عوام سرخ بتی کے پیچھے

الو کہنے لگا جھوٹ مت بولو مینا میری بیوی ہے تم اسے ورغلاکر ساتھ نہیں لے جاسکتے

fnakvi@yahoo.com

NEW YORK:
گئے دنوں کی بات ہے ایک تھا طوطا اورایک تھی مینا۔ دونوں نے پروگرام بنایا کہ دنیا کی سیر کو نکلا جائے اور اسی طرح ملکوں ملکوں گھومتے وہ ایک بستی کی طرف آنکلے۔ دیکھا کہ ہر طرف یاسیت طاری ہے، عجب وحشت کا سماں ہے دور دور تک کوئی نظر نہیں آرہا ہے، کوئی ویرانی سی ویرانی ہے یہ دیکھ کر طوطا کہنے لگا کہ ہو نہ ہو اس بستی سے اُلو کا گزر ہوا ہے جس کی وجہ سے اس بستی پر نحوست سی طاری ہے۔

پاس ہی کسی درخت پر ایک اُلو بیٹھا ان کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ ان کے قریب آیا اور لگا میل ملاپ کی باتیں کرنے۔ آخر اس نے طوطا مینا کو رات کے کھانے کی دعوت دی اور رات اپنے گھر بسرکرنے کا کہا۔ طوطا مینا تو ویسے ہی بستی کی حالت دیکھ کر پریشان تھے الو کی پرخلوص دعوت کو ٹھکرا نہ سکے اور دعوت قبول کرکے الو کے ساتھ اس کے گھر چلے گئے۔ بہت پر تکلف کھانا کھاکر اچھے سے گھر میں اطمینان کی نیند سوکر جب اٹھے تو ہشاش بشاش تھے۔ ناشتہ کرکے چلنے کا قصد کیا تو الو نے کہا،کہاں جاتے ہو اور یہ مینا کو اپنے ساتھ کیوں لے کر جا رہے ہو۔ طوطے نے حیرانی سے الو کی طرف دیکھا اور کہا میں اپنی بیوی کو لے کر جا رہا ہوں۔ ہم دونوں ساتھ آئے تھے ساتھ جا رہے ہیں۔

الو کہنے لگا جھوٹ مت بولو مینا میری بیوی ہے تم اسے ورغلاکر ساتھ نہیں لے جاسکتے۔ راتوں رات تم نے کیا جادو کردیا کہ میری بیوی تمہارے ساتھ جارہی ہے۔ طوطا تو یہ سن کر پریشان ہوگیا اور لگا واویلا مچانے۔فضا ٹیں ٹیں کے شور سے گونجنے لگی، مگر الو بھی کم نہ تھا آخر کار طے ہوا کہ قاضی کی عدالت میں فیصلہ کیا جائے۔

دونوں قریبی ایک عدالت میں گئے اور اپنا مقدمہ پیش کیا۔ دونوں طرف کے وکیلوں نے خوب خوب دلائل پیش کیے آخر کار فیصلہ الو کے حق میں ہوگیا اور طوطے کو مینا سے دست بردار ہونا پڑا۔ طوطا مینا کو چھوڑ کر افسردہ اُڑنے لگا کچھ دنوں کے بعد طوطا نے دیکھا کہ الو مینا کو لے کر آرہا ہے۔ طوطے نے کہا اب کیا ہوا؟ سب کچھ تو میرا تم نے چھین لیا۔ اُلو نے کہا مینا تمہاری بیوی ہے تم لے جاؤ۔ بتانا یہ مقصد تھا کہ بستیاں اُلو کے آنے سے ویران نہیں ہوتیںبلکہ جہاں نا انصافی ہو وہاں ویرانی اور نحوست چھا جاتی ہے۔ قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراوانی سے ہی معاشروں میں بہتری اور ترقی آتی ہے۔ وہ معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں جہاں قانون امیروں کے لیے کچھ اور غریبوں کے لیے کچھ اور ہوتا ہے۔

چودہ سو سال پہلے نبی کریم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے واضح کردیا تھا کہ جرم کرنے پر اگر ثابت ہوجائے تو سزا امیر ہو یا غریب اس کو برابر ملے گی۔ جیسے جیسے ہم مسلمانوں نے یہ بات بھلادی ہے اسی طرح ذلت و رسوائی ہمارا مقدر ٹھہری ہے۔ پاناما لیکس کا بڑا شور تھا، فریقین کی گولہ باری ایک دوسرے پر جاری تھی، کبھی قطری خطوط نے منظر عام پر آکر ہلچل مچادی تو کبھی کسی اور بات نے مقدمے میں جان ڈال دی یا کسی کی جان نکال لی ۔ عوام کی جان تو ویسے ہی سولی پر اٹکی ہوئی تھی مگر فیصلے کی گھڑی آہی نہیں رہی تھی پھر ہوا یوں کہ فیصلہ محفوظ ہوگیا اور انتظار کی لمبی گھڑیوں کے بعد آخر فیصلہ آہی گیا ۔


حیرت مگر حکمران ٹولے کی طرف سے دیے گئے بیانات پر ہورہی ہے، مٹھائیاں بانٹی جارہی ہیں، ایک دوسرے کو مبارکباد دی جارہی ہے، ٹوئیٹ ہورہے ہیں، وکٹری کے نشانات دیے جارہے ہیں، کوئی پوچھے کہ کس بات کی فتح بقول شیخ رشید، دوپیپرز میں فیل، 3 میں سپلی پھر بھی بچہ فرسٹ ڈویژن میں کامیابی کے نعرے لگارہا ہے۔کیا وزیراعظم اور ان کے بچے اب اپنے ہی ماتحت اداروں اور ان کے افسران کے سامنے پیش ہوںگے اور اپنے خاندان کے بارے میں صفائیاں پیش کریںگے کیونکہ جے آئی ٹی میں شامل ادارے ڈائریکٹ وفاقی حکومت کی ماتحتی میں آتے ہیں۔

جو ادارے اس میں شامل ہیں ان کے لیے بھی یہ مقام سخت ہے کیونکہ ان کی ساکھ کا تو خیر سوال ہے بھی اور انھیں بھی مگر بات وہ نہیں کہ جو نظر آرہی ہے۔ دو ججز نے باقاعدہ نا اہل قرار دے دیا ہے تو 3 ججز نے بھی تحقیقات کاکہا ہے کیونکہ کسی کا دامن صاف نہیں جب ہی تو جے آئی ٹی کی ضرورت محسوس ہوئی ہے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔

مسلم لیگی وزراء کیسے کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ عدالتوں سے سرخرو ہوکر نکلی۔ اول تو یہ معاملہ ن لیگ کا ڈائریکٹ نہیں۔ وزیراعظم اور ان کے خاندان کی ذاتی دولت کے بارے میں تحفظات کا ہے ۔ فیصلے کے الفاظ کی ابتدا مشہور ناول گاڈ فادر کے مشہور جملے سے کی گئی کہ:

''دولت کے ہر بڑے خزانے کے پیچھے جرم چھپا ہوتا ہے'' اس لحاظ سے تو عمران خان کی فتح کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے جو سوالات اٹھائے تھے ان ہی سوالات کا سامنا مختلف اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی کے ذریعے کرنا پڑے گا ویسے تو ہماری پرانی تاریخ ہے ایسی جے آئی ٹیز کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ہو یا سانحہ کوئٹہ مگر امید پر دنیا قائم ہے شاید یہ بستی اجڑنے سے پہلے بس جائے مگر ایک بات تو ہے کہ یہ مقام عبرت اور رسوائی ہے۔

اصولاً تو استعفیٰ ہی بڑا حل تھا اس سے نیک نامی کو فروغ مل سکتا تھا مگر حکمران یہ فیصلہ نہیں کریںگے کیونکہ طاقت جب تک ہاتھ میں رہے سب مغلوب رہتے ہیں ورنہ آنکھیں دکھانے والوں کی کمی نہیں ہوتی، چڑھتے سورج کو سلام کرنے والے ڈوبتے ہوئے جہاز کے ساتھ نہیں ڈوبتے، اسی لیے کوئی بھی حکمران کبھی بھی اپنے منصب کوچھوڑنے کی غلطی نہیں کرتا۔ چوہدری شجاعت نے کیا خوب کہا کہ حکمران جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوںگے یا جے آئی ٹی کے ممبران حکمرانوں کی خدمت میں حاضری لگائیںگے۔ یہ بات اب دیکھنے کی ہے کہ ہوگا کیا۔ عوام کو پھر سرخ بتی کی طرف لگا دیا گیا ہے۔ بھاگتے رہو، بھاگتے رہو۔
Load Next Story