اِترانا

خدا ہی کی مخلوق کی تذلیل پر اترانے سے خدا کا قرب کیونکر حاصل کیا جا سکتا ہے۔

moosaafendi@gmail.com

یہ ایک عجیب وغریب بات ہے کہ مجھے کوئی بھی کام ڈھنگ سے کرنا نہیں آتا۔ نہ میں کسی ڈھنگ اور سلیقے سے گفتگو کرتا ہوں، نا بحث ، نااختلاف، نا افسوس، نا اظہارہمدردی، نا اظہار مسرت اور نا ہی غم و غصے کا اظہار کسی ڈھنگ اور سلیقے سے کرسکتا ہوں۔ میں ذلت کی طرح عزت کو بھی یک طرفہ کارروائی سمجھتا ہوں۔ یعنی میں اوروں کو ذلیل کرتا پھروں اور دوسرے سب اس کے باوجود میری عزت ہی کریں۔ میں یہ بات بھول جاتا ہوں کہ عزت یک طرفہ نہیں ہوا کرتی۔ یہ بھی اکیلے آدمی کا کام نہیں ہے مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ اپنی عزت کرانے کے لیے لازم ہے کہ میں پہلے دوسروں کی عزت کروں۔ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ میں دوسروں کو تو بے عزت ذلیل اور رسوا کرتا پھروں اور اپنی عزت کروانے پر مصُر رہوں۔ مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک مضحکہ خیز بات ہوگی جو ہر گز کسی بھی سطح اور مقام پر قابل قبول نہیں ہوسکتی۔

اس بیان کردہ تمہید کی روشنی میں اگر میں غور کروں تو مجھے معلوم ہوجائے گا کہ اِترانا کسے کہتے ہیں ، میں اس لفظ کے لغوی معنی کے بارے میں بحث کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا میں صرف یہ جانتا ہوں کہ اترانا کوئی بہت زیادہ قابل قبول بات نہیں ہے سب سے پہلے تو مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ اِترانے میں اور تکبر میں بہت زیادہ فرق ہے۔ اسی طرح اترانے میں اور فخر کرنے میں بھی بہت زیادہ فرق ہے تکبر سنتِ ابلیس ہے اس لیے نہ خدا کے گھر میں قابل قبول ہوسکتا ہے اور نا ہی کسی مسلمان کے گھر میں، تکبر اﷲ کو واحد اور لاشریک ماننے کے باوجود راندہ درگاہ ِ رب العزت بنا دیتا ہے۔ تکبر کو کسی بھی مذہب اور نظریئے نے جائز قرار نہیں دیا۔فخر کرنا البتہ ایک دوسری بات ہے اور فخر کرنے اور اترانے میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا لیکن دونوں ایک دوسرے سے لغوی اور عملی دونوں لحاظ سے مختلف کیفیتیں ہیں مثلاً ایک شہید کے ماں باپ اپنی عزیر ترین متاع سے بچھڑنے کے باوجود اس کے عظیم رتبۂ شہادت پانے پر جب فخر کرتے ہیں تو ان کا یہ فخر کرنا اس فخر سے قطعی مختلف ہوتا ہے جو کوئی بدمعاش مسلسل کامیابیو ں کے ساتھ پکڑائی نہ دینے پر کرتا ہے۔ اس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ فخر کا تعلق آدمی کے اپنے ظرف پر منحصر ہے کہ وہ کس بات پر فخر کرتا ہے۔

اترانا ان دونوں باتوں سے مختلف ہوتا ہے آدمی جب بھی اتراتا ہے غلط کام کرتا ہے اس میں شک نہیں کہ اچھی اور بری بات دونوں پر اترایا جاسکتا ہے لیکن میرے نزدیک دونوں صورتوں میں اترانا قابل مذمت ہو گا ۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں جو میری بات کو واضح کردے گا۔ میں ایک ملک میں جب پاکستان کے سفارتخانے میں تعینات تھا تو میرے ساتھ ایک نسبتاً کم عمر کا ایک افسر اکثر بات بات پر اترایا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ چھٹیاں گزارنے اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ جنکی عمریں پانچ اور چار سال تھیں اپنے ملک پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں اپنے والدین اور سسرال کے پاس گیا جیسا کہ عام مشاہدہ ہے ہمارے سفارت خانوں میں تعینات افسران پاکستان کے نمایندہ ہونے کی وجہ سے میزبان ملک کے اندر بھی خاصی مر اعات کے مستحق ہوتے ہیں اس لیے ان کا کروفر دیکھنے والا ہوتا ہے۔


جو اکثر صورتوں میں ہضم نہیں ہوتا۔ جب وہ افسر صاحب چھٹیاں گزار کر واپس آئے تو جگہ جگہ بتاتے پھرتے تھے کہ ان کے پانچ سالہ صاحب زادے نے پاکستان میں اپنے دادا جان کو کئی موقعوں پر عزیز و اقارب کے سامنے بار بار یاد دلایا کہ اس کا باپ اس کے دادا کی نسبت زیادہ جاہ وجلال سے رہتا ہے، وہ بڑے فخر سے بتاتا تھا کہ اس کا بیٹا کس طرح بار بار اپنے دادا کو اس کی کم مائیگی کا احساس دلاتا رہا۔ ان افسر صاحب کو بالکل بھی خیال نہ آیا کہ وہ اپنے معصوم بیٹے سے اپنے باپ کی بے عزتی کرانے پر اترا رہا ہے اور اس کے گمان تک میں یہ بات نہیں آرہی کہ کچھ سالوں کے بعد ایکشن ری پلے بھی ہوسکتا ہے۔اترانا تو اچھے کاموں پر بھی جائز نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ لوگوںکی تذلیل پر اترایا جائے۔

ان باتوں کے باوجود ہم نمازیں بھی پڑھتے رہتے ہیں روزے بھی رکھتے ہیں اور اپنے تئیں خدا کے قرب میں بھی رہتے ہیں لیکن مجھے معلوم نہیں کہ خدا ہی کی مخلوق کی تذلیل پر اترانے سے خدا کا قرب کیونکر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مجھے تو اور بہت ساری چیزوں کا پتہ نہیں چل سکا۔ اترانے کا بھلا کیسے پتہ چلے گا۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ چل سکا کہ ہم لوگوں نے اترانے کے لیے ایک ایسا وطیرہ کیوں اپنا لیا ہے جس کا تعلق انگریزی زبان میں آپس میں گفتگو کرنے سے ہے ۔ ہم اُردو نہیں بولتے نہ سہی لیکن پنجابی پشتو ، بلوچی اور سندھی ہوتے ہوئے آپس میں انگریزی کیوں بولتے ہیں غالباً صرف اور صرف اپنے ہی جیسے لوگوں پر اترانے کے لیے، چاہے وہ ہمارے بزرگ ہی کیوں نہ ہوں لیکن ہمیں بزرگوں سے کیا؟ آیندہ کچھ عرصہ تک بزرگوں کے لیے علیحدہ ہوسٹلوں کا بندوبست ہوجائے گا ۔

کیونکہ ہمیں بزرگوں کی جائیدادوں سے مطلب ہے ان کے بڑھاپے سے نہیں۔ ہمارا بے جا اترانا ہمیں تباہی اور بربادی کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف لے جا رہا ہے اس گمبھیر منزل کی طرف گامزنی نے ہمیں اندھا کر چھوڑا ہے ہمیں اگر زندہ رہنا ہے تو ظلمات سے نکل کر نور کی طرف چلنا ہوگا۔ ہم اترا اترا کر ابلیس کی پیروی کرنے کی بجائے اس ذات ذوالجلال کے بتلائے ہوئے راستے پر کیوں نہ چلیں جو ہمیں تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں کی طرف لے جانا چاہتاہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم بات بات پر اترانا چھوڑیں۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین
Load Next Story