ریاست ماں نہ بن سکی
آج ملک میں عوام حکومت کے بجائے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ہی مداخلت اور کارروائی کی اپیل کرتے ہیں۔
عوامی لانگ مارچ کے نتیجے میں بحال ہونے والی ملک کی اعلیٰ اور آزاد عدلیہ سے عوام نے یہ سمجھ کر توقعات وابستہ کرلی تھیں کہ آزاد عدلیہ سے ملک و قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔ ججوں کی بحالی کی تحریک کے سرکردہ رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے تحریک کے دوران جگہ جگہ اپنی نظم سنا کر عوام کو یہ مژدہ سنایا تھا کہ آزاد عدلیہ میں ریاست ہوگی ماں کے جیسی اور پھر عدلیہ بحال ہوگئی اور عدلیہ نے اپنا کردار تو بخوبی ادا کیا، مگر حکومت اور ریاست ماں نہ بن سکیں۔ ریاست کا ہر ستون ہلا دیا گیا اور حکومت نے اپنے عوام سے سوتیلی ماں کا سا بھی نہیں بلکہ دشمنوں جیسا سلوک کیا۔
ریاست دنیا بھر میں کرپشن کے سلسلے میں بدنام ہوچکی ہے۔ ریاست کے نام پر حکومت نے قرضے لے لے کر آنیوالی نسلوں پر قرض مزید بڑھادیا، معیشت تباہ کردی، مہنگائی نے آمر دور کا بھی ریکارڈ توڑ دیا، ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ نے وفاق اور تین صوبوں میں عوام پر عذاب اور بوجھ بن کر ان کا جینا دوبھر کرکے رکھ دیا۔ مہنگائی اور غربت کے باعث خودکشیوں کا ریکارڈ بھی جمہوریت کے دعویداروں کے دور میں قائم ہوا اور عوام کو جمہوریت کے لیے ووٹ دینے کی وہ سزا دی گئی کہ عوام کی اکثریت اس بدترین جمہوریت پر جنرل پرویز مشرف کی آمریت کو ترجیح دینے پر مجبور ہے۔
دنیا بھر میں ریاست چلانا وہاں کی حکومت کی ذمے داری قرار دی جاتی ہے اور حکومت کی کرپشن، مظالم، اقربا پروری اور غیر قانونی اقدامات و آئین کی خلاف ورزی جیسے سنگین جرائم جب عدالتوں میں چیلنج ہوتے ہیں تو عدلیہ کو ریاست کے آئین کے مطابق فیصلے دینے ہوتے ہیں۔حکمران آزاد عدلیہ کی بحالی کے حق میں نہیں تھے کیونکہ انھیں آزاد عدلیہ اپنی راہ میں رکاوٹ نظر آرہی تھی جس کی بحالی کا انھوں نے تحریری معاہدہ بھی کیا تھا مگر معاہدے پر عمل نہیں کیا گیا، مگر لانگ مارچ میں فوجی مداخلت کے باعث انھیں مجبوری میں ججوں کو بحال کرنا پڑا اور عوام نے آزاد عدلیہ سے ایسی توقعات وابستہ کرلیں جو ایک حقیقی عوامی حکومت سے کی جاتی ہیں۔عدلیہ کا کام انصاف فراہم کرنا اور حکومت کا کام انتظامی امور کو چلانا ہے۔عدالت تو لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہے مگر حکومت اپنے حقیقی کردار سے روگردانی کر رہی ہے۔
حکومت نے کرپشن، اپنوں کو نوازنے، اپنی راہ میں رکاوٹ بننے والے افسروں کو کھڈے لائن لگانے، قانون کے برعکس میرٹ کو پامال کرکے من پسند افسروں کو ترقی دے کر ملک کو لوٹنے کا سنہری موقع فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حکومت نے من مانیوں کا ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا جو شاید بادشاہت میں بھی نہ ہوتا ہو۔
عدلیہ کا کام آئین کے مطابق فیصلے کرنا ہوتا ہے جو عدلیہ کرتی آرہی ہے اور سب سے اہم فیصلہ این آر او کے خلاف تھا اور این آر او کو تحفظ دینے کے لیے عدلیہ نے پارلیمنٹ کو موقع بھی دیا مگر حکومت خود کچھ نہ کرسکی۔ حکومت نے عدلیہ کے حکم پر سوئس حکومت کو خود خط نہیں لکھا اور جان بوجھ کر تاخیر کی اور اپنا وزیر اعظم عدلیہ کی توہین پر برطرف کرالیا۔ حکومت غلط کام کرتی رہی جو عدلیہ نے نہیں ہونے دیئے جس کے نتیجے میں ہر غلط فیصلہ حکومت کے لیے غیر قانونی قرار پایا۔سپریم کورٹ کے ججوں نے متعدد بار واضح کیا کہ حکومت کے کام ہمیں کرنے پڑ رہے ہیں، پولیس زیادتیوں اور عوام کے اہم مسائل حل کرانا حکومت کا کام ہے، مگر یہ کام بھی عدالت عظمیٰ کو کرنے پڑے، سپریم کورٹ کا کام آئین و قانون کے مطابق فیصلے دینا ہے اور حکومت اپنے خلاف سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کو ہوا میں اڑاتی رہی، سپریم کورٹ نے راجہ پرویز اشرف کو رینٹل پاور کیس میں ذمے دار قرار دے کر نیب کو کارروائی کے لیے کہا تھا مگر انھیں ترقی دے کر وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جن ارکان اسمبلی نے عدالتی فیصلوں پر کھل کر تنقید کی انھیں وزیر بنایا گیا۔
سپریم کورٹ کو ملک بھر میں بعض ایسے معاملات اور مقدمات پر ازخود ایکشن لینا پڑا جو حکومت کی ذمے داری بنتی تھی، مگر حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ عدالت نے چینی کی قیمت کم کرنے کا کہا، سی این جی کے سلسلے میں عدلیہ نے حکومت اور سی این جی مالکان کی کمائی کا نوٹس لیا اور حکومت کو معقول قیمت مقرر کرنے کا کہا جو آج تک نہیں ہوا۔ عدالت عظمیٰ کا کام فیصلہ کرنا ہے جس پر عمل کرانے کی ہر حکومت پابند ہے۔ عدلیہ صرف فیصلہ دے سکتی ہے خود عمل نہیں کراسکتی۔ بعض لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ عدالت کے حکم پر تعمیل کرانا حکومت کا کام ہے، عدلیہ کا نہیں۔
پولیس کی غفلت و نااہلی پر حکومت ایکشن نہ لے تو یہ کام بھی ملک کی عدالت عظمیٰ کو کرنا پڑے، اگر شاہ زیب کے قتل پر حکومت ایکشن لے لیتی تو اس سلسلے میں سپریم کورٹ کو ملزمان کی گرفتاری کا حکم نہ دینا پڑتا۔ سپریم کورٹ ہی نے سرفراز شاہ قتل کیس میں مداخلت کی تو رینجرز اصل ملزم ثابت ہوئی، وگرنہ رینجرز اہلکاروں نے سرفراز شاہ ہی کو ملزم قرار دے دیا تھا۔ حکمران پارٹی کے امیدوار نے پریذائیڈنگ افسر کی پٹائی کی تو حکومت خاموش رہی، سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا پڑا۔
آج ملک بھر میں جہاں عوام احتجاج کرتے ہیں وہ حکومت کے بجائے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ہی مداخلت اور کارروائی کی اپیل کرتے ہیں۔ حالانکہ پولیس مظالم اور بااثر افراد کے خلاف کارروائی اور ان سے تحفظ دلانا چیف جسٹس کا نہیں حکومت کا کام ہے مگر لوگ حکومت سے مایوس ہوکر سپریم کورٹ کو مسیحا سمجھتے ہیں اور مدد مانگتے ہیں، چیف جسٹس سے ہر معاملے میں مدد مانگی جاتی ہے جو ممکن نہیں، مگر عوام سپریم کورٹ کو ہی خدا کے بعد اپنا سہارا سمجھنے لگے ہیں تو ایسے حالات میں سپریم کورٹ کیا کیا کرے؟
ریاست دنیا بھر میں کرپشن کے سلسلے میں بدنام ہوچکی ہے۔ ریاست کے نام پر حکومت نے قرضے لے لے کر آنیوالی نسلوں پر قرض مزید بڑھادیا، معیشت تباہ کردی، مہنگائی نے آمر دور کا بھی ریکارڈ توڑ دیا، ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ نے وفاق اور تین صوبوں میں عوام پر عذاب اور بوجھ بن کر ان کا جینا دوبھر کرکے رکھ دیا۔ مہنگائی اور غربت کے باعث خودکشیوں کا ریکارڈ بھی جمہوریت کے دعویداروں کے دور میں قائم ہوا اور عوام کو جمہوریت کے لیے ووٹ دینے کی وہ سزا دی گئی کہ عوام کی اکثریت اس بدترین جمہوریت پر جنرل پرویز مشرف کی آمریت کو ترجیح دینے پر مجبور ہے۔
دنیا بھر میں ریاست چلانا وہاں کی حکومت کی ذمے داری قرار دی جاتی ہے اور حکومت کی کرپشن، مظالم، اقربا پروری اور غیر قانونی اقدامات و آئین کی خلاف ورزی جیسے سنگین جرائم جب عدالتوں میں چیلنج ہوتے ہیں تو عدلیہ کو ریاست کے آئین کے مطابق فیصلے دینے ہوتے ہیں۔حکمران آزاد عدلیہ کی بحالی کے حق میں نہیں تھے کیونکہ انھیں آزاد عدلیہ اپنی راہ میں رکاوٹ نظر آرہی تھی جس کی بحالی کا انھوں نے تحریری معاہدہ بھی کیا تھا مگر معاہدے پر عمل نہیں کیا گیا، مگر لانگ مارچ میں فوجی مداخلت کے باعث انھیں مجبوری میں ججوں کو بحال کرنا پڑا اور عوام نے آزاد عدلیہ سے ایسی توقعات وابستہ کرلیں جو ایک حقیقی عوامی حکومت سے کی جاتی ہیں۔عدلیہ کا کام انصاف فراہم کرنا اور حکومت کا کام انتظامی امور کو چلانا ہے۔عدالت تو لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہے مگر حکومت اپنے حقیقی کردار سے روگردانی کر رہی ہے۔
حکومت نے کرپشن، اپنوں کو نوازنے، اپنی راہ میں رکاوٹ بننے والے افسروں کو کھڈے لائن لگانے، قانون کے برعکس میرٹ کو پامال کرکے من پسند افسروں کو ترقی دے کر ملک کو لوٹنے کا سنہری موقع فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حکومت نے من مانیوں کا ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا جو شاید بادشاہت میں بھی نہ ہوتا ہو۔
عدلیہ کا کام آئین کے مطابق فیصلے کرنا ہوتا ہے جو عدلیہ کرتی آرہی ہے اور سب سے اہم فیصلہ این آر او کے خلاف تھا اور این آر او کو تحفظ دینے کے لیے عدلیہ نے پارلیمنٹ کو موقع بھی دیا مگر حکومت خود کچھ نہ کرسکی۔ حکومت نے عدلیہ کے حکم پر سوئس حکومت کو خود خط نہیں لکھا اور جان بوجھ کر تاخیر کی اور اپنا وزیر اعظم عدلیہ کی توہین پر برطرف کرالیا۔ حکومت غلط کام کرتی رہی جو عدلیہ نے نہیں ہونے دیئے جس کے نتیجے میں ہر غلط فیصلہ حکومت کے لیے غیر قانونی قرار پایا۔سپریم کورٹ کے ججوں نے متعدد بار واضح کیا کہ حکومت کے کام ہمیں کرنے پڑ رہے ہیں، پولیس زیادتیوں اور عوام کے اہم مسائل حل کرانا حکومت کا کام ہے، مگر یہ کام بھی عدالت عظمیٰ کو کرنے پڑے، سپریم کورٹ کا کام آئین و قانون کے مطابق فیصلے دینا ہے اور حکومت اپنے خلاف سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کو ہوا میں اڑاتی رہی، سپریم کورٹ نے راجہ پرویز اشرف کو رینٹل پاور کیس میں ذمے دار قرار دے کر نیب کو کارروائی کے لیے کہا تھا مگر انھیں ترقی دے کر وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جن ارکان اسمبلی نے عدالتی فیصلوں پر کھل کر تنقید کی انھیں وزیر بنایا گیا۔
سپریم کورٹ کو ملک بھر میں بعض ایسے معاملات اور مقدمات پر ازخود ایکشن لینا پڑا جو حکومت کی ذمے داری بنتی تھی، مگر حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ عدالت نے چینی کی قیمت کم کرنے کا کہا، سی این جی کے سلسلے میں عدلیہ نے حکومت اور سی این جی مالکان کی کمائی کا نوٹس لیا اور حکومت کو معقول قیمت مقرر کرنے کا کہا جو آج تک نہیں ہوا۔ عدالت عظمیٰ کا کام فیصلہ کرنا ہے جس پر عمل کرانے کی ہر حکومت پابند ہے۔ عدلیہ صرف فیصلہ دے سکتی ہے خود عمل نہیں کراسکتی۔ بعض لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ عدالت کے حکم پر تعمیل کرانا حکومت کا کام ہے، عدلیہ کا نہیں۔
پولیس کی غفلت و نااہلی پر حکومت ایکشن نہ لے تو یہ کام بھی ملک کی عدالت عظمیٰ کو کرنا پڑے، اگر شاہ زیب کے قتل پر حکومت ایکشن لے لیتی تو اس سلسلے میں سپریم کورٹ کو ملزمان کی گرفتاری کا حکم نہ دینا پڑتا۔ سپریم کورٹ ہی نے سرفراز شاہ قتل کیس میں مداخلت کی تو رینجرز اصل ملزم ثابت ہوئی، وگرنہ رینجرز اہلکاروں نے سرفراز شاہ ہی کو ملزم قرار دے دیا تھا۔ حکمران پارٹی کے امیدوار نے پریذائیڈنگ افسر کی پٹائی کی تو حکومت خاموش رہی، سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا پڑا۔
آج ملک بھر میں جہاں عوام احتجاج کرتے ہیں وہ حکومت کے بجائے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ہی مداخلت اور کارروائی کی اپیل کرتے ہیں۔ حالانکہ پولیس مظالم اور بااثر افراد کے خلاف کارروائی اور ان سے تحفظ دلانا چیف جسٹس کا نہیں حکومت کا کام ہے مگر لوگ حکومت سے مایوس ہوکر سپریم کورٹ کو مسیحا سمجھتے ہیں اور مدد مانگتے ہیں، چیف جسٹس سے ہر معاملے میں مدد مانگی جاتی ہے جو ممکن نہیں، مگر عوام سپریم کورٹ کو ہی خدا کے بعد اپنا سہارا سمجھنے لگے ہیں تو ایسے حالات میں سپریم کورٹ کیا کیا کرے؟