پاکستان نے بھارت بنگلادیش سری لنکا کو پیچھے چھوڑ دیا
بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے مقابلے میں پاکستان بالواسطہ ٹیکسوں کے بلند ترین تناسب کا حامل ملک ہے۔
پاکستان کی مجموعی ٹیکس وصولیوں میں براہ راست ٹیکسوں کی پست اور بالواسطہ ٹیکسوں کے بلند تناسب کی وجہ سے کم آمدن والا طبقہ ٹیکس کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور عوام کی قوت خرید بری طرح متاثر ہورہی ہے۔
ٹیکس آفیشلز اور پالیسی ساز ادارے عوام پر ٹیکس در ٹیکس عائد کرتے ہوئے بالواسطہ ٹیکسوں کی چکی میں پیس خون نچوڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے امیر اور غریب کا فرق تیزی سے بڑھ رہا ہے اور مڈل کلاس طبقہ ٹیکس وصولی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔
ٹیکس ماہرین کے مطابق غریب اور مڈل کلاس طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے مالدار طبقے سے حقیقی گنجائش کے مطابق براہ راست ٹیکسوں کی وصولی ناگزیر ہے۔ خطے کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں پاکستان میں بالواسطہ ٹیکسوں کے تناسب میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے مقابلے میں پاکستان بالواسطہ ٹیکسوں کے بلند ترین تناسب کا حامل ملک ہے جبکہ براہ راست ٹیکسوں کے تناسب کے لحاظ سے پاکستان کا شمار پست ترین تناسب کے حامل ملکوں میں کیا جاتا ہے۔براہ راست ٹیکس انکم ٹیکس کی شکل میں وصول کیا جاتا ہے جبکہ بالواسطہ ٹیکس فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی، انکم ٹیکس ودہولڈنگ اور صوبائی ٹیکسوں اور سیلز ٹیکس کی مد میں وصول کیے جاتے ہیں۔
ٹیکس ماہرین کے مطابق پاکستان کی مجموعی ٹیکس وصولیوں میں براہ راست ٹیکسوں کا تناسب 2013-14میں 12.74فیصد تھا جو 2015-16 تک کم ہوکر 11.21فیصد کی سطح پر آگیا اس کے برعکس مجموعی ٹیکس وصولیوں میں بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب 87.26فیصد سے بڑھ کر 88.79فیصد کی سطح پر آچکا ہے۔
پاکستان کے مقابلے میں بھارت 33.45فیصد ٹیکس براہ راست محصولات سے وصول کرتا ہے۔ بھارت میں بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب 66.55فیصد ہے، بنگلہ دیش میں براہ راست ٹیکسوں کا تناسب46.33فیصد جبکہ بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب 53.66فیصد ہے، سری لنکا میں 34.02 فیصد محصولات براہ راست ٹیکسوں کے ذریعے وصول کیے جاتے ہیں جبکہ بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب 65.98فیصد ہے۔
پاکستان کی ٹیکس اتھارٹیز کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران انکم ٹیکس کی مد میں ٹیکس وصولیوں میں 65ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے تاہم بالواسطہ ٹیکسوں میں 834ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ مالی سال 2013-14میں براہ راست ٹیکس وصولیوں کا حجم 299ارب روپے تھا جو مالی سال 2015-16تک بڑھ کر 364ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جبکہ بالواسطہ ٹیکس وصولیاں 2048ارب روپے سے بڑھ کر 2882ارب روپے تک پہنچ چکی ہیں۔ ٹیکسوں کے ذریعے عوام پر ڈالے جانے والا بوجھ صرف بالواسطہ ٹیکسوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اب براہ راست ٹیکسوں پر ودہولڈنگ ٹیکس عائد کرکے بھی عوام کی جیبیں خالی کی جاتی ہیں اور اس رجحان میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان میں براہ راست ٹیکسوں پر ودہولڈنگ ٹیکس کا تناسب مالی سال 2013-14 میں65.95فیصد تھا جو مالی سال 2015-16 تک بڑھ کر 69.54فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ ٹیکس ماہرین کے مطابق براہ راست ٹیکسوں میں انکم ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، پراپرٹی اور کیپیٹل گین ٹیکس شامل ہیں جبکہ بالواسطہ ٹیکس اشیا و مصنوعات کی خریدوفروخت، خدمات پر ٹیکس اور ایکسائز ٹیکس کی شکل میں وصول کیے جاتے ہیں براہ راست ٹیکسوں کا معاشرے کے کمزور طبقے پر محدود اثر پڑتا ہے تاہم بالواسطہ ٹیکسوں کے اثرات غریب اور کم آمدن والے طبقے پر زیادہ پڑتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب 89:11 ہے جو آرگنائزیشن آف اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (او ای سی ڈی) میں شامل ملکوں کے اوسط تناسب 67:33کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
ٹیکس آفیشلز اور پالیسی ساز ادارے عوام پر ٹیکس در ٹیکس عائد کرتے ہوئے بالواسطہ ٹیکسوں کی چکی میں پیس خون نچوڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے امیر اور غریب کا فرق تیزی سے بڑھ رہا ہے اور مڈل کلاس طبقہ ٹیکس وصولی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔
ٹیکس ماہرین کے مطابق غریب اور مڈل کلاس طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے مالدار طبقے سے حقیقی گنجائش کے مطابق براہ راست ٹیکسوں کی وصولی ناگزیر ہے۔ خطے کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں پاکستان میں بالواسطہ ٹیکسوں کے تناسب میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے مقابلے میں پاکستان بالواسطہ ٹیکسوں کے بلند ترین تناسب کا حامل ملک ہے جبکہ براہ راست ٹیکسوں کے تناسب کے لحاظ سے پاکستان کا شمار پست ترین تناسب کے حامل ملکوں میں کیا جاتا ہے۔براہ راست ٹیکس انکم ٹیکس کی شکل میں وصول کیا جاتا ہے جبکہ بالواسطہ ٹیکس فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی، انکم ٹیکس ودہولڈنگ اور صوبائی ٹیکسوں اور سیلز ٹیکس کی مد میں وصول کیے جاتے ہیں۔
ٹیکس ماہرین کے مطابق پاکستان کی مجموعی ٹیکس وصولیوں میں براہ راست ٹیکسوں کا تناسب 2013-14میں 12.74فیصد تھا جو 2015-16 تک کم ہوکر 11.21فیصد کی سطح پر آگیا اس کے برعکس مجموعی ٹیکس وصولیوں میں بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب 87.26فیصد سے بڑھ کر 88.79فیصد کی سطح پر آچکا ہے۔
پاکستان کے مقابلے میں بھارت 33.45فیصد ٹیکس براہ راست محصولات سے وصول کرتا ہے۔ بھارت میں بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب 66.55فیصد ہے، بنگلہ دیش میں براہ راست ٹیکسوں کا تناسب46.33فیصد جبکہ بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب 53.66فیصد ہے، سری لنکا میں 34.02 فیصد محصولات براہ راست ٹیکسوں کے ذریعے وصول کیے جاتے ہیں جبکہ بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب 65.98فیصد ہے۔
پاکستان کی ٹیکس اتھارٹیز کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران انکم ٹیکس کی مد میں ٹیکس وصولیوں میں 65ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے تاہم بالواسطہ ٹیکسوں میں 834ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ مالی سال 2013-14میں براہ راست ٹیکس وصولیوں کا حجم 299ارب روپے تھا جو مالی سال 2015-16تک بڑھ کر 364ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جبکہ بالواسطہ ٹیکس وصولیاں 2048ارب روپے سے بڑھ کر 2882ارب روپے تک پہنچ چکی ہیں۔ ٹیکسوں کے ذریعے عوام پر ڈالے جانے والا بوجھ صرف بالواسطہ ٹیکسوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اب براہ راست ٹیکسوں پر ودہولڈنگ ٹیکس عائد کرکے بھی عوام کی جیبیں خالی کی جاتی ہیں اور اس رجحان میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان میں براہ راست ٹیکسوں پر ودہولڈنگ ٹیکس کا تناسب مالی سال 2013-14 میں65.95فیصد تھا جو مالی سال 2015-16 تک بڑھ کر 69.54فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ ٹیکس ماہرین کے مطابق براہ راست ٹیکسوں میں انکم ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، پراپرٹی اور کیپیٹل گین ٹیکس شامل ہیں جبکہ بالواسطہ ٹیکس اشیا و مصنوعات کی خریدوفروخت، خدمات پر ٹیکس اور ایکسائز ٹیکس کی شکل میں وصول کیے جاتے ہیں براہ راست ٹیکسوں کا معاشرے کے کمزور طبقے پر محدود اثر پڑتا ہے تاہم بالواسطہ ٹیکسوں کے اثرات غریب اور کم آمدن والے طبقے پر زیادہ پڑتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب 89:11 ہے جو آرگنائزیشن آف اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (او ای سی ڈی) میں شامل ملکوں کے اوسط تناسب 67:33کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔