ہیپاٹائٹس مریضوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئ
ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہیپاٹائیٹس سی کے لیے ابھی تک ویکسین ایجاد نہیں کی جا سکی۔
KARACHI:
اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہو گیا ہے جب کہ اس گمبھیر صورت حال کا بہت کم لوگوں کو احساس ہے اور دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد 325 ملین (32 کروڑ پچاس لاکھ) تک پہنچ گئی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بیماری سے صحت عامہ کے لیے زبردست خطرہ پیدا ہو گیا ہے لہٰذا اس بیماری کے علاج پر فوری توجہ دی جانی چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق 2015ء میں ہیپاٹائٹس سے 1.34 ملین افراد کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان مہلک بیماریوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 2000ء کی نسبت 32 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق تباہ کن سیلابوں کے نتیجے میں ہیپاٹائٹس کے اس قدر پھیلاؤ میں مدد ملی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سادہ ہیپاٹائٹپس کی علامات نظر نہیں آتیں مگر جب یہ بی اور سی کی شکل اختیار کرتا ہے تو ہلاکت خیز بن جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں انسان کا جگر متاثر ہوتا ہے جو آگے چل کر کینسر میں بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہیپاٹائیٹس سی کے لیے ابھی تک ویکسین ایجاد نہیں کی جا سکی۔ یہ بیماری غیر محفوظ انجکشن سے پھیلتی ہے جس کا شکار زیادہ تر منشیات کے عادی بنتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کا ہمارے ارباب اختیار کو بھی مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان میں بھی ہیپاٹائٹس بہت زیادہ پھیل رہا ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور پاکستان میں بیماریوں کی روک تھام کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہو گیا ہے جب کہ اس گمبھیر صورت حال کا بہت کم لوگوں کو احساس ہے اور دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد 325 ملین (32 کروڑ پچاس لاکھ) تک پہنچ گئی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بیماری سے صحت عامہ کے لیے زبردست خطرہ پیدا ہو گیا ہے لہٰذا اس بیماری کے علاج پر فوری توجہ دی جانی چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق 2015ء میں ہیپاٹائٹس سے 1.34 ملین افراد کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان مہلک بیماریوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 2000ء کی نسبت 32 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق تباہ کن سیلابوں کے نتیجے میں ہیپاٹائٹس کے اس قدر پھیلاؤ میں مدد ملی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سادہ ہیپاٹائٹپس کی علامات نظر نہیں آتیں مگر جب یہ بی اور سی کی شکل اختیار کرتا ہے تو ہلاکت خیز بن جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں انسان کا جگر متاثر ہوتا ہے جو آگے چل کر کینسر میں بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہیپاٹائیٹس سی کے لیے ابھی تک ویکسین ایجاد نہیں کی جا سکی۔ یہ بیماری غیر محفوظ انجکشن سے پھیلتی ہے جس کا شکار زیادہ تر منشیات کے عادی بنتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کا ہمارے ارباب اختیار کو بھی مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان میں بھی ہیپاٹائٹس بہت زیادہ پھیل رہا ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور پاکستان میں بیماریوں کی روک تھام کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔