زمین کو محفوظ بنایا جائے
آبادی کے تیزی سے اضافے اور تیزی سے جنگلات کی کٹائی ایک لمحہ فکریہ ہے
درخت لگانا سنت نبوی ﷺ ہے اور ماحول کو انسان دوست بنانے کے لیے بھی ضروری ہے۔ ہم تیزی سے بدلتے ہوئے موسمی اثرات کو شدت کے ساتھ محسوس کررہے ہیں کہ جیسے جیسے گرمیوں کے موسم کا آغاز ہورہا ہے ہیٹ اسٹروک میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کہیں کوئی درخت کا سایہ نظر نہیں آتا، بلند و بالا عمارتیں، گنجان آباد علاقے، ٹریفک کا شور، ہمارے لیے سخت چیلنج ہے۔
حکومت ہر سال شجرکاری مہم کا آغاز کرتی ہے لیکن آبادی کے تیزی سے اضافے اور تیزی سے جنگلات کی کٹائی ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ہم میں سے ایسے کتنے ہیں جنھوں نے شاندار گھر تو بنایا ہو اور درخت لگا کر آنے والی نسلوں کو فائدہ دینے کو سوچا ہو کہ جب یہ تناور درخت بن جائے گا تو میں اس کا پھل کھانے کے لیے اس دنیا میں نہیں رہوں گا لیکن یہ درخت آیندہ آنے والی نسلوں کو فائدہ دے گا۔
کہنے کو یہ معمولی سی بات ہے، لیکن اس میں سمجھنے والوں کے لیے بڑی حکمت ہے۔ اپنی آس پاس کی دنیا کو خوبصورت بنانے کا خواب ہر انسان دیکھتا ہے، لیکن اسے تعبیر کرنے کی ہمت بہت کم لوگ کر پاتے ہیں اور خاص کر بات اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی کریں، تو یہ بات اور درست معلوم ہوتی ہے۔ ہم پاکستانی بنا کچھ سوچے سمجھے اپنے ملک کے قیمتی ذخائر، معدنیات، آبی وسائل، جنگلات کی کٹائی کے ساتھ جنگلی جانوروں کو بے گھر کرنے اور ماحول کو تباہ کرنے کی جس مہم پر عمل پیرا ہیں اس کی نظیر دنیا میں بہت کم ملے گی۔
ہم جیسی ناسمجھ قوم جو اپنے قیمتی جنگلات بڑی بے دردی سے صاف کرتی جارہی ہے، اس بات کو جانے سمجھے بنا کہ ان جنگلات سے ماحول پر کیا اثر پڑتا ہے، بارش، سیلاب اور زلزلہ کی تباہ کاریاں کس طرح یہ روکتے ہیں۔ ہمارے تو دین اسلام میں بھی شجرکاری کو عبادت کا حصہ کہا گیا ہے اور ہرے بھرے درخت کو کاٹنا گناہ قرار دیا گیا ہے۔
جب پوری دنیا میں ارتھ ڈے منایا جارہا ہے، اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنی زمین اور اس کے ماحول کو بہتر کرنے کے لیے کیا تدابیر سوچتے ہیں اور کس طرح ان پر سختی سے عمل پیرا بھی ہیں، تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو یہ دنیا ایک خوبصورت انداز میں مل سکے۔ پوری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی اور زمینی وسائل کے بے دریغ استعمال نے بے شمار مسائل کھڑے کردیے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے ملک کے ان مسائل پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
آلودگی ہماری رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی طرح ہمارے ماحول کا جز بنتی جارہی ہے۔ یہ وہ بیماری ہے جو خاموش قاتل کی طرح ہمارے ماحول کو دیمک کی طرح چاٹتی جارہی ہے۔ بدقسمتی سے اس بیماری کے جراثیم ہم انسانوں نے خود پھیلائے ہیں، جب کوئی چیز پھیل جائے تو پھر کئی حصوں میں تقسیم بھی ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج آلودگی کی کئی اقسام مثلاً فضائی آلودگی، آبی آلودگی اور صوتی آلودگی ہمارے ماحول کا حصہ ہیں۔
1969 میں سانتا باربرا (کیلیفورنیا) کے ساحلوں پر سفر کے دوران گیلورڈ نیلسن نے دیکھا کہ اس کے خوبصورت ساحلوں کو تیل نے بری طرح آلودہ کردیا ہے۔ اس نے اپنے طور پر لوگوں کو صاف ماحول سے آگاہی کے لیے کوششیں شروع کیں اور بالآخر 22 اپریل 1970 کو پوری دنیا میں باضابطہ طور پر ماحول کا عالمی دن منانے کا اعلان کردیا گیا۔
اس پروگرام میں دس لاکھ امریکیوں نے شرکت کی، جن میں کالج اور یورنیورسٹیوں کے طلبا سے لے کر عام آدمی تک نے ماحول کی آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں، آئل، پاور پلانٹس، خام سیوریج، جنگل کا نقصان، اور فضائی آلودگی کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ ان کے اس احساس ذمے داری نے ان ملکوں کو بڑی حد تک ماحولیاتی آلودگی سے چھٹکارا دلادیا۔
آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل پر بھی دباؤ بڑھتا جارہا ہے، جنگلات ختم کرکے نئی بستیاں آباد کی جارہی ہیں، جنگلات میں کمی ہونے کے باعث موسم میں جو تبدیلیاں ہورہی ہیں اسے ماہرین ارضیات نے بھیانک خطرے سے تعبیر کیا ہے۔ دنیا کے ممالک نے اس پر توجہ دینی شروع کردی ہے، کیونکہ اگر جنگلات ختم ہوگئے تو حیوانی زندگی کا وجود بھی ختم ہوجائے گا۔
ماہرین کے مطابق بااثر لوگوں کی لکڑی کی تجارت اور آبادی کے پھیلاؤ کے باعث پوری دنیا میں تقریباً ہر سال پچاس لاکھ ایکڑ جنگلات ضایع ہورہے ہیں۔ خود ہمارے ملک میں ہرے بھرے درخت کاٹنے پر پابندی ہے، مگر اس کے باوجود قانون کی خلاف ورزی کرنے والے گرفت سے باہر رہتے ہیں۔ ایک پودے کو درخت بننے میں برسوں لگ جاتے ہیں، اس لیے جہاں درخت لگانا ضروری ہے، وہاں سرکاری سطح پر لوگوں میں درختوں کی حفاظت کا شعور بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت زمین کو انسانوں نے بے دریغ استعمال سے آلودہ کردیا ہے، اس آلودگی نے ترقی پذیر ممالک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، سو یہاں بھی ہمارے عوام کو بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں، پانی جو زندگی کی اشد ضرورت ہے، ہماری اپنی غلطیوں سے پانی انتہائی آلودہ ہوچکا ہے۔ ہم آئے دن ساحل پر آلودہ پانی کی وجہ سے ہزاروں مچھلیوں کے مردہ پائے جانے کی خبر اخباروں اور ٹی وی پر دیکھتے ہیں۔ یہ آلودہ پانی قدرتی توازن کے بگاڑ اور فصلیں تباہ کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔
کیمیکل فیکٹری اور چمڑے کے کارخانوں کا فضلہ، گٹر کا پانی، کوڑا کرکٹ سب سمندر میں بہادیا جاتا ہے، جو سمندر کے پانی کو زہریلا کرنے کا باعث بنتا ہے اور اس میں رہنے والی حیات کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے سخت ترین قانون بنانے اور اس پر عمل درآمد کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے اسکولوں اور مسجدوں میں چھوٹے چھوٹے پروگرام کے ذریعے آگاہی پیدا کی جاسکتی ہے۔
ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، جو معاشی ترقی کے لیے بنیادی جز ہے، لیکن بدقسمتی سے وسائل کے بے دریغ استعمال نے ہماری زمین کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ یہ سب راتوں رات ٹھیک ہونے والا نہیں، آبی و فضائی آلودگی، غربت اور آبادی میں بے تحاشا اضافہ وہ اسباب ہیں جو صحت مند ماحول کے لیے کسی طور بھی سودمند نہیں۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں یا پھر دوسرا بہتر طریقہ اپنائیں اور جوانمردی سے اٹھ کر حالات کا مقابلہ کریں اور آنے والی نسلوں کے لیے صحت مند معاشرے کی تعمیر کریں، جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو۔
یہ مسئلہ اب ایک عالمی صورت اختیار کرگیا ہے، حکومتیں اور ادارے تنہا کچھ نہیں کرسکتے، ہر شخص کو اپنے وسائل میں رہتے ہوئے ماحولیاتی آلودگی دور کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اگر ہم جہاد برائے آلودگی کی کوشش کریں، انفرادی طور پر ہر آدمی چھ ماہ میں ایک پودا لگائے اور چھ ماہ تک اس کی پرورش ایک بچے کی طرح کرے۔ یہ نہ صرف ہماری آکسیجن کی کمی کو پورا کرے گا بلکہ تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں بھی کمی آجائے گی۔ اگر ہر شخص اپنے حصے کا کام انجام دے تو ہمارا ملک بھی ایک صاف ستھرے معاشرے میں تبدیل ہوجائے اور دنیا کو خوبصورت بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔