھے کسی ضروری کام سے اپنے آبائی شہر جانا تھا۔ خیبر میل کراچی سے رات کے دس بجے چلتی تھی اور صبح ٹھیک سات بجے وہاں پہنچا دیتی تھی۔ جی ہاں، یہ صدیوں پہلے کا ذکر ہے، سونے کے لیے اچھی برتھ مل جائے تو پھر سفر کیا اور کیا سفر کی تکان۔ ٹرین چلے تو سوجاؤ، صبح اتر کے گھر کی راہ لو، مجھے چھ برتھوں والے ایک کمپارٹمنٹ میں اوپر والی ایک برتھ ملی۔ سونے سے پہلے میں نے دیکھا کہ چھ میں سے دو برتھیں خالی ہیں۔ ایک اپر اور ایک لوئر۔ اوپر والی ایک برتھ پر ایک خان صاحب موجود تھے جو اپنے بریف کیس پر سر رکھ کے فوراً ہی خراٹے لینے لگے۔ نیچے کی دو برتھوں پر ایک نوخیز نوبیاہتا جوڑا براجمان تھا اور مسلسل جاگ رہا تھا۔
میں ایک بار پہلے بھی بیان کرچکا ہوں کہ میں ہر رات اعلیٰ ادب سے استفادہ کیے بغیر کبھی نہیں سوتا۔ لہٰذا اسی عادت سے مجبور ہوکے، ٹرین چلنے کے بعد میں نے بستر کھولا تو اوپر کی لائٹ جلا کے کچھ دیر دو روپے میں خریدے ہوئے ریلوے ٹائم ٹیبل کا دلجمعی سے مطالعہ کیا اور پھر سوگیا۔ حیدر آباد آیا تو ''آنڈے گرم ، چئے ئے ئے گرم'' کی آوازوں اور چوڑیوں کی جھنکار نے جگا دیا۔ شدید سردی تھی اور چائے کی طلب محسوس ہورہی تھی۔ میں نے کمپارٹمنٹ کا دروازہ ہولے سے سلائیڈ کیا اور جیکٹ کے کالر کھڑے کرکے پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ آئیے آپ بھی کچھ دیر کے لیے نیچے اتر آئیے۔ ذرا آگے چل کے پھر سوار ہوں گے۔
موجودہ سیاست میں حافظ حسین احمد سے زیادہ حاضر جواب اور نکتہ رس کوئی نہیں۔ منظور وٹو کو پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر مقرر کیا گیا تو حافظ صاحب نے بیان دیا ''وٹو صاحب کہیں بھی فٹ ہوسکتے ہیں۔ ان کا نام الٹا پڑھیں یا سیدھا، ایک ہی رہتا ہے''۔ قادری صاحب کا مزاحیہ دھرنا تمام ہوا۔ اس پر حافظ صاحب کے استاد مولانا فضل الرحمن نے بھی شگفتہ بیانی فرمائی ہے۔ بولے کہ مولانا قادری مسلمانوں کے جے سالک ہیں۔ یہ نام اپنے اندر ایک جہان معنی رکھتا ہے۔ جوں جوں سوچتا ہوں، کمالات کا ایک پنڈورا باکس کھلتا جاتا ہے۔ گو نا گوں حرکتوں سے مالا مال طاہر القادری کی طرح جے سالک بھی ہماری سیاسی، سماجی اور مذہبی زندگی کا ایک دلچسپ کردار ہے۔وہ قومی اسمبلی کا اقلیتی ممبر بھی رہا ہے اور وفاقی وزیر بھی۔غالباً سن 2001 کی بات ہے۔ ماہ رمضان شروع ہوا تو جے سالک اسلام آباد میں نمودار ہوا۔ اس نے اس روز پاکستان کا قومی لباس پہنا ہوا تھا۔ سیاہ شیروانی اور سفید شلوار۔ اس نے ایک سرنج کے ذریعے اپنا خون نکالا اور اسے اس ملک کی مقدس مٹی میں ملادیا۔ پھر آٹھ فٹ بائی چھ فٹ کے ایک لوہے کے پنجرے میں داخل ہوکے خود کو قید کرلیا۔ یہ پنجرہ قادری صاحب کے کنٹینر جتنا وسیع اور سہولتوں سے مالا مال تو نہ تھا لیکن اس میں باتھ روم بھی تھا اور کھانے،پینے، سونے کی آسانی بھی تھی، سالک اس پنجرے میں ایک ماہ تک بند رہا اور یہ خودساختہ قید اس نے افغانستان پر امریکی بمباری کے خلاف بطور احتجاج کاٹی تھی۔
اس کے دو برس کے بعد اس نے عراقی جنگ میں شہریوں، خصوصاً بچوں کے قتل عام پر ایک انوکھا احتجاج کیا۔ اس نے ایک فاختہ نما صلیب پر خود کو مصلوب کرلیا۔ یہ ایک بہت بڑی صلیب تھی جو ہینو ٹرک پر رکھی ہوئی تھی۔ اس کے بیک ڈراپ کے طور پر لگے ہوئے کینوس پر ایک مسجد اور ایک گرجا گھر کی تصویر تھی جن کی طرف آگ کے شعلے بڑھ رہے تھے۔ جے سالک 24 گھنٹے تک اس صلیب پر لٹکا رہا اور اس ٹرک کو اسلام آباد کی تمام سڑکوں پر گھمایا گیا۔
میری یادداشت کے مطابق اس قسم کے احتجاج کی پہلی حرکت جے سالک نے اس وقت کی تھی جب اس کی بھرپور جوانی کا دور تھا، اس وقت اس نے بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام پر بطور احتجاج جوٹ کا لباس پہن لیا تھا جو غالباً اس نے دس بارہ برس تک پہنے رکھا۔
اسی طرح اس نے ایک یورپی ملک میں مسجد اور قرآن پاک کی بے ادبی کیے جانے پر اپنا چہرہ کالا کرکے بھی احتجاج کیا تھا اور میرا خیال ہے کہ اس کا آخری احتجاج کچھ عرصہ پہلے پادری ٹیری جونز کے خلاف تھا جب اس ملعون نے قرآن کو نذرآتش کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تب جے سالک نے اسلام آباد میں ایک مظاہرے کے دوران اپنے سر اور کپڑوں پر راکھ ڈال لی تھی۔
وہ عجب سر پھرا شخص ہے، مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود عموماً اس کے احتجاج کا مرکز مسلمانوں پر ظلم و ستم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار اسے امن کا نوبل پرائز ملنے کی امید بھی بندھ گئی تھی، اور دوسری طرف ہمارے دھرنا دھرنا کھیلنے والے قادری صاحب، ان کا دعویٰ ہے کہ ایک بار امن کا نوبل انعام ان کے لیے بالکل فائنل ہوچکا تھا کہ عین وقت پر یورپین یونین کو دے دیا گیا۔ آپ نے دیکھا۔۔۔۔رحمن ملک کی دسترس کتنی دور تک ہے۔
یہ ذکر ختم ہوا۔ خیبر میل چلنے والی ہے۔ آئیے واپس سوار ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے پلیٹ فارم پر گھومتے ہوئے میں نے دیکھا تھا کہ میرے برابر والی ایئرکنڈیشنڈ کوچ کے سامنے خاصی گہما گہمی تھی۔ جیسے کوئی اہم شخصیت حرکت میں ہو۔ میں اپنے ڈبے میں سوار ہوا تو دیکھا کہ کمپارٹمنٹ میں ایک ہجوم جمع ہے۔ بڑے بڑے بکس درمیان میں رکھے تھے۔ تین چار لوگوں کے ساتھ گارڈ اور ٹی ٹی بھی وہیں موجود تھے۔ نوخیز دولہا اور دلہن ذرا خوفزدہ سے اپنی اپنی برتھ پر بیٹھے تھے اور نئے آنے والوں میں زوردار بحث جاری تھی۔ مسئلہ میری سمجھ میں آیا تو میں بھی جلدی سے اپنی برتھ پر چڑھ گیا۔ معلوم ہوا کہ ایئرکنڈیشنڈ کوچ میں ایک وفاقی وزیر محترم اپنی فیملی کے ساتھ سوار ہوئے ہیں اور ان کے دو لیفٹ اوورز جن میں شاید ایک گارڈ بھی تھا، انھیں ہمارے ساتھ سلیپر میں ایڈجسٹ کیا جارہا تھا۔ ایسے میں ایک بزرگوار جن کی سیٹ پہلے سے بک تھی، انھیں کہا جارہا تھا کہ آپ کی کوئی بکنگ نہیں ہے۔ اس پر انھوں نے ایک ہنگامہ برپا کررکھا تھا۔
وہ اپنی طرح طرح کی بیماریاں بیان فرما رہے تھے اور وزیر محترم کی شان میں ایسے الفاظ ادا کر رہے تھے جو میں نے آج تک کسی لغت میں نہیں دیکھے۔ ان کی بقیہ تقریر میں اس بات پر بڑے پرمثال دلائل دیئے جا رہے تھے کہ دولت اور اقتدار پاتے ہی پیدل پھرنے والوں کو تکبر کے پر لگ جاتے ہیں اور انھوں نے زندگی میں لاتعداد ٹٹ پونجیوں کو مچھر کالونی سے اٹھ کے ڈیفنس سوسائٹی جاتے دیکھا ہے۔
جب صورت حال انتہائی گمبھیر ہوگئی اور اوپر والی برتھ پر بریف کیس پر خراٹے لینے والے خان صاحب بھی جاگ گئے تو حالات نے بڑے ڈرامائی طور پر یکدم ایک انتہائی خوشگوار ٹرن لے لیا۔ مسئلہ حل ہوگیا، گارڈ اور ٹی ٹی کی جان چھوٹی اور وہ مسکراتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔ ہوا یوں کہ جب متاثرہ بزرگوار ایک انتہائی دلدوز چیخ مارتے ہوئے ٹی ٹی کی وردی پھاڑنے کے لیے زور لگا رہے تھے تو اچانک نوجوان دولہا نے نوجوان دلہن کی طرف دیکھا، دونوں میں معنی خیز مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا اور پھر انھوں نے اپنی ایک برتھ بزرگوار کے لیے خالی کردی۔