نوحۂ غم
مشترکہ اپوزیشن نے فیصلے سے پہلے تو کہا تھا کہ وہ عدالت کا فیصلہ مانیں گے۔
ایک سال کے ہنگامے، سیاستدانوں کی جانب سے بھانت بھانت کی بولیاں اور عوام کے روز روز کے بحث و مباحثے اور ہمارے عوام جو کہ اسی طرح کے ماحول کے اب عادی بن چکے ہیں چنانچہ جب بھی ان کو کہیں سے اپنی زندگی میں بہتری کی کوئی نوید نظر آئے تو یہ اپنی توقعات کو آسمان تک پہنچا دیتے ہیں اور اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ ان کی خواہشات کے مطابق حالات بد لیں گے لیکن ہر دفعہ انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایک اور چوٹ کھانے کے بعد وہ ایک اور چوٹ کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے لگ جاتے ہیں۔
بات شروع کرنا چاہ رہا تھا کہ ہماری سپریم کورٹ نے پاکستان کے ایک اور وزیر اعظم کے بارے میں مقدمے کا فیصلہ دو تین کے تناسب سے سنا دیا ہے اور اس میں جیسا کہ اب سب پاکستانی یہ تفصیلی فیصلہ پڑھ اور سن چکے ہیں دو محترم ججوں نے اپنا فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم صادق و امین نہیں رہے جب کہ باقی تین معزز جج صاحبان نے اپنی کوئی رائے مزید تحقیقات تک محفوظ کر لی اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا اعلان کیا جس میں دو فوجی نمائندے ہیں جب کہ باقی سویلین نمائندے شامل ہوں گے۔
میں نہ تو کوئی قانون دان ہوں اور نہ مجھے قانون کے بارے کوئی خاص معلومات حاصل ہیں اس لیے میں بھی باقی تین معزز جج صاحبان کے مطابق اپنی رائے محفوظ کر لیتا ہوں جس طرح تقریباً دو ماہ تک اس مشہور معروف کیس کا فیصلہ محفوظ رہا اور اس کے بارے لطیفے تک پڑھنے کو ملے اور اب ایک بار پھر سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق دو ماہ کے بعد یہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اپنی تحقیقات کی رپورٹ پیش کرے گی جو کہ اس ملک کے بااثر ترین شخص یعنی وزیر اعظم پاکستان اور ان کے صاحبزادگان سے متعلق ہے اور اس سویلین کم فوجی تحقیقات کے نتیجہ میں باقی تین معزز جج صاحبان نے بھی اپنا فیصلہ سنانا ہے لیکن اگر اس تحقیقاتی ٹیم نے بھی آپس میں اتفاق رائے نہ کیا تو پھر کیا ہو گا یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں خدشات بھی ہیں اور اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں کیونکہ ہم آج تک اس طرح کی تحقیقاتی ٹیموں کی کارکردگی دیکھتے آئے ہیں اور ان کے بارے میں اگر خدشات کا اظہار کیا جا رہا تو وہ کسی حد تک درست بھی ہے۔
مشترکہ اپوزیشن نے فیصلے سے پہلے تو کہا تھا کہ وہ عدالت کا فیصلہ مانیں گے لیکن اب تحقیقاتی ٹیم بننے کے بعد انھوں نے اس کی متوقع کارکردگی پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ججوں پر مشتمل ٹیم بنائی جائے کیونکہ وہ سرکاری اداروں کے ملازمین پر مشتمل تحقیاتی ٹیم پر مطمئن نہیں ہیں چونکہ یہ سویلین ادارے براہ راست حکومت کے ماتحت کام کرتے ہیں وہ یہ تحقیقات کیونکر کر پائیں گے کیونکہ اس میں براہِ راست اس ملک کی باثر ترین شخصیت اور اس کا خاندان ملوث ہے۔
تحقیقات کو صاف و شفاف بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان اداروں پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہو اور ان کو آزادانہ ماحول فراہم کیا جائے جو کہ کسی صورت میں ممکن نظر نہیں آتا اور اس کی وجہ ہم سب کو معلوم بھی ہے اور اس طرح کے تجربات و تحقیقات سے ہم پہلے بھی گزر چکے ہیں اور قوم کو ایک بار پھر اس سے امیدیں باندھنے کو کہا جا رہا ہے جہاں سے وہ پہلے بھی کئی بار مایوسی کا شکار ہو چکی ہے۔
اپوزیشن کی تمام بااثر جماعتوں نے اس فیصلے کے بعد وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا جس کو وزیر اعظم کے ترجمانوں نے نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ کہا گیا کہ ہم تو کیس جیت چکے ہیں کیا استعفیٰ بھی ہم ہی دیں۔ لیکن اس کے بارے میں اپوزیشن کا موقف وہی ہے جو اس ملک کے عوام کا ہے کہ صاف اور شفاف تحقیقات کے لیے وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی دو ماہ کی مہلت کے دوران اپنے منصب سے الگ ہو جانا چاہیے۔
سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے اور اس میں کوئی اصول و ضابطے مستقل نہیں ہوتے اور نہ ہی سیاستدان اپنی باتوں اور وعدوں کا پاس اور بھرم رکھتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اگر انھیں اپنے ہی وعدے اور باتیں یاد دلائی جائیں تو یہ سیاست دان یہ کہہ کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن برُا ہو موجودہ صحافتی دور اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کا جس نے ان سیاستدانوں کو بے نقاب کر دیا ہے اور جو موقع پر ہی ان کو ان کی قسمیں اور وعدے یاد دلا دیتا ہے لیکن یہ سیاستدان پھر بھی اس سے ادھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔
بات پاناما کیس سے شروع ہو ئی تھی اور سیاستدانوں کی چالاکیوں کی طرف نکل گئی کیونکہ ان ہی کی ان چالاکیوں کی وجہ سے ہی ہم آج اس حال کو پہنچے ہیں اور جہاں تک شفاف تحقیقات کی بات ہے تو پاکستان کے پچھلے دور کے ایک وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بارے میں ہونے والی اسی طرح کی تحقیقات کے بارے میں ہمارے موجودہ وزیر اعظم نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی کرسی چھوڑ دیں تا کہ تحقیقات کے عمل کو شفاف بنایا جا سکے۔
یہاں تک تو بات درست تھی لیکن جب اپنے پر بن آئے تو یہ سیاستدان اپنی سیاسی زبان کا سہارا تلاش کرتے ہیں اور اس کے لیے کئی نئی منطقیں ان کی پٹاری سے برآمد ہو جاتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اور یہ بات پاکستان کی تاریخ میں یاد رکھی جائے کہ ایک منتخب وزیر اعظم نے اپنے آپ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا اور پھر اس فیصلے کو قبول بھی کیا بجائے اس کے کہ ملک میں انتشار کی کوئی صورت پیدا کی جائے اور یہ کہا جائے کہ قائد تیرا ایک اشارہ، حاضر حاضر لہو ہما را۔
ہمارے ملک کی رونقیں بقول دلی والے غالبؔ
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
ہم سب اب ان ہنگاموں کے عادی ہو چکے ہیں اور اپنے آپ کو حکومتوں کی جانب سے دی گئی پریشانیوں سے دور رکھنے کے لیے ان ہی ہنگاموں میں پناہ کی تلاش میں رہتے ہیں اور ان سے زیادہ تر ہمیں نوحۂ غم ہی ملتا ہے اور ہم پھر اس امید پہ کہ کوئی خوشی ہمارے مقدر میں بھی ہو گی کسی نئے نوحے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لیتے ہیں۔
بات شروع کرنا چاہ رہا تھا کہ ہماری سپریم کورٹ نے پاکستان کے ایک اور وزیر اعظم کے بارے میں مقدمے کا فیصلہ دو تین کے تناسب سے سنا دیا ہے اور اس میں جیسا کہ اب سب پاکستانی یہ تفصیلی فیصلہ پڑھ اور سن چکے ہیں دو محترم ججوں نے اپنا فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم صادق و امین نہیں رہے جب کہ باقی تین معزز جج صاحبان نے اپنی کوئی رائے مزید تحقیقات تک محفوظ کر لی اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا اعلان کیا جس میں دو فوجی نمائندے ہیں جب کہ باقی سویلین نمائندے شامل ہوں گے۔
میں نہ تو کوئی قانون دان ہوں اور نہ مجھے قانون کے بارے کوئی خاص معلومات حاصل ہیں اس لیے میں بھی باقی تین معزز جج صاحبان کے مطابق اپنی رائے محفوظ کر لیتا ہوں جس طرح تقریباً دو ماہ تک اس مشہور معروف کیس کا فیصلہ محفوظ رہا اور اس کے بارے لطیفے تک پڑھنے کو ملے اور اب ایک بار پھر سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق دو ماہ کے بعد یہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اپنی تحقیقات کی رپورٹ پیش کرے گی جو کہ اس ملک کے بااثر ترین شخص یعنی وزیر اعظم پاکستان اور ان کے صاحبزادگان سے متعلق ہے اور اس سویلین کم فوجی تحقیقات کے نتیجہ میں باقی تین معزز جج صاحبان نے بھی اپنا فیصلہ سنانا ہے لیکن اگر اس تحقیقاتی ٹیم نے بھی آپس میں اتفاق رائے نہ کیا تو پھر کیا ہو گا یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں خدشات بھی ہیں اور اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں کیونکہ ہم آج تک اس طرح کی تحقیقاتی ٹیموں کی کارکردگی دیکھتے آئے ہیں اور ان کے بارے میں اگر خدشات کا اظہار کیا جا رہا تو وہ کسی حد تک درست بھی ہے۔
مشترکہ اپوزیشن نے فیصلے سے پہلے تو کہا تھا کہ وہ عدالت کا فیصلہ مانیں گے لیکن اب تحقیقاتی ٹیم بننے کے بعد انھوں نے اس کی متوقع کارکردگی پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ججوں پر مشتمل ٹیم بنائی جائے کیونکہ وہ سرکاری اداروں کے ملازمین پر مشتمل تحقیاتی ٹیم پر مطمئن نہیں ہیں چونکہ یہ سویلین ادارے براہ راست حکومت کے ماتحت کام کرتے ہیں وہ یہ تحقیقات کیونکر کر پائیں گے کیونکہ اس میں براہِ راست اس ملک کی باثر ترین شخصیت اور اس کا خاندان ملوث ہے۔
تحقیقات کو صاف و شفاف بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان اداروں پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہو اور ان کو آزادانہ ماحول فراہم کیا جائے جو کہ کسی صورت میں ممکن نظر نہیں آتا اور اس کی وجہ ہم سب کو معلوم بھی ہے اور اس طرح کے تجربات و تحقیقات سے ہم پہلے بھی گزر چکے ہیں اور قوم کو ایک بار پھر اس سے امیدیں باندھنے کو کہا جا رہا ہے جہاں سے وہ پہلے بھی کئی بار مایوسی کا شکار ہو چکی ہے۔
اپوزیشن کی تمام بااثر جماعتوں نے اس فیصلے کے بعد وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا جس کو وزیر اعظم کے ترجمانوں نے نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ کہا گیا کہ ہم تو کیس جیت چکے ہیں کیا استعفیٰ بھی ہم ہی دیں۔ لیکن اس کے بارے میں اپوزیشن کا موقف وہی ہے جو اس ملک کے عوام کا ہے کہ صاف اور شفاف تحقیقات کے لیے وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی دو ماہ کی مہلت کے دوران اپنے منصب سے الگ ہو جانا چاہیے۔
سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے اور اس میں کوئی اصول و ضابطے مستقل نہیں ہوتے اور نہ ہی سیاستدان اپنی باتوں اور وعدوں کا پاس اور بھرم رکھتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اگر انھیں اپنے ہی وعدے اور باتیں یاد دلائی جائیں تو یہ سیاست دان یہ کہہ کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن برُا ہو موجودہ صحافتی دور اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کا جس نے ان سیاستدانوں کو بے نقاب کر دیا ہے اور جو موقع پر ہی ان کو ان کی قسمیں اور وعدے یاد دلا دیتا ہے لیکن یہ سیاستدان پھر بھی اس سے ادھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔
بات پاناما کیس سے شروع ہو ئی تھی اور سیاستدانوں کی چالاکیوں کی طرف نکل گئی کیونکہ ان ہی کی ان چالاکیوں کی وجہ سے ہی ہم آج اس حال کو پہنچے ہیں اور جہاں تک شفاف تحقیقات کی بات ہے تو پاکستان کے پچھلے دور کے ایک وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بارے میں ہونے والی اسی طرح کی تحقیقات کے بارے میں ہمارے موجودہ وزیر اعظم نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی کرسی چھوڑ دیں تا کہ تحقیقات کے عمل کو شفاف بنایا جا سکے۔
یہاں تک تو بات درست تھی لیکن جب اپنے پر بن آئے تو یہ سیاستدان اپنی سیاسی زبان کا سہارا تلاش کرتے ہیں اور اس کے لیے کئی نئی منطقیں ان کی پٹاری سے برآمد ہو جاتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اور یہ بات پاکستان کی تاریخ میں یاد رکھی جائے کہ ایک منتخب وزیر اعظم نے اپنے آپ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا اور پھر اس فیصلے کو قبول بھی کیا بجائے اس کے کہ ملک میں انتشار کی کوئی صورت پیدا کی جائے اور یہ کہا جائے کہ قائد تیرا ایک اشارہ، حاضر حاضر لہو ہما را۔
ہمارے ملک کی رونقیں بقول دلی والے غالبؔ
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
ہم سب اب ان ہنگاموں کے عادی ہو چکے ہیں اور اپنے آپ کو حکومتوں کی جانب سے دی گئی پریشانیوں سے دور رکھنے کے لیے ان ہی ہنگاموں میں پناہ کی تلاش میں رہتے ہیں اور ان سے زیادہ تر ہمیں نوحۂ غم ہی ملتا ہے اور ہم پھر اس امید پہ کہ کوئی خوشی ہمارے مقدر میں بھی ہو گی کسی نئے نوحے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لیتے ہیں۔