فیس بک کلچر ’جنہیں پڑھنا چاہیے وہ لکھ رہے ہیں‘

فیس بک سے وابستگی ہماری ذہنی صلاحیتوں کو گھٹا رہی ہے۔

فیس بک سے وابستگی ہماری ذہنی صلاحیتوں کو گھٹا رہی ہے۔ فوٹو: فائل

سائنس اور ٹیکنالوجی اور مواصلاتی رابطوں سے عالمی منظرنامے پر نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔

انٹر نیٹ کلچر، فیس بک اور واٹس ایپ کلچر نے شرق وغرب کے ثقافتی، تہذیبی اور سماجی صورت حال نے یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ مابعدجدیدیت نے عالمی سطح پر انسانی سماج کو روایتی سے عبوری کے بجائے جدید سماج میں داخل کردیا۔ دوریاں مٹ گئیں اور فاصلے سمٹ گئے ہیں۔ مفکرین اس عہد کو '' عدم نظریہ کا عہد Age of no Ideology '' قرار دیا ہے۔ انسان ایک دوسرے سے بڑی نزدیکی سے مربوط ہوچکے ہیں۔ اس مناسبت سے سماجی نیٹ ورک نے بھی انسانوں کے درمیان دوریاں کم کردی ہیں۔ قدیم تہذیبی دھارے بہت حد تک فطری ہوا کرتے تھے لیکن معاصر دنیا میں یہ چیزیں مفقود ہوچکی ہیں۔

ایک زمانے میں آدمی کی حیثیت کا تعین اس کی قابلیت، ذہانت، سخاوت، دولت اور حسب و نسب کے ذریعے ہوتا تھا، زمانہ بدل گیا ہے۔ اب فیس بک اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے اور آدمی کی سماجی حیثیت کو فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعے جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ فیس بک اکاؤنٹ پر آپ کے پاس دوستی کی درخواست آتی ہے۔ درخواست بھیجنے والے کا مختصر تعارف ہوتا ہے۔ آپ اس کو دوست بنالیتے ہیں ''نہ جان نہ پہچان میں تیرا مہمان'' کے مصداق وہ آپ کا دوست بن گیا۔ اب وہ کسی کو گالی دے کر آپ کو اس میں شامل کرتا ہے، قابل اعتراض تصویر کے ساتھ آپ کو شامل کر تا ہے، جسے فیس بک کی اصطلاح میں ٹیگ کہتے ہیں۔

دو چار ایسی وارداتوں کے بعد آپ اْس شخص کو پہچان لیتے ہیں، دوستی ختم کرکے اس کو دوستوں کی فہرست سے نکال دیتے ہیں۔ گپ شپ یا طنزو مزاح کی ضرورت و افادیت اپنی جگہ ہے اور یہ بھی فیس بک کے استعمال کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے اور میں ذاتی طور پر فیس بک کو حدودوقیود کے ساتھ ذہنی تفریح کا ہی ایک بامقصد مشغلہ سمجھتا ہوں۔ تاہم ہمہ وقت غیرتعمیری سرگرمیاں، فالتو گپ شپ اور بحث مباحثے، تعمیرِ شخصیت و عظمتِ کردار پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔

پڑھے لکھے معاشرے کے لیے اس میں کوئی خرابی نہیں، لیکن ہمارا معاشرہ میں چوںکہ تعلیمی شرح کم ہے اس وجہ سے کئی قباحتوں نے جنم لیا ہے ان قباحتوں کا تدارک نہیں ہوسکتا۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ فیس بک کو شائستہ، مہذب اور پڑھے لکھے لوگ خیر باد کہہ دیں اور سو شل میڈیا جیسا وسیع پلیٹ فورم صرف غیرسنجیدہ حلقوں کے لیے مختص ہو کر رہ جائے فیس بک پر دوستیاں بھی ہوتی ہیں دشمنیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ نہ دوستی حدود کے اندر رہتی ہے نہ دشمنی حدود کی پابند ہو تی ہے۔ دونوں میں حد سے تجاوز ہوتا ہے۔

اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے ضروری نہیں کہ خود سے نت نئے تجربات کیے جائیں اور پھر ان کا خمیازہ بھی بھگتا جائے بل کہ اپنے مشاہدے کی گیرائی و گہرائی سے دوسروں کی غلطیوں کو مدنظر رکھ کر سوشل میڈیا سے بغیر نقصان کے ہم وہ سب کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ حکیم لقمان جیسے عظیم دانشور سے کسی نے پوچھا کہ:''آپ نے ادب کہاں سے سیکھا؟'' حکیم لقمان نے جواب دیا،''میں نے ادب بے ادبوں سے سیکھا ہے، ان کا جو فعل مجھے برا محسوس ہوا، میں نے اس کے کرنے سے پرہیز کیا ہے۔''

فیس بک کی دشمنی بھی عجیب ہے۔ پہلے طلبا تاریخ کے اوراق میں پڑھتے تھے کہ میسور میں ٹیپو سلطان کی جنگیں کب ہوئیں اور ابراہیم لودھی اور شیرشاہ سوری کے درمیاں خونریز جنگ پانی پت کے میدان میں لڑی گئی۔ اب پانی پت کی جگہ فیس بک کی پہلی لڑائی فیس بک کی دوسری لڑائی اور فیس بک کی تیسری لڑائی کا ذکر ہوتا ہے۔ اب موجودہ صورت حال میں ہماری نئی نسل کے سامنے تاریخ کا یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ فیس بک کی کون سی لڑائی کس کس کے درمیان لڑی گئی ؟کون جیتا اور کون ہارا؟

بقول اقبال ''جس رزق سے پرواز میں آتی ہو کوتاہی'' رزق سے مراد محض رزق ہی نہیں ہے بلکہ میرے خیال میں بعض لوگ بھی ایسے ہوتے ہیں، جن کے ساتھ تعلق سے پرواز میں کوتاہی آجاتی ہے۔ آدمی اپنے دوستی کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے اور اس خبر بھی نہیں ہوتی کہ کب راہ راست سے بھٹک گیا۔ اس لیے دیکھتے رہنا چاہیے کہ کس قسم کے لوگوں کے ساتھ تعلق ہے۔ پست عزائم، منفی سوچ اور مایوس فکر کے حامل افراد کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے انسان خود بھی نچلے درجے پر آجاتا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک اچھا کھلاڑی جب اناڑیوں میں کھیلتا ہے تو اپنا کھیل بھی خراب کرلیتا ہے۔ اس کے برعکس اناڑی جب اچھے کھلاڑیوں میں کھیلتا ہے تو خود کو بہتر سے بہتر کرتا چلا جاتا ہے۔


عالم گیریت کے اس دور میں ایک آدمی کینیڈا، برطانیہ، امریکا یا ملائشیا میں بیٹھا ہے۔ اُس کے کلچر سے آپ کا کلچر مختلف ہے اور پھر جو آپ کی نظر میں خرافات یا اوٹ پٹانگ پوسٹ ہے۔ اس کے لیے یا تو آپ اْن کی سطح پر اتریں گے یا ان کو نصیحت کریں گے؟ ان کی سطح پر اترنا آپ کے ثقافتی اقدار کے خلاف ہوگا اور ان کو نصیحت کرنا فضول ہے۔ ان 'پوسٹوں'' پر آپ تبصرہ کریں گے تو ایک لایعنی بحث چھیڑنے میں وقت ضائع ہوگا۔

آپ فیس بْک پر روزانہ اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے، تصاویر لگانے اور پوسٹس پڑھنے میں جتنا وقت لگاتے ہیں دراصل اس کا احساس آپ کو کم کم ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ فیس بک اور سوشل میڈیا وقت گزرنے کے احساس کو بری طرح متاثر کررہے ہیں۔ برطانیہ میں یونیورسٹی آف کینٹ میں نیوروسائنس کے ماہرین ڈاکٹر لزارس گونیڈس اور ڈاکٹر ڈنکر شرما نے اپنی تحقیقاتی مطالعے کی روشنی میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا ایک منفی پہلو پیش کرتے ہوئے کہا کہ فیس بک کی لت ذہنی اور دماغی طور پر نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق فیس بک کے 76 فی صد صارفین روزانہ فیس بک پر آتے ہیں اور ان میں سے 55 فی صد دن میں کئی مرتبہ فیس بک کا دورہ کرتے ہیں، جب کہ کینٹ یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق بتاتی ہے کہ انٹرنیٹ اور فیس بک کا بار بار استعمال وقت کے زیاں کا احساس نہیں ہونے دیتا۔

موجودہ صورت حال میں ہماری نئی نسل کے سامنے تاریخ کا یہ سوال اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ فیس بک کی کون سی لڑائی کس کس کے درمیان لڑی گئی؟ کون جیتا اور کون ہارا؟ ان لڑائیوں کا دل چسپ امر یہ ہے کہ فاتح اور مفتوح کا کوئی ات پتا نہیں ہوتا، کیوںکہ فیس بک خیالی دنیا ہے۔ اس میں نہ کوئی فاتح نہ کوئی مفتوح ہے۔ فیس بک کے شہہ سوار خیالی گھوڑوں پر سوار خیالی میدانِ جنگ میں صف آراء ہوتے ہیں۔ اور ایسا گھمسان کا رن پڑتا ہے کہ خد ا کی پناہ!

فیس بک پر جتنے بڑے بڑے لکھاری اور مشہور شخصیات موجود ہیں، انہوں نے پہلے خوب مطالعہ کرکے فکری پختگی اور علمی رسوخ حاصل کیا اور اب ان دونوں بنیادوں پر تحریری میدانوں میں جوہر بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ اب قوتِ دلیل کے ساتھ صحیح یا غلط بات کے ذریعے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں، جب کہ آج کا نوجوان مطالعے کے بغیر ہی اس میدان میں اتر آیا ہے اور وہی مقام و مرتبہ حاصل کرنا چاہتا ہے، جو انہیں حاصل ہے۔ چناںچہ اکثر اوقات غلط یا صحیح نظریات کے درمیان فرق بھی نہیں کر پاتا یا بہت جلد ایسی باتوں سے متاثر ہوجاتا ہے، جو بہت پہلے سے کتابوں میں لکھی جاچکی ہیں یا جن کے جواب دیے جاچکے ہیں، کسی نے سچ کہا تھا کہ ''جنہیں پڑھنا چاہیے وہ لکھ رہے ہیں!'' ایک صفحہ لکھنے کے لیے بیسیوں صفحات کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے۔

مطالعے کی کمی کے دو لازمی نتیجے فکری تنزلی اور تحریری پس ماندگی ہیں۔ فکر اور تحریر کو مضبوط کرنے کے لیے مطالعہ ازحد ضروری ہے، مگر فیس بک نے کتاب سے ہمیں دور کردیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں، کیوںکہ جتنا وقت ہم فیس بک کو دیتے ہیں اگر اس کا چوتھائی بھی کتابوں کو دینے لگیں، تو ہمارا علم، فیس بک سے حاصل شدہ سطحی علم سے نہ صرف کئی گنا بڑھ سکتا ہے بل کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ اور عقل و شعور میں پختگی بھی پیدا ہوگی۔

فیس بک کا ایک اہم اور قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ جب ہم گھر والوں کے ساتھ، بوڑھے والدین یا بچوں کے ساتھ بیٹھ کر فیس بک پر مشغول رہتے ہیں تو یہ ان کی بدترین حق تلفی ہے۔ فیس بک باقی رہے گی لیکن بوڑھے والدین مہمان ہوتے ہیں، کسی بھی وقت رخصت ہوجائیں گے اور بچے بھی بڑے ہوجائیں گے، پھر کل کو ہم اور آپ بھی دیکھ رہے ہوں گے کہ بیٹا موبائل ہاتھ میں لیے گھنٹوں مشغول رہتا ہے، لیکن بے اعتنائی سے جواب دینے کے علاوہ اس کے پاس ہمارے ساتھ بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔ ایسے اسٹیٹس کا کیا فائدہ جس میں آپ کے فیس بک پر ہزاروں دوست ہوں مگر ان لمحات میں گھر والوں سے اس بات پر ناراضگی چل رہی ہو کہ آپ گھر میں وقت نہیں دیتے۔

آج رابطے بڑھ گئے لیکن محبتیں کم ہوگئیں خیال رکھیں رابطے بے شک کم ہو جائیں لیکن محبتیں کم نہیں ہونی چاہییں۔ فیس بک سے باہر ایک حقیقی دنیا بھی ہے اور حوصلہ افزا حد تک ہے۔ سوشل میڈیا کی دنیا ایک مصنوعی دنیا ہے لہذا اسے اسی حد تک رکھنا چاہیے اور اس کی وجہ سے اپنی حقیقی زندگی کو متاثر نہیں ہونے دینا چاہیے۔ فیس بک کلچر یورپ کے پڑھے لکھے معاشرے میں ان کی تہذیب کے لحاظ سے بہت مفید ہے۔

ہمارے معاشرے میں جہاں برداشت ناپید ہے، فیس بک کی بدولت تیزی سے بدلتی صورت حال نے ثقافتی خلیج پیدا کردی ہے، جس کے پیش نظر فرد کی ذہن سازی نہیں ہوپا رہی ہے۔ اس لیے ہماری ثقافت کے حساب سے نئی نسل کو ایک چیلینج درپیش ہے۔ پشتو میں ایک ضرب المثل ہے کہ جس بلا سے جان نہ چھوٹے اس کا سامنا خندہ پیشانی سے کرو۔ ہم بھی فیس بک کلچر کے نرغے میں آچکے ہیں۔ اس عفریت کو قابو میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور گھروں کی سطح پر شعور وآگہی اور اخلاقیات کی تعلیم و تربیت دی جائے، تاکہ فیس بک کے استعمال کنندگان اس ذریعے کو تعلیم، آگہی، تفریح اور دیگر مفید مقاصد کے لیے مناسب طور پر استعمال کریں۔
Load Next Story