یوم ارض… موسمیاتی و ماحولیاتی خواندگی

عالمی یوم ارض پر ہر سال ایک موضوع کا انتخاب بھی کیا جاتا ہے۔

KARACHI:
یوم ارض منانے کا پہلا تصور 1969 میں سان فرانسسکو میں منعقد ہونے والی یونیسکو کی کانفرنس میں ایک اخبار کے مالک اور کمیونٹی کی سطح پر کام کرنے والی بااثر سرگرم شخصیت جان مک کونل نے پیش کیا تھا۔ انھوں نے اس دن کو منانے کے لیے 21 اپریل کی تاریخ پیش کرتے ہوئے اسے ایک اعلان نامے کی صورت میں تحریر کیا۔

اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل نے اس اعلان نامے پر دستخط بھی کیے تھے۔ کچھ عرصے بعد وسکنسن امریکا سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ سینیٹر گیلارڈ نیلسن نے یوم ارض کے دن کو ماحولیاتی آگہی سے منسوب کرتے ہوئے 22 اپریل 1970 کو پہلا یوم ارض منانے کا اعلان کیا۔ یوم ارض میں امریکا کے 20 ملین لوگوں نے حصہ لیا۔ واضح رہے کہ اس وقت یوم ارض کا دائرہ کار صرف امریکا تک ہی محدود تھا۔

یوم ارض کی دسویں سالگرہ پر امریکی ماحولیاتی ایجنسی کے جرنل میں گیلارڈ نیلسن نے لکھا کہ امریکیوں کو ماحولیاتی بگاڑ کے بارے میں سمجھ آچکی ہے اور انھیں اس پر گہری تشویش ہے۔ 1995 میں امریکی صدر بل کلنٹن نے انھیں سب سے بڑے امریکی سول ایوارڈ ''پریڈینشل میڈل آف فریڈم'' دیا۔ یوم ارض میں امریکی عوام کی بڑے پیمانے پر شرکت نے امریکی پالیسی سازوں کو ماحول دوست قوانین بنانے کی جانب متوجہ کیا جس کے نتیجے میں 1970 میں امریکی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کے قیام کابل منظور کیا گیا۔

ماحولیات پر کام کرنے والے متعدد گروپس اور سرگرم رہنماؤں نے یوم ارض کی بھرپور کامیابی اور بڑی تعداد میں عوامی شرکت سے متاثر ہوکر ڈینس ہائز کی توجہ مبذول کراتے ہوئے یوم ارض کو عالمی سطح پر منانے کے لیے راضی کیا جس کے نتیجے میں ہائز نے ارتھ ڈے نیٹ ورک کے دائرے کار کو پھیلاتے ہوئے عالمی سطح یوم ارض منانے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں پہلی مرتبہ 22 اپریل 1990 کو عالمی یوم ارض منایا گیا اس سرگرمی میں دنیا کے 141 ملکوں کے 200 ملین لوگوں نے حصہ لیا۔

عالمی سطح پر منائے جانے والے اس عالمی یوم ارض نے جس کا فوکس اب گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی مسائل تھے کو پوری دنیا کے سامنے اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا جب کہ 1992 میں ریوڈی جنیرو میں ہونے والی عالمی کانفرنس جو ارتھ سمٹ کے نام سے جانی جاتی ہے کی راہ ہموار کی۔آج دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد افراد عالمی یوم ارض کے حوالے سے منائی جانے والی تقریبات میں براہ راست حصہ لیتے ہیں، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے چلائی جانے والی کمپین میں عالمی یوم ارض کو عوامی آگہی کی سب سے بڑی کمپین کا کہا جاتا ہے۔ اس دن دیگر کے علاوہ خصوصی طور پر اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں کو فوکس کیا جاتا ہے اور انھیں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے موثر کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

عالمی یوم ارض پر ہر سال ایک موضوع کا انتخاب بھی کیا جاتا ہے۔ رواں سال کا موضوع ''موسمیاتی و ماحولیاتی خواندگی'' رکھا گیا ہے۔گزشتہ سال 22 اپریل کو منائے جانے والا عالمی یوم ارض اس وقت ایک تاریخ ساز دن بن گیا تھا جب دنیا کے 175 ملکوں نے اقوام متحدہ کے مرکزی دفتر میں ماحولیاتی تحفظ کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اب یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارا سیارہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث کرئہ ارض کو لاحق ہونے والے خطرات کے نتیجے میں شدید بحران کا شکار ہے۔

تازہ ترین اندازوں کے مطابق رواں صدی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے فضا میں جمع ہونے کی رفتار میں دوگنا اضافہ ہوجائے گا۔ یہ 5 کروڑ سال میں سب سے بلند سطح ہوگی۔ اگر انسان نے اس عمل کو روکنے کے لیے فوری طور پر اقدامات نہیں اٹھائے تو کرئہ ارض کو بچانے کے لیے واپسی کا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔


بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی 5 ویں تجزیاتی رپورٹ میں دنیا کو واضح طور پر متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ موجودہ صدی میں گرین ہاؤس گیسوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اخراج کے باعث بڑے پیمانے پر سیلاب، نقل مکانی اور بھوک کے خطرات میں اضافے کے ساتھ درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر زمینی درجہ حرارت میں اضافہ اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو 2100 تک عالمی زمینی درجہ حرارت میں اضافہ 2 سے 6 ڈگری سیلیس تک پہنچ سکتا ہے۔

پیرس میں ہونے والے ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کیا جائے گا جب کہ کوشش کی جائے گی کہ ا س کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے نہ بڑھنے دیا جائے۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں اضافے کے اعدادو شمار تشویشناک ہیں، 2014/15/16 کو تاریخ کے مسلسل گرم ترین سال قرار دیے جاچکے ہیں۔ رواں سال کی ابتدا بھی تشویشناک انداز میں ہورہی ہے۔ اس حقیقت سے اب انکار ممکن نہیں رہا ہے کہ کرئہ ارض کے ہر خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے جس نے زمین کے ماحولیاتی نظام کو تہہ و بالا کرڈالا ہے۔

ناسا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے نے قطب شمال کے گلیشیرز کو پگھلانا شروع کردیا ہے جس کے باعث گرمی کی لہر میں مزید تیزی آتی جارہی ہے۔ ناسا کے اندازوں کے مطابق بحر منجمد میں موجود برفانی تودوں کے پگھلنے کی صورت میں زمین کے جغرافیائی حالات پر گہری اثرات مرتب ہوں گے۔ ناسا کے مطابق 2016 میں درجہ حرارت جس طرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر رہا اور یہ سلسلہ اسی طرح برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں کرۂ ارض سے زندگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ملکوں میں سرفہرست ہے۔ یہ دنیا کے گنے چنے ملکوں میں سے ایک ہے جہاں درجہ حرارت کے بڑھنے، خشک سالی، بارشوں کے پٹرن میں تبدیلی، گلیشیئرز کا پگھلاؤ، سطح سمندر میں اضافہ، سیلاب، پانی کی کمی سمیت تمام مسائل اپنی شدت کے ساتھ موجود ہیں تو دوسری جانب ان مسائل کی جانب ہمارا رویہ من حیث القوم بے حسی کا ہے۔ ہم اس جانب توجہ دینے کے تیار ہی نظر نہیں آتے۔

حکومتی اندازوں کے مطابق پاکستان کو یومیہ ایک ارب روپے کا نقصان ماحولیاتی انحطاط کی وجہ سے ہورہا ہے جب کہ غیر جانبدار ماہرین اس نقصان کی شرح بہت زیادہ بناتے ہیں۔ پاکستان ان ملکوں میں بھی سرفہرست گنا جارہا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی مسائل کے بارے میں شعورو آگہی کا شدید فقدان ہے۔

رواں سال عالمی یوم ارض کا موضوع ''موسمیاتی و ماحولیاتی خواندگی'' ہماری توجہ اس جانب مبذول کراتا ہے کہ ہمیں اپنے شہریوں سمیت ملک کے تمام اہم اسٹیک ہولڈرز کو ایسے تصورات سے آشنا کرانا ہوگا جس کے ذریعے وہ اس بات کو سمجھ سکیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں ہمارے سیارے کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن چکیں ہیں اور ہم بھی اسی سیارے میں رہائش پذیر ہیں۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ زمین کا ماحولیاتی نظام ہمیں زندگی کے ساتھ رزق بھی فراہم کرتا ہے۔

آج کی دنیا میں استعمال کیے جانے والے ابلاغ کے مختلف ذرائع جن میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا شامل ہیں کو ماحولیاتی آگہی کی مہم میں شامل کرنا ہوگا۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی آگہی میں اضافہ کرنے کے لیے ان ذریعوں کو بھرپور انداز میں استعمال کیا جارہا ہے۔

ہمیں ان ذریعوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے سماجی اقتصادی اور ماحولیاتی ضروریات کے درمیان توازن قائم کرتے ہوئے فطرت اور زمین کے ساتھ ہم آہنگی کو فروغ دینا ہوگا۔ ہم نے صدیوں کے دوران زمین کا بے رحمی سے استعمال کرتے ہوئے زمینی وسائل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب زمین ہم سے بدلہ لے رہی ہے۔ زمین پر زندگی کو تبدیل کرنا اب اجتماعی انسانی فیصلے پر منحصر ہے۔
Load Next Story