افسران بالا کا یکساں رویہ
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تو سالہا سال سے پانی کا بحران بدعنوان اور طمع پرست افسران نے پیدا کیا ہوا ہے۔
آئندہ آنے والے برسوں میں پوری دنیا میں قلت آب کا مسئلہ درپیش ہوگا، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تو سالہا سال سے پانی کا بحران بدعنوان اور طمع پرست افسران نے پیدا کیا ہوا ہے۔ واٹر بورڈ کے افسران بدلتے رہے لیکن پانی کے مسائل اسی طرح موجود ہیں۔
ٹینکر مافیا کی چاندی، افسران بالا کی تبدیلی، ترقی اور تنزلی کے ہر دور میں رہی۔ ٹینکر سڑکوں پر دوڑتے اور گھروں گھروں پانی پہنچاتے اور اس آب حیات کے عوض ایک بھاری رقم بٹورتے رہے۔ مقتدر حضرات نے یہ بات پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ یہ پانی کہاں سے آتا ہے؟ جب کہ شہر میں بلکہ صوبے بھر میں پانی کی شدید کمی ہے۔ لیکن وہ یہ سوال کیوں کرسکتے ہیں؟ (جب کہ وہ خود اس ستم ظریفی میں شریک ہیں)۔
یہ بات بالکل اسی طرح ہے کہ غریب شخص کے منہ کا نوالا چھین کر اسے ہی فروخت کردیا جائے۔ عوام کے حصے کا پانی بھی انھی کو بیچ کر دیا جاتا ہے۔ اگر حکومت چاہے تو پاکستان کے تمام لوگوں کی محرومیاں ضرور ہوسکتی ہیں، انھیں، پانی، غذا، تعلیم اور علاج و معالجہ میسر آسکتا ہے۔
سائنس دانوں نے قلت آب کے مسائل کو حل کرنے کے لیے تحقیق و جستجو کے سہارے بہت سے راستے ایسے دریافت کیے ہیں جن پر چلنے سے پانی وافر مقدار میں حاصل کیا جاسکتا ہے اور جس چیز کی بھی مقدار میں زیادتی ہوتی جاتی ہے تو اس کے نرخ بھی کم ہوجاتے ہیں، تجارتی منڈیوں کا یہی اصول ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً ہر سال موسم برسات میں موسلا دھار بارش تباہی مچا دیتی ہے، پانی گھروں اور راستوں کو ڈبو دیتا ہے، بے شمار لوگ طوفانی ریلوں کی نذر ہوجاتے ہیں اور راستے دریا اور سمندر بن جاتے ہیں، پیدل چلنے والوں کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کہاں گڑھا یا کس جگہ گٹر ڈھکنوں سے آزاد ہیں۔ ایسی ہی غفلت سے بہت سی معصوم جانیں لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔
بلوچستان کی صورتحال کو لے لیجیے، ہر سال بلوچستان کے خشک اور بنجر علاقے سیلابی آفات میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور برسات کا پانی سمندر میں گر کر ضایع ہوجاتا ہے، یہی حال سندھ اور خصوصاً کراچی کا بھی ہے۔ اگر چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا لیے جائیں تو پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے ملکوں میں ایسا ہی ہوتا ہے، وہ برسات کے پانی کو صاف کرکے قابل استعمال بنا لیتے ہیں، اس طریقہ کار کے تحت ہم بھی پانی اکٹھا کرکے اپنے ریگستانوں کو سرسبز و شاداب بناسکتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر معین الدین احمد کے مضمون ''خدارا ہوش کے ناخن لیں'' سے چند سطور۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات ہنزہ کے نزدیک زلزلہ اور لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں ایک جھیل بن گئی ہے، جس کی طوالت 12 میل ہے۔ اس جھیل کے پانی میں اضافہ پریشان کن صورت اختیار کرچکا ہے۔ کئی قیمتی جانیں ڈوب چکی ہیں اور آئندہ بھی بہتری کی راہ نظر نہیں آتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ بند ٹوٹ جاتا ہے تو پانی کا ریلہ نشیبی علاقوں میں تباہی مچا دے گا اور تربیلا کو بھی خطرہ ہوگا، لہٰذا کسی نہ کسی طرح اس ذخیرے کو ختم کیا جائے۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے اور ہماری بدقسمتی۔ دنیا بھر کی بہت سی جھیلیں قدرتی پانی کے ذریعے وجود میں آئی ہیں، ورنہ تو میٹھے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے اربوں، کھربوں ڈالر کا ڈیم بنانا پڑتا۔
اب اللہ کی طرف سے یہ ایک انعام ہے، جسے سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب اپنے فرض اور کام سے کام کرنے والا مخلص ہو۔ لیکن اس کے برعکس اگر اخلاص میں کھوٹ ہو تب نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ اس کی وجہ اگر میٹھے پانی کے اتنے بڑے ذخیرے کے حصول کے لیے ایک کثیر زر مبادلہ خرچ ہوتا قرضہ اور سود کی لعنت کو گلے کا طوق بنانا ناگزیر ہوجاتا۔ لیکن پانی کے مسئلے سے چند لمحوں کے لیے اپنی توجہ ہٹا لیں، تو اندازہ ہوگا کہ اسلام کی بنیاد پر بننے والا ملک سب سے زیادہ سود کا کاروبار کرتا ہے۔ اسی وجہ سے مختلف شکلوں میں عذاب نما تکلیفیں بھگتنا پڑ رہی ہیں۔ ورنہ تو بجلی کے حصول کا آسان طریقہ تھا کہ پانی سے بجلی بناکر دوسرے علاقوں کو مہیا کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں، سیاستدانوں اور دانشوروں نے کوئی ایسا اجلاس پابندی سے نہیں بلایا کہ جس میں ملک کی ترقی کے لیے منصوبے بنائے اور ان پر عمل کیا جاتا، اسی وجہ سے ترقی کی راہوں پر دوڑتا ہوا ہمارا ملک تنزلی کی طرف گامزن ہوگیا ہے جب کہ ہمارا پڑوسی دشمن ملک پانی کے حوالے سے خودکفیل ہے اور آبی معاہدوں اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے سے نہیں چوکتا ہے۔ اور وہ خود ہندوستان کشمیر کے علاقے میں درجنوں ڈیم بناچکا ہے اس کے باوجود اس کی نگاہ دریائے سندھ پر بھی ہے اور جو پانی کے اعتبار سے ہماری شہ رگ ہے۔
ہندوستان نے وطیرہ بنالیا ہے کہ وہ ہر طرح کا ظلم روا رکھے اور مسلمانوں کے خون کو پانی کی طرح بہائے اور پانی جو زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کے بارے میں قرآن پاک کی سورۃ الملک میں فرمایا ہے کہ ''پانی زندگی کی علامت اور انتہائی ضروری ہے'' اللہ تعالیٰ نے زمین کو پانی کا مقررہ مقدار میں ذخیرہ عطا فرمایا ہے، آسمان سے ابر و باراں کا سلسلہ جاری فرما کر زمین سے طرح طرح کے پھل اور دیگر نباتات نکالیں، دور حاضر میں جب کہ خوردبین ایجاد ہوئی تو معلوم ہوا کہ زمین کی زرخیزی اور نباتات کی بالیدگی میں خوردبینی مخلوق یعنی بیکٹیریا، پروٹوزوا اور دیگر اسی قبیلے کی مخلوقات کا بے حد اہم کردار ہے۔
اس آیت میں پانی کے ساتھ ساتھ اسی لطیف بات کی طرف اشارہ ہے، سورۃ بقرہ کی آیت (29) میں جہاں تک پانی کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کرہ ارض کو کل 1,360,000 مکعب کلومیٹر پانی عطا فرمایا ہے، نہ ایک قطرہ زیادہ نہ کم۔ سبحان اللہ، الحمد اللہ! اللہ نے قطبین سے خط استوا تک ابرو باراں کا سلسلہ رواں کرکے آبی چکر Water Cycle چلا رکھے ہیں تاکہ عالم نباتات فروغ پاسکے۔ اس طرح نباتات کے ذریعے پورے کرۂ ارض پر رزق کی تقسیم اللہ نے جاری فرمائی۔ یقینی بات ہے پانی نہ ہو تو نباتات نہ ہوں اور زندگی کا وجود بھی نہ ہوتا۔ ''اقتباس قرآن مجید کی سائنسی تصریح، شفیع حیدر صدیقی''۔
اللہ نے تو اپنے بندوں کے لیے اپنی رحمتوں اور نعمتوں کو بلاتخصیص عطا فرمایا ہے لیکن حضرت انسان نے قدرتی نعمتوں پر محض طاقت کے بل پر اپنا حق جمالیا ہے۔ اور یہ بے حسی و ظلم کی انتہا ہے علامہ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا:
تغیر آگیا ایسا تدبیر میں تخیل میں
ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی
حیات تازہ اپنے ساتھ لائی تو تھی کیا کیا
رقابت، خودغرضی، ناشکیبائی، ہوسناکی
ایم ڈی واٹر بورڈ نے سابقہ ایم ڈی کی ہی طرح اپنے بیان میں کہا ہے کہ شہریوں کے حصے کا پانی کسی کو لینے نہیں دیں گے، نیز غیر قانونی کنکشن بلاتاخیر منقطع کردیے جائیںگے۔ اس بیان میں کتنی صداقت ہے، یہ وقت بتائے گا کہ وقت بہترین منصف ہے، کھرا، کھوٹا سامنے لے آتا ہے بس صبر کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹینکر مافیا کی چاندی، افسران بالا کی تبدیلی، ترقی اور تنزلی کے ہر دور میں رہی۔ ٹینکر سڑکوں پر دوڑتے اور گھروں گھروں پانی پہنچاتے اور اس آب حیات کے عوض ایک بھاری رقم بٹورتے رہے۔ مقتدر حضرات نے یہ بات پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ یہ پانی کہاں سے آتا ہے؟ جب کہ شہر میں بلکہ صوبے بھر میں پانی کی شدید کمی ہے۔ لیکن وہ یہ سوال کیوں کرسکتے ہیں؟ (جب کہ وہ خود اس ستم ظریفی میں شریک ہیں)۔
یہ بات بالکل اسی طرح ہے کہ غریب شخص کے منہ کا نوالا چھین کر اسے ہی فروخت کردیا جائے۔ عوام کے حصے کا پانی بھی انھی کو بیچ کر دیا جاتا ہے۔ اگر حکومت چاہے تو پاکستان کے تمام لوگوں کی محرومیاں ضرور ہوسکتی ہیں، انھیں، پانی، غذا، تعلیم اور علاج و معالجہ میسر آسکتا ہے۔
سائنس دانوں نے قلت آب کے مسائل کو حل کرنے کے لیے تحقیق و جستجو کے سہارے بہت سے راستے ایسے دریافت کیے ہیں جن پر چلنے سے پانی وافر مقدار میں حاصل کیا جاسکتا ہے اور جس چیز کی بھی مقدار میں زیادتی ہوتی جاتی ہے تو اس کے نرخ بھی کم ہوجاتے ہیں، تجارتی منڈیوں کا یہی اصول ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً ہر سال موسم برسات میں موسلا دھار بارش تباہی مچا دیتی ہے، پانی گھروں اور راستوں کو ڈبو دیتا ہے، بے شمار لوگ طوفانی ریلوں کی نذر ہوجاتے ہیں اور راستے دریا اور سمندر بن جاتے ہیں، پیدل چلنے والوں کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کہاں گڑھا یا کس جگہ گٹر ڈھکنوں سے آزاد ہیں۔ ایسی ہی غفلت سے بہت سی معصوم جانیں لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔
بلوچستان کی صورتحال کو لے لیجیے، ہر سال بلوچستان کے خشک اور بنجر علاقے سیلابی آفات میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور برسات کا پانی سمندر میں گر کر ضایع ہوجاتا ہے، یہی حال سندھ اور خصوصاً کراچی کا بھی ہے۔ اگر چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا لیے جائیں تو پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے ملکوں میں ایسا ہی ہوتا ہے، وہ برسات کے پانی کو صاف کرکے قابل استعمال بنا لیتے ہیں، اس طریقہ کار کے تحت ہم بھی پانی اکٹھا کرکے اپنے ریگستانوں کو سرسبز و شاداب بناسکتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر معین الدین احمد کے مضمون ''خدارا ہوش کے ناخن لیں'' سے چند سطور۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات ہنزہ کے نزدیک زلزلہ اور لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں ایک جھیل بن گئی ہے، جس کی طوالت 12 میل ہے۔ اس جھیل کے پانی میں اضافہ پریشان کن صورت اختیار کرچکا ہے۔ کئی قیمتی جانیں ڈوب چکی ہیں اور آئندہ بھی بہتری کی راہ نظر نہیں آتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ بند ٹوٹ جاتا ہے تو پانی کا ریلہ نشیبی علاقوں میں تباہی مچا دے گا اور تربیلا کو بھی خطرہ ہوگا، لہٰذا کسی نہ کسی طرح اس ذخیرے کو ختم کیا جائے۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے اور ہماری بدقسمتی۔ دنیا بھر کی بہت سی جھیلیں قدرتی پانی کے ذریعے وجود میں آئی ہیں، ورنہ تو میٹھے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے اربوں، کھربوں ڈالر کا ڈیم بنانا پڑتا۔
اب اللہ کی طرف سے یہ ایک انعام ہے، جسے سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب اپنے فرض اور کام سے کام کرنے والا مخلص ہو۔ لیکن اس کے برعکس اگر اخلاص میں کھوٹ ہو تب نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ اس کی وجہ اگر میٹھے پانی کے اتنے بڑے ذخیرے کے حصول کے لیے ایک کثیر زر مبادلہ خرچ ہوتا قرضہ اور سود کی لعنت کو گلے کا طوق بنانا ناگزیر ہوجاتا۔ لیکن پانی کے مسئلے سے چند لمحوں کے لیے اپنی توجہ ہٹا لیں، تو اندازہ ہوگا کہ اسلام کی بنیاد پر بننے والا ملک سب سے زیادہ سود کا کاروبار کرتا ہے۔ اسی وجہ سے مختلف شکلوں میں عذاب نما تکلیفیں بھگتنا پڑ رہی ہیں۔ ورنہ تو بجلی کے حصول کا آسان طریقہ تھا کہ پانی سے بجلی بناکر دوسرے علاقوں کو مہیا کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں، سیاستدانوں اور دانشوروں نے کوئی ایسا اجلاس پابندی سے نہیں بلایا کہ جس میں ملک کی ترقی کے لیے منصوبے بنائے اور ان پر عمل کیا جاتا، اسی وجہ سے ترقی کی راہوں پر دوڑتا ہوا ہمارا ملک تنزلی کی طرف گامزن ہوگیا ہے جب کہ ہمارا پڑوسی دشمن ملک پانی کے حوالے سے خودکفیل ہے اور آبی معاہدوں اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے سے نہیں چوکتا ہے۔ اور وہ خود ہندوستان کشمیر کے علاقے میں درجنوں ڈیم بناچکا ہے اس کے باوجود اس کی نگاہ دریائے سندھ پر بھی ہے اور جو پانی کے اعتبار سے ہماری شہ رگ ہے۔
ہندوستان نے وطیرہ بنالیا ہے کہ وہ ہر طرح کا ظلم روا رکھے اور مسلمانوں کے خون کو پانی کی طرح بہائے اور پانی جو زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کے بارے میں قرآن پاک کی سورۃ الملک میں فرمایا ہے کہ ''پانی زندگی کی علامت اور انتہائی ضروری ہے'' اللہ تعالیٰ نے زمین کو پانی کا مقررہ مقدار میں ذخیرہ عطا فرمایا ہے، آسمان سے ابر و باراں کا سلسلہ جاری فرما کر زمین سے طرح طرح کے پھل اور دیگر نباتات نکالیں، دور حاضر میں جب کہ خوردبین ایجاد ہوئی تو معلوم ہوا کہ زمین کی زرخیزی اور نباتات کی بالیدگی میں خوردبینی مخلوق یعنی بیکٹیریا، پروٹوزوا اور دیگر اسی قبیلے کی مخلوقات کا بے حد اہم کردار ہے۔
اس آیت میں پانی کے ساتھ ساتھ اسی لطیف بات کی طرف اشارہ ہے، سورۃ بقرہ کی آیت (29) میں جہاں تک پانی کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کرہ ارض کو کل 1,360,000 مکعب کلومیٹر پانی عطا فرمایا ہے، نہ ایک قطرہ زیادہ نہ کم۔ سبحان اللہ، الحمد اللہ! اللہ نے قطبین سے خط استوا تک ابرو باراں کا سلسلہ رواں کرکے آبی چکر Water Cycle چلا رکھے ہیں تاکہ عالم نباتات فروغ پاسکے۔ اس طرح نباتات کے ذریعے پورے کرۂ ارض پر رزق کی تقسیم اللہ نے جاری فرمائی۔ یقینی بات ہے پانی نہ ہو تو نباتات نہ ہوں اور زندگی کا وجود بھی نہ ہوتا۔ ''اقتباس قرآن مجید کی سائنسی تصریح، شفیع حیدر صدیقی''۔
اللہ نے تو اپنے بندوں کے لیے اپنی رحمتوں اور نعمتوں کو بلاتخصیص عطا فرمایا ہے لیکن حضرت انسان نے قدرتی نعمتوں پر محض طاقت کے بل پر اپنا حق جمالیا ہے۔ اور یہ بے حسی و ظلم کی انتہا ہے علامہ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا:
تغیر آگیا ایسا تدبیر میں تخیل میں
ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی
حیات تازہ اپنے ساتھ لائی تو تھی کیا کیا
رقابت، خودغرضی، ناشکیبائی، ہوسناکی
ایم ڈی واٹر بورڈ نے سابقہ ایم ڈی کی ہی طرح اپنے بیان میں کہا ہے کہ شہریوں کے حصے کا پانی کسی کو لینے نہیں دیں گے، نیز غیر قانونی کنکشن بلاتاخیر منقطع کردیے جائیںگے۔ اس بیان میں کتنی صداقت ہے، یہ وقت بتائے گا کہ وقت بہترین منصف ہے، کھرا، کھوٹا سامنے لے آتا ہے بس صبر کرنے کی ضرورت ہے۔