انسانیت کے علمبردار کنور رام

اب اس نظام میں کسی قسم کی پیوندکاری یعنی اصلاح کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔

zb0322-2284142@gmail.com

INDIANA:
اس طبقاتی، نسل پرستی اور فرقہ واریت والے سماج میں نسل انسانی کی برابری کی بات کرنا ایک جانب عظیم جدوجہد ہے تو دوسر ی جانب اسے نیچ، اچھوت اور کمتر سمجھا جاتا ہے۔ یہی تضاد، خیر اور شر کا تضاد ہے۔ اس عالم انسانی کا درس دینے والے صرف سندھ میں نہیں، پورے برصغیر، ایشیا اور دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔

مولانا رومی سے لے کر گوئٹے تک اور لالن شاہ فقیر سے لے کر بھگت کنور رام تک۔ ان سب نے نسل انسانی کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جن میں کچھ لوگوں نے معاشی برابری کی بھی کوشش کی ہے، جیسا کہ صوفی عنایت اللہ شاہ شہید۔ بھگت رام بھی انسانیت کو ایک دھارے میں ڈالنے کی کوشش میں شہید ہوئے۔

بھگت کنور رام 13 اپریل 1885 متحدہ ہندوستان سکھر، سندھ اور پاکستان بننے کے بعد ضلع گھوٹکی، تحصیل میرپورماتھیلو، گاؤں جروار میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام تارا چند اور والدہ کا نام تیرتھ بائی تھا۔ ان کی اسکول کی تعلیم صرف تیسری جماعت تک کی تھی۔ وہ کچھ اپنی اور زیادہ تر شاہ لطیف بھٹائی، دریا خان، روحل فقیر اور شاہ عنایت اﷲ کے کلام گایا کرتے تھے۔ وہ ہر قسم کے گیت ہر دھن میں گایا کرتے تھے لیکن زیادہ تر مرنے کے بعد (مارو) نام کا گیت گاتے تھے۔ ان کے گیت گانے پر لوگ ان پر جو رقم نچھاور کرتے تھے وہ اس رقم کو اپنے گھر والوں کو نہیں بلکہ ضرورت مندوں میں تقسیم کردیتے تھے۔ وہ ایک صوفی گائیک تھے۔

یکتارا ان کی موسیقی ہوا کرتی تھی۔ اس موسیقی کی دھن میں وہ گلی گلی، کوچے کوچے انسانیت کا درس دیتے اور محکوم مظلوم لوگوں کی بات کرتے تھے۔ انھیں عام لوگ، پیداواری قوتیں، شہری اور محنت کش والہانہ محبت کرتے تھے، اس لیے کہ وہ لوگوں کی بات کرتے تھے۔ ایک بار سکھر میں مہاتما گاندھی جلسہ گاہ میں تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو لوگ متوجہ نہ ہوئے اور شور شرابا کرتے رہے، جب بھگت کنور رام کو اسٹیج پر بلایا گیا تو وہی مجمع بالکل خاموش ہوگیا اور بڑی توجہ سے یکتارا پر ان کی سریلی آواز میں بلکتی انسانیت کی آواز سنتے رہے۔ یہ ہے انسانوں کے ذہنوں میں اپنا گھر بسا لینا۔

1832 میں ریلوے اسٹیشن پر انھیں نامعلوم انسانیت دشمن شخص نے گولی مار کر شہید کردیا۔ ڈیلی آبزرور اور سنگسار سماج اخبار نے یہ رپورٹ دی کہ پیر بھرچنڈی کے مرید نے اس عظیم صوفی (بھگت) کنور رام کو شہید کیا۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ قاتل بھگت کنور کو شہید کرنے سے قبل ان سے دعا کا طالب ہوا تھا اور کہا تھا کہ ''آپ ہمارے لیے دعا کریں میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤں''۔ قاتل تو مارنے کے بعد لاپتہ ہوگیا لیکن اس جاسوس نے قاتل کے طور پر اپنے آپ کو پیش کردیا جس کی جاسوسی سے بھگت کی نشاندہی ہوئی تھی۔

بھگت کنور کی شہادت کے بعد مسلم لیگ اور کانگریس پارٹی نے الگ الگ اجلاس بلائے لیکن نتیجہ ڈھاک کے تین پات نکلا۔ عدالت میں بھی قاتل کی پکڑ ہوئی اور نہ سزا۔ یہی صورتحال حسن ناصر، نذیر عباسی اور ڈاکٹر محمد تاج ایڈووکیٹ شہدا کے ساتھ بھی ہوئی۔ بھگت کی شہادت کے بعد سندھ بھر میں مسلسل ہڑتالیں جاری رہنے کے بعد ایک روز سیکڑوں کے اجتماع میں ایم ایل اے امین کھوسو نے یہ اعلان کیا کہ حکومت کے خفیہ ادارے نے ہندو مسلم فساد برپا کروانے کے لیے بھگت کنور رام کا قتل کروایا۔


بھگت کنور رام کی 132 ویں سالگرہ کے موقع پر ''بھگت کنور رام یادگاری کمیٹی'' کی جانب سے آرٹس کونسل کراچی میں ایک سیمینار اور رقص و موسیقی کی محفل سجائی گئی، جس میں تین سیشنز کا انعقاد ہوا، پہلے سیشن میں بھگت رام اور شیخ ایاز کے گیتوں کی دھن پر معروف رقاصہ، تحریک نسواں کی بانی اور انارکسٹ نظریہ کی حامی شیما کرمانی نے رقص کیا۔

دوسرے سیشن میں اساتذہ، دانشور، صحافی اور ادیبوں نے خطاب کیا، جن میں ایس جی بھاگیہ، کامریڈ روچی رام، سید نورالہدیٰ شاہ، ایوب شیخ، یونس مہر، امداد حسین، جامی چانڈیو، امر پیرزادہ اور دیگر لوگوں نے خطاب کیا۔ معروف کمیونسٹ رہنما کامریڈ سوبھوگیان چندانی کی قربانیوں پر شاعرہ روبینہ ابڑو نے خوبصورت نظم پڑھی۔ تیسرے سیشن میں موسیقی کی محفل سجی۔ آرٹس کونسل میں اس قسم کی بامقصد تقریب برسوں میں کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔ جہاں کھلے آسمان تلے گیلریوں میں کھچاکھچ لوگ بھرے پڑے تھے۔

جس ملک میں چہار طرف قتل و غارت گری، بھوک افلاس، غربت، خودکشی، فاقہ کشی اور جنونیت کا رقص ہوتا ہو، وہاں ایسے انسانوں سے محبت کرنے والوں کی یاد میں مقالے، نظمیں، گیت، رقص و موسیقی کی محفل بپا ہو اور رنگ و نسل، فرقہ و مذہب سے بالاتر ہوکر حاضرین لطف اندوز ہوکر جھومتے ہوں، یہ ایک عظیم نعمت سے کم نہیں۔

ان ہی دنوں میں عبدالولی خان یونیور سٹی مردان میں بہیمانہ تشدد کے بعد مشال خان کا قتل ہوا، جبکہ بی بی سی نیوز میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی میں کئی سینئر اساتذہ کے پاس دو دو عہدے، بعض پروفیسروں کے پاس تین تین عہدے رکھنے اور بعض طلبا سے پچیس ہزار روپے فیس لینے کے خلاف احتجاج کے ڈر سے یونیورسٹی کے پروفیسروں نے بعض طلبا سے مشاورت کرکے مشال خان کو ڈرانے کی کوشش میں تیسرے گروپ نے فائدہ اٹھا لیا۔

یہ سب اس لیے کیا گیا کہ مشال خان ان کی کرپشن کے خلاف طلبا کو متحد کرکے ان بدعنوان اساتذہ کو بے نقاب نہ کرپائے۔ اس قسم کی کرپشن ہمارے معاشرے میں اوپر سے ہوتی آرہی ہے، اور وہ بھی چھوٹی موٹی نہیں بلکہ اربوں میں ہے۔ وزرا، علما، فوجی اعلیٰ افسران، سول نوکر شاہی اور سیا سی رہنماؤں کی کرپشن کو اگر یکجا کرلیں تو یہ اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے تک پہنچ جائے گی۔ اس لیے اب اس نظام میں کسی قسم کی پیوندکاری یعنی اصلاح کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔

یہ نظام سرمایہ داری اتنا سڑ گل گیا ہے کہ اسے دفن کرکے نئے نظام کو نافذ کرنا ہوگا اور وہ ہے اشتراکیت۔ جہاں دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کی ہوگی، کوئی کسی کا محتاج نہیں ہوگا، سب مل کر کام کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن جلد آنے والا ہے، جہاں ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ تب ہی بھگت کنور رام کا مقصد پورا ہوگا۔
Load Next Story