امت مسلمہ کا المیہ

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ عالم اسلام نے دنیا کو بے شمار دانشور، سائنس داں اور محقق دیے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلم دنیا متحد ہو کر ہی اپنے اپنے مسائل حل کرسکتی ہے اور عالم اسلام کے نمایندے پورے عالم انسانی کے اتحاد کے داعی بن کر اتحاد و اتفاق کی ناقابل تسخیر دیوار ثابت ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ فی الحقیقت یہ تمام مسلمانوں کے اتحاد کے خواب کو حقیقت بنانے کے راستے کی سب سے ناگزیر ضرورت ہے جو آج بدترین فرقہ واریت اور مسلکی اختلافات کا شکار ہیں اور اسلام دشمن قوتیں انھی کی بنیاد پر مسلمانوں کو باہم دست و گریباں رکھ کر مسلم ملکوں میں اپنے مفادات کی تکمیل کر رہی ہیں۔

وطن عزیز کے ساتھ ساتھ اگر عالمی منظرنامے پر گہری نگاہ کی جائے تو یہ افسوس ناک صورتحال سامنے نظر آئے گی کہ اس وقت پورے عالم اسلام میں ایک عجیب سا خلفشار پھیلا ہوا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا ملک کھنڈر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ سب سے پہلے عیدی امین کو نشانہ بنایا گیا، ان پر الزام تھا کہ وہ آدم خور تھا اور دشمنوں کا گوشت پکا کر کھاتا تھا۔ پھر افغانستان کا نمبر آیا جہاں پہلے روس نے مداخلت کی اور اسے روس کے چنگل سے چھڑانے کے نام پر امریکا آگیا اور اپنے ساتھ بھارت اور اسرائیل کو بھی وہاں جمادیا اور ان ممالک کے اشتراک یا تعاون سے جو دہشت گردی شروع ہوئی اس کی زد میں پورا پاکستان آیا ہوا ہے۔

عراق پر الزام لگا کہ کیمیائی ہتھیار دشمنوں پر آزمائے جا رہے ہیں (اور دشمن بھی کون کلمہ گو مسلمان بھائی) یہاں بھی امریکا نے امن کے نام پر تباہی مچائی، بحرین میں جمہوریت لانے کے نام پر حالات بگاڑے جا رہے ہیں، لیبیا کے صدر کو سڑکوں پر گھسیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، لبنان پر بار بار حملے کرکے اس جگمگاتے شہر کو کھنڈر میں کئی بار بدلا گیا۔

یمن اور سعودی عرب میں لڑائی اور اب باری آگئی شام کی جہاں امریکا بہادر لڑو اور لڑواؤ کی پالیسی پر کاربند نظر آرہا ہے۔ مصر کی خوں ریزی تاریخ کے صفحات پر رقم ہے۔ الغرض یہ کہ ہر مسلمان ملک انتشار کے گرداب میں آچکا ہے اور ہر ملک میں ایک ہی فارمولے کو آزمایا گیا ہے اور وہ ہے عصبیت، تعصب، نفرت گویا ہتھیار یا خنجر ہر ملک کی شہ رگ پر چل رہا ہے۔

یوں مجموعی طور پر پوری امت مسلمہ نظریاتی خلفشار اور خانہ جنگی کا شکار نظر آتی ہے اور اگر حقائق کی عینک لگا کر دیکھیں تو امت مسلمہ کے مسائل اور مصائب کی بنیادی وجہ فرقہ پرستی، مفاد پرستی اور تخت اقتدار پر قابض اشرافیہ کی کرپشن اور بدعنوانی ہے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ عالم اسلام نے دنیا کو بے شمار دانشور، سائنس داں اور محقق دیے مگر امت مسلمہ نے ان کی قدر نہیں کی اور انھیں ناقدری کی بھینٹ چڑھادیا۔ امریکا اور برطانیہ یا بھارت اور فرانس کو تو چھوڑیں، وہ تو ہیں ہی ہمارے فطری اور باطنی دشمن۔

آپ مقدس مسلمان ممالک کے اعمال ملاحظہ فرمائیں کہ ''مسلک'' کی بنیاد پر پورے ملک کو ہی تخت و تاراج کرنے کے لیے کفار کو دعوت قتل و غارت گری دیتے چلے آرہے ہیں اور اب ہم پاکستانی عوام مع اپنے حکمرانوں کے ساتھ عراق و افغانستان کے بعد اب شام کے حوالے سے ایک خونیں ڈرامہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں اور ساتھ ہی بے بس بھی۔ کاش ہمارے مسلمان حکمرانوں کو اس بات کا یقین ہوجاتا کہ 60 اسلامی ممالک کے مسلمان چاہے وہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں ان کا خدا، ان کی کتاب، ان کا رسول اور ان کا کعبہ ایک ہی ہے تو حالت یہ نہ ہوتی جو آج ہے۔


بہرکیف دانش کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کو شام اور امریکا کے حالیہ تنازع میں بہت محتاط رہنا ہوگا کیونکہ 39 رکنی فوجی اتحاد میں شمولیت کو پاکستان کی ریاستی پالیسی قرار دیے جانے کے بعد امریکا کے جنگی جرائم کا ملبہ پاکستان اور سعودی عرب پر گرنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور شام امریکا تنازع بہرطور خانہ جنگی کا راستہ ہموار کرنے کا سبب بنے گا اور اس خانہ جنگی کی طوالت پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے گی جس کا فائدہ صرف اور صرف مسلمانوں کے دشمنوں کو ہوگا۔ اور اگر مسلمانوں نے اپنے فرقہ وارانہ اختلافات کی بنیاد پر آپس میں لڑنا بند نہ کیا تو ٹرمپ کا امریکا اور مودی کا بھارت مل کر ہمیں ایک دوسرے کے ہاتھوں برباد کرائے گا جس کی مثال بھارت اور بنگلہ دیش کا دفاعی معاہدہ ہے جو امریکا نے کرایا ہے۔

دشمن عناصر امت محمدی کو ختم کرنے پر تل گئے ہیں لیکن ہم مسلمانوں نے خود کو شتر مرغ بنالیا ہے۔ ہم نے برسہا برس سے اسلام کی سچی تعلیمات سے روگردانی شروع کی ہوئی ہے۔ اور یہ اسی کی سزا ہے جو عالم اسلام کو مل رہی ہے اور ہم اور ہماری آنے والی نسلیں اس خونی فصل کو کاٹیں گے۔ ہمارے آپس کی ناچاقی، نفرت، کینہ پروری، حسد اور تعصب کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے۔ کشمیر کے مسلمان، فلسطین، افغانستان، عراق، ایران، لیبیا، لبنان، مصر اور اب شام کے مسلمانوں کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے لیکن مسلم ممالک کی زبانیں بند ہیں۔

اگر سعودی عرب، ایران، عراق اور شام ان پر تیل بند کردیں اور تمام مسلمان ممالک ایک اللہ کے نام کی رسی مضبوطی سے پکڑ لیں اور امت محمدی متحد ہوجائے تو کوئی کافر کسی مسلمان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ لیکن افسوس ہم مسلمانوں کی صفوں میں اب نہ طارق بن زیاد ہے، نہ محمد بن قاسم، نہ ہی صلاح الدین ایوبی، نہ ہی احمد شاہ ابدالی، نہ محمد بن تغلق، نہ ہی سلطان محمد خلجی اور نہ ہی محمد غوری۔

قرآن پاک میں اتحاد، اتفاق اور اخوت و محبت پر بہت زور دیا گیا ہے اور اتحاد و اتفاق اور محبت کے بعد اگر کسی چیز کی ضرورت مسلمانوں اور اسلامی ممالک کو بھوک، افلاس، بیماری، وبا، قدرتی آفات، جنگ و جدل، فاقہ کشی اور جارحیت سے نجات دلا سکتی ہے تو وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا حصول ہے۔ یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ مسلمان تقریباً دنیا کی 20 فیصد آبادی کے برابر ہیں اور یہ امریکا، یورپ اور جاپان سے زیادہ ہیں لیکن اب سائنس اور ٹیکنالوجی میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔

تمام مسلمان سائنسدانوں اور انجینئروں کی تعداد بمشکل 50 ہزار ہوگی جب کہ مغربی دنیا میں تقریباً ایک کروڑ اعلیٰ ترین سائنس دان اور انجینئرز کام کر رہے ہیں، صرف اسرائیل میں تقریباً 40 ہزار سائنسدان اور انجینئرز شب و روز کام کر رہے ہیں اس کے علاوہ 95 فیصد سائنس دان اور انجینئرز ترقی یافتہ ممالک میں اپنے اپنے ممالک کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ ہماری امت مسلمہ کی کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ اسلامی ممالک میں ایک ہزار افراد پر صرف ایک سائنس دان یا انجینئر ہے اس کے مقابلے میں روس میں 100، مغربی ممالک میں 50 اور دنیا میں اوسطاً 4 ہزار ہیں۔

یہ امر بھی افسوس کے لائق ہے کہ ہمارے مسلمان حکمرانوں کی تعداد (جنھیں سائنس اور ٹیکنالوجی میں دلچسپی ہے) اس قدر کم ہے کہ اس کا ذکر کرتے ہوئے ندامت ہوتی ہے۔ حالانکہ ایک زمانے میں اسلامی تعلیم کی ریسرچ پر مسلمانوں کی خصوصی توجہ تھی اور ان کی ترقی کا راز بھی یہی تھا، مسلمانوں کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی ضرب المثل تھی لیکن برسہا برس سے مسلمان اس اہلیت اس صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں اور ایک پسماندہ قوم کے حوالے سے دنیا کے نقشے پر موجود ہیں۔

ضرورت اب اس امر کی ہے کہ ایک بار پھر اس سمت میں نتیجہ خیز پیش رفت کی جائے تاکہ امت مسلمہ کو اس کی نظریاتی اور مذہبی بنیادوں سے دور کرنے کی کوششیں کامیاب نہ ہونے پائیں اور ہر اسلامی ملک ایک حقیقی اسلامی اور فلاحی ریاست کی وہ منزل حاصل کرسکے جس کے لیے مسلمانوں نے تاریخ ساز جدوجہد کی تھی۔ پاکستان میں بھی دینی جماعتیں بالعموم مسالک ہی کی بنیاد پر قائم ہیں وہ بھی دیگر مسلم ممالک کے ساتھ باہمی اتحاد و اتفاق ہی سے اپنے دین، مذہب کے خلاف جاری سازشی منصوبوں کو ناکام بناسکتی ہیں۔
Load Next Story