دہشتگردی پاک افغان مشترکہ آپریشن کی ضرورت

پاکستان اور افغانستان دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو جائیں


Editorial April 24, 2017
: فوٹو: فائل

افغانستان کے شمالی صوبہ بلخ کے صدر مقام مزار شریف میں جمعے کو فوجی کیمپ پر ہونے والے حملے میں مرنے والے افغان فوجیوں کی تعداد 170 ہوگئی ہے جب کہ متعدد زخمی فوجیوں کی حالت تشویشناک ہے جس کے باعث ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم افغان حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں' یہ مشکل وقت ہمارے لیے اہم ہے' حملوں نے دہشت گردی کے خلاف ہمارے عزم کو مضبوط کیا ہے' افغان حکومت ہمیشہ شرپسندی کے خلاف ہمارے ساتھ رہی' یقین دلاتے ہیں کہ امن و استحکام کی کوششوں میں کھڑے رہیں گے اور جب پڑوسی محفوظ ہوں تو ہم بھی محفوظ ہوں گے۔

پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ دہشت گرد ہمارے مشترکہ دشمن ہیں' ہمیں ان کو شکست دینا ہے اور ان کو شکست دیں گے' دکھ کی اس گھڑی میں ہم بہادر افغان قوم کے ساتھ کھڑے ہیں' انھوں نے افغان سیکیورٹی فورسز کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی ایک بیان میں افغانستان کی حکومت' عوام اور سوگوار خاندانوں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہر قسم کی دہشت گردی کی سختی سے مذمت کی ہے' دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغان حکومت اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔

افغانستان میں ہونے والا حالیہ حملہ یقیناً افسوسناک ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہاں جنگجو اب بھی موثر قوت رکھتے ہیں اور وہ کسی بھی وقت حملہ کرکے افغان حکومت اور فوج کو نقصان پہنچا سکتے ہیں' وہ اس سے پیشتر بھی افغان فوج پر متعدد بار حملے کر چکے اور ان کی جانب سے مزید حملوں کے خدشات بدستور موجود ہیں لہٰذا ان حالات میں افغان حکومت اور فوج کو پہلے سے زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

افغانستان میں جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس امریکی اور اتحادی افواج موجود ہیں جنہوں نے بڑے پیمانے پر افغان آرمی کو بھی تربیت دی ہے، ایسے میں جنگجوؤں کی جانب سے بڑے پیمانے پر حملے اور ہلاکتیں بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہیں۔ امریکی اور اتحادی افواج ایک عرصے سے افغانستان میں جنگجوؤں سے لڑ رہی ہیں اور انھوں نے اس لڑائی میں جدید ترین ہتھیاروں کا استعمال کر کے بڑی تعداد میں جنگجوؤں کو ہلاک اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ بھی کیا ہے مگر یہ لڑائی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی جا رہی ہے۔

افغانستان میں دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو افغانستان اور پاکستان دونوں کی سلامتی اور امن کے لیے مستقلاً خطرہ بن چکے ہیں۔افغانستان میں موجود دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر کارروائیاں کرتیاور فرار ہو جاتے ہیں۔وہاں فضل اللہ اور دیگر افراد پاکستان کی سلامتی کے لیے مسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

پاکستان متعدد بار افغان حکومت کو یہ پیشکش کر چکا کہ خطے میں قیام امن کے لیے ناگزیر ہے کہ پاکستان اور افغانستان مشترکہ طور پر امن کے دشمنوں کے خلاف کارروائی کریں اور اس سلسلے میں کسی قسم کی رو رعایت نہ کی جائے۔ مگر افغان حکومت ابھی تک اس کا فیصلہ نہیں کر سکی، اگر وہ خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے پاکستان کی اس پیشکش پر فوری عمل کرنا چاہیے۔

پاکستان نے شمالی وزیرستان اور دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن کر کے وہاں امن قائم کرکے پوری دنیا کے لیے مثال قائم کر دی ہے' اگر افغان حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کرتی ہے تو اس کا فائدہ دونوں ممالک کو پہنچے گا اور خطے میں موجود دہشت گردی کے خطرات میں نمایاں کمی آئے گی۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے بالکل درست کہا ہے کہ جب پڑوسی محفوظ ہوں گے تو ہم بھی محفوظ ہوں گے۔

افغان حکومت کو اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے اور کسی غیرملکی قوت کے دھوکے میں آ کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور الزامات کا سلسلہ فی الفور بند کر کے دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا چاہیے۔ الزامات کی سیاست سے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔اگر افغان حکومت نے یہی رویہ جاری رکھا تو وہاں مزید حملوں کے خطرات کو رد نہیں کیا جا سکتا لہٰذا زمینی حقائق اس امر کا فوری تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو جائیں اور جو قوتیں اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں انھیں ناکام بنا دیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں