میری نظرمیں بیٹی بیٹوں سے بڑھ کرہے شتروگھن سنہا

جس طرح سے سلمان اور ارباز خان نے سوناکشی کو فلم میں کام کرنے کیلئے ہم سے مانگا ہم انکار نہ کر سکے.

’’دعا ہے کہ پاکستان اور بھارت سے غربت، بے روزگاری اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو‘‘شترو گھن سنہا۔ فوٹو : فائل

پاکستانیوں کی مہمان نوازی تو پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہاں جو اک بار چلا آتا ہے پھر وہ بار بار آئے نہیں رہ پاتا۔

پاکستان میں مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کا انداز اتنا والہانہ ہوتا ہے کہ اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ پھر مہمانوں کی خاطر تواضع اپنی ثقافت کے مطابق اُس کھلے دل سے کی جاتی ہے کہ وہ کوئی بھی بھلا نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان یاترا کرنے والا چاہے وہ مغربی ممالک سے ہو یا مشرقی وہ دوبارہ یہاں آنے کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ چاہے مختصر دورے پر پاکستان آئے مگر اپنی تمام عمر پاک وطن کے بسنے والوں کی مہمان نوازی کی مثال دیتا رہتا ہے۔ پاکستان کے کسی بھی شہر، گائوں میں چلے جائیں وہاں پر مہمانوں کو بہت عزت دی جاتی ہے۔ لذیز پکوانوں سے تواضح ہوتی ہے اور پھر اپنے علاقے کی عکاسی کرتے تحائف بھی دیئے جاتے ہیں جن کو لوگ برسوں یاد رکھتے ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں کے دوران ویسے تو سیاسی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے کہ بہت سی غیر ملکی اہم شخصیات ''اہم'' منصوبوں کے تحت پاکستان آرہی ہیں جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت سے آنے والوں میں زیادہ بڑی تعداد فنکاروں کی ہے۔ جس فنکار نے بھی ایک مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا پھر وہ یہاں کا ہی ہو کر رہ گیا۔ اس کی متعدد مثالیں بھی موجود ہیں۔ بالی وڈ کے ورسٹائل اداکار نصیرالدین شاہ، شتروگھن سنہا، بھارتی بھنگڑا کنگ دلیرسنگھ مہدی، گلوکار ہنس راج ہنس، معروف ہدایتکار مہیش بھٹ، اداکار راج ببر، شردکپور، رتنا پھاٹک شاہ اور نادرہ ببر سمیت دیگر شامل ہیں۔ ان فنکاروں کی فہرست میں ایک نام جو اس حوالے سے بہت اہم ہے وہ شتروگھن سنہا کا ہے جو گزشتہ 30 برس کے دوران متعدد بار پاکستان آچکے ہیں اور ہر مرتبہ ان کی محبت اور چاہت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہیں یہاں پر مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ اتنا پیار اور عزت ملتی ہے کہ پھر وہ اس چاہت کیلئے دوبارہ پاکستان آجاتے ہیں۔

چند روز قبل بھی شتروگھن سنہا، سابق صدرضیاء الحق مرحوم کے پوتے اور اعجازالحق کے بیٹے کی شادی میں شرکت کیلئے خاص طور پر پاکستان پہنچے۔ اس دوران بھی ان کا مختصر دورہ ہمیشہ کی طرح بہت مصروف رہا۔ ان کے چاہنے والوں نے وقتاً فوقتاً پرتکلف دعوتوں کا اہتمام کیا جبکہ ان کی آمد پر اپنی تمام تر مصروفیات کو ترک کرکے ٹی وی کے معروف اداکار و پروڈیوسر حسن سومرو اور کیپٹن (ر) انیس بھی ان کے ساتھ رہے۔ حسن سومرو نے ان کے اعزاز میں لاہور میں ایک تقریب کا بھی اہتمام کیا جس میں شوبز کی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ چاہت کی ایک چھوٹی سی مثال یہ بھی ہے جو شتروگھن سنہا کو پاکستان آنے پر بار بار مجبور کر دیتی ہے۔ پاکستان میں مختصر قیام کے دوران شتروگھن سنہا نے ''نمائندہ ایکسپریس'' کو تفصیلی انٹرویو بھی دیا جس میں انہوں نے پاکستان سے اپنا تعلق، سیاسی منظر، کرکٹ اور اپنی بیٹی معروف اداکارہ سوناکشی سنہا کے حوالے سے دلچسپ گفتگو کی جو قارئین کی نذرہے۔

بالی وڈ سٹار اور اہم سیاسی شخصیت شتروگھن سنہا نے کہا کہ میری بیٹی سوناکشی سنہا نے اپنے کیریئر کے آغاز میں ہی ایسا انوکھا ریکارڈ قائم کر دیا ہے جس پر مجھے اور میری پوری فیملی کو فخر ہے۔ پہلی چار فلموں کا 100/100 کروڑ سے زائد بزنس کرنا، کسی ہیروئن یا ہیروکے کریڈٹ میں نہیں آیا۔ اس حوالے سے میں تو بس اتنا ہی کہوں گا کہ سوناکشی کے باپ کی فلموں نے کبھی اتنا اچھا بزنس نہیں کیا لیکن بیٹی باپ سے بہت آگے جا رہی ہے۔

وہ جہاں فلموں میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے وہیں اپنے خاندان، میرے نام اور اپنی ثقافتی اور سماجی قدروں کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا کام کر رہی ہے جسے دیکھ کرمجھے شرمندہ نہیں ہونا پڑتا۔ وہ بہت مختلف اور منفرد کام کر رہی ہے جس کی وجہ سے میں جہاں بھی جائوں ہر کوئی سوناکشی کے بارے میں پوچھتا ہے اور اس کیلئے نیک تمنائوں کا پیغام دیتا ہے۔ سوناکشی کی شخصیت میں ماں کی خوبصورتی اور باپ کا اعتماد دکھائی دیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیٹی کو فلموں میں کام کرنے کی اجازت کیوں دی؟ جس پر میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ جب میرے بیٹے لو اور کش فلموں میں کام کر سکتے ہیں تو بیٹی کیوں نہیں؟ میری نظر میں تو بیٹی، بیٹوں سے بڑھ کر ہے۔

سوناکشی نے فیشن اینڈ ڈیزائن کی ڈگری حاصل کی اور فیشن ڈیزائنر کے طور پر کام کرنا چاہتی تھی لیکن سلمان خان فیملی سے ہمارے بہت اچھے تعلقات تھے اور جس طرح سے سلمان اور ارباز خان نے سوناکشی کو فلم میں کام کرنے کیلئے ہم سے مانگا ہم انکار نہ کر سکے۔ سلمان خان تو اکثر پروگراموں میں یہ کہتے ہیں کہ سوناکشی کو دیکھنے کے بعد لوگ یہ کہنے لگیں کہ ہماری بیٹی، بہن سوناکشی جیسی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سوناکشی نے فلموں میں کامیابی ملنے کے بعد روایتی ڈگر پر چلنے کے بجائے ایسی فلمیں سائن کی ہیں جس کو دیکھ کر مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ کوئی میرے نام، خاندان کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کرے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان بہت خوبصورت دیش ہے، میری بیوی کے دادا یہاں پر ڈی ایس پی تھے لیکن میرا دور دور تک کوئی بھی رشتہ دار پاکستان سے نہیں تھا۔ میں پہلی مرتبہ جب پاکستان آیا تو سابق صدر ضیاء الحق مرحوم کی فیملی سے میرا رشتہ قائم ہوا۔ ان کی بیٹی زین میری بہن بنی اور یہ تعلق آج تک قائم ہے۔ اسی طرح اداکار حسن سومرو کی فیملی اور کیپٹن (ر) انیس سمیت دیگر دوستوں سے ایسا رشتہ بن چکا ہے جس میں دن بدن مضبوطی پیدا ہو رہی ہے۔ میں نے ہمیشہ رشتہ جوڑا ہے توڑا نہیں۔ اس مرتبہ بھی بہت سے نئے دوستوں سے ملاقات ہوئی جن کی شخصیت اور ان مہمان نوازی نے ماضی کی بہت سی یادوں کو تازہ کر دیا۔ اب ان سے بننے والا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹ پائے گا۔ پاکستانی اداکار حسن سومرو بالکل چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں۔ وہ بہترین فنکار اور بہت عمدہ انسان ہیں۔ ان کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرتا ہے اور وہ اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے میرے ساتھ رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان آنے کو باربار دل چاہتا ہے اور میں ڈاکٹروں کی جانب سے منع کرنے کے باوجود بھی پاکستان آیا۔ ایک طرف تو میرے بھائی اعجاز الحق کے بیٹے کی شادی تھی اور دوسری طرف حسن سومرو اور کیپٹن انیس جیسے دوستوں سے ملنے کا من بھی تھا۔


فنی زندگی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'شارٹ گن شو' بہت کامیاب اور اچھا رہا۔ ہم نے کچھ سال مذکورہ شو ایک چینل پر چلایا اور پھر دوسرے چینل پر لے گئے لیکن میری مصروفیت بڑھنے لگی جس کی وجہ سے میں اس کو مزید جاری نہ رکھ سکا۔ حالانکہ شوکوبہت پسند کیا جارہا تھا اورلوگ چاہتے تھے کہ میں اس شو کو جاری رکھوں مگر میری فنی مصروفیات اس قدرتھیں کہ اس کوجاری رکھنا اس وقت ممکن نہ تھا۔ اس شو کی کامیابی کیلئے میں نے بہت محنت کی، تب کہیں جاکر لوگوں کو میرا انداز پسند آیا اور اس کازبردست رسپانس ملا۔ اس شو میں ہم مختلف ایشو اجاگر کرتے تھے۔ میں اس کیلئے بہت تحقیق کرتا اور پھر موضوع کے اعتبارسے اہم سیاسی اورسماجی شخصیات کو مدعو کرتا۔ ہوسکتا ہے کہ میں اس شوکودوبارہ سے کروں۔ مجھے آفرزتوہیں اور اگرکسی پاکستانی چینل کی طرف سے بھی آفر ہوئی تومیں ضرورکام کروںگا۔

میں اپنے شوکے ذریعے لوگوںکوایجوکیٹ کرنا چاہتا ہوں اوراگر ایسا کوئی شومجھے بطورمیزبان آفرہوا تووہ میری اولین ترجیح ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میں کرکٹ کا ماہرنہیں، اس لئے میری رائے اتنی اہم نہیں ہوگی، مگرمیچ میں ہارجیت کا فیصلہ تو بہتر کھیل سے ہی ہوتا ہے۔ جو ٹیم میچ میں بہترین کھیل پیش کرتی ہے وہ جیت جاتی ہے۔ پاکستانی ٹیم نے بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا اورفتح سے ہمکنارہوئے جس پر میں پوری پاکستانی قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ چند برس قبل تک پاک، بھارت کے درمیان کھیلے جانے والے میچ کے دوران بہت ٹینشن ہوتی تھی۔ لوگ بہت منفی انداز سے میچ دیکھتے تھے۔ اس کی چند وجوہات بھی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔

بھارت کی ٹیم پاکستان آئی تو سٹیڈیم میں پاکستانیوں نے ان کا والہانہ استقبال کیااوراسی طرح جب پاکستانی ٹیم بھارت پہنچی تو ان کا بھی سٹیڈیم میں بھرپوراستقبال کیا گیا۔ یہ سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا اوراب لوگوںکی سوچ تبدیل ہو رہی ہے۔ لاہور میں ہونے والے ایک میچ میں تومیں خود موجود تھا اس لئے میں سنی سنائی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی مثال دے رہا ہوں۔ لاہوریوں نے بھارتی کھلاڑیوں کی جس طرح مہمان نوازی کی، مارکیٹوں میں دکانداروں نے تحائف دیئے اور اس حوالے سے بڑی بڑی رپورٹس بھارتی اخبارات اور چینلزپرپیش کی گئیں۔

جس کے بہتراثرات پاک، بھارت تعلقات پر مرتب ہوئے۔ اسی طرح اب صورتحال کچھ ایسی بہتر دکھائی دے رہی ہے کہ ویزا پالیسی میں نرمی آچکی ہے، سیاحت اور تجارت میں اضافہ ہورہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کوپلکوں پربٹھارہے ہیں اورنزدیک آرہے ہیں۔ جہاں تک بات بھارت کی ٹیم کے پاکستان دورہ کرنے کی ہے تومیں سمجھتا ہوں کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کو پاکستان میں سیریز کھیلنے کا فیصلہ کرنا چاہئے ۔ اس سے بھی دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔

شتروگھن سنہا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کرپشن کا سوسائٹی میں کوئی چہرہ نہیں ہے۔ کرپشن کی وجہ سے غریب لوگ پس رہے ہیں۔ اس خطے میںکچھ باتیں بہت مطابقت رکھتی ہیں، دونوں ملکوں میں مفلسی، غربت، بیروزگاری، بھوک بہت زیادہ ہے ۔ لوگوں کو انصاف ملنا چاہئے اوروہ دکھنا بھی چاہئے۔ معاشرے میں سدھاربہت ضروری ہے۔ بھارت اور پاکستان کی عوام میں ایک زبردست شعوراجاگرہوچکا ہے۔ لوگوں کو اپنے حقوق کا پتہ چل رہا ہے اورلوگ اس کیلئے آواز بھی اٹھارہے ہیں۔ کرپشن نے ہم سب کوایک کر دیا ہے۔ سب کے مسائل ایک سے ہیں اوراس کے خلاف آواز اٹھانے میں جہاں اناہزارے جیسے لوگ بھارت میں موجود ہیں تو پاکستان میں بھی بہت سے لوگ کام کررہے ہیں۔

عبدالستارایدھی جیسے لوگ ہیں جو بھارت میں بھی یکساں مقبول ہیں۔ بھارت میں بھی ان کے فلاحی کاموں کے بہت چرچے ہیں۔ سیاسی چالوں اور پیشرفت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ''جوان کا کام ہے وہ اہل سیاست جانیں، میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے''۔ یہ میرا نجی دورہ ہے اورمیں اس وقت کسی سیاسی جماعت کے رہنما کی حیثیت سے پاکستان میں نہیں ہوں۔ اس لئے میں نے پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں جاکر کبھی کوئی ایسا بیان نہیں دیا جس سے تنازع کھڑا ہوجائے۔ میں توامن، محبت اور بھائی چارے کی بات کرتاہوں اور سیاست کے بارے میں فی الوقت کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ البتہ اتنا ضرور کہنا چاہوں گاکہ اس وقت ہم دونوں ملکوںکا بڑا مسئلہ جنگ نہیں بلکہ غربت، بیروزگاری، تعلیم، مختلف وبائی امراض اوردیگرمسائل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات میںتمام سیاسی جماعت اوراس کے نمائندگے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے سبزباغ دکھاتے ہے مگرجونہی انتخابات میں جیت ملتی ہے پھر وہ اپنے تمام وعدوں کو بھول جاتے ہیں لیکن اب لوگوںکی سوچ بدل رہی ہے۔ اب بڑے پیمانے پرگھپلا نہیں کیا جاسکتا۔ سول سوسائٹی نے اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کیا اورخاص طورپر میڈیا نے لوگوں میں خوب شعور اجاگرکیا ہے۔

انٹرویو کے اختتام پرشتروگھن سنہا نے کہا کہ پاکستان سے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بہت سا پیار لے کربھارت جائوں گا اورجو محبتوںبھرا پیغام مجھے پاکستانی قوم کی جانب سے ملا ہے وہ اپنے دیش کے کونے کونے تک پہنچائوں گا۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہترہوجائیں، ویزا پالیسی میں اتنی نرمی ہوجائے کہ لوگ باآسانی آجاسکیں۔ دونوں ممالک میں تجارتی تعلقات مستحکم ہوں اورہم مل کراپنے ملکوںکوترقی کی نئی راہوں پر لے جا سکیں۔ جہاں تک بات فنون لطیفہ کی ہے تو پاکستان اوربھارت کے لیجنڈ فنکاروں نے اپنے بہترین کام سے لوگوں میں نفرتوںکو کم کیا ہے اورآنے والی نسل کو بھی اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ میں دعاگوہوں کہ پاکستان اور بھارت سے بیروزگاری، غربت اوردہشت گردی کا خاتمہ ہو اور دونوں ملک امن کا گہواربن جائیں۔
Load Next Story