سندھ کا خیال کریں

پیپلز پارٹی صوبہ سندھ کا سیاسی کھیت مکمل طور پر چگ چکی ہے


Muhammad Saeed Arain April 25, 2017

KARACHI: پیپلز پارٹی سندھ کے رہنماؤں کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کے خیبرپختونخوا میں جلسوں کے بعد جب انھوں نے سندھ کا رخ کیا تو ان پر مسلسل تنقید کی جا رہی ہے کہ انھیں چار سال بعد سندھ کا خیال آیا ہے، انھیں پہلے سندھ میں احساس محرومی کیوں نظر نہیں آیا اور کہتے ہیں کہ سندھ میں حکومت نے کوئی کام نہیں کیا جس سے سندھ میں مایوسی ہے۔پی پی کی رکن قومی اسمبلی نے تو وزیراعظم پر تعصب پھیلانے کا بھی الزام لگادیا کہ ان کے سندھ کے دورے عصبیت پھیلا رہے ہیں۔ ایک رہنما نے کہا کہ وزیراعظم سندھ آئیں تو مال لے کر آئیں۔

کسی نے کہا کہ وزیراعظم سندھ میں صرف اعلانات کر جاتے ہیں عمل نہیں ہوتا۔ سینئر وزیر نے وزیراعظم کے دوروں کو الوداعی قرار دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ وزیر اعظم کو کے پی کے دوروں کے بعد جب سندھ یاد آیا ہے، تو ان کی حکومت کو پونے چار سال بعد سندھ یاد آیا، انھوں نے ٹھٹھہ اور حیدرآباد کے بعد سخت گرمی میں جیکب آباد کا دورہ کیا اور تینوں اضلاع کے لیے کچھ اعلانات بھی کیے اور اطلاع کے مطابق ٹھٹھہ میں کیے گئے اعلانات پر عمل بھی شروع ہوگیا ہے، جس سے وزیراعظم کا یہ کہا سچ ثابت ہوا کہ میں جھوٹے اعلانات نہیں کرتا بلکہ اپنے کہے پر عمل بھی کراتا ہوں۔

سندھ کے تین اضلاع کے وزیراعظم کے دورے پر پیپلز پارٹی کی تنقید یہاں تک تو درست ہے کہ وزیراعظم کو چار سال بعد سندھ کا خیال آیا ہے۔ وزیراعظم کے، کے پی کے دوروں پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اتنی تنقید نہیں کی تھی جتنی پیپلز پارٹی کر رہی ہے۔ وزیراعظم کے دوروں سے کے پی کے، بلوچستان اور سندھ کو کچھ مل ہی رہا ہے، اگرچہ سندھ کی سیاسی صورتحال کے پی کے اور بلوچستان سے اس لیے مختلف ہے کہ کے پی کے اور بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے پاس قومی و صوبائی اسمبلیوں کی کچھ نشستیں ہیں اور کے پی کے میں مولانا فضل الرحمن اور بلوچستان میں محمود خان اچکزئی اور حاصل خان بزنجو ان کے حلیف ہیں، جب کہ سندھ میں اب کوئی نامور سیاستدان وزیراعظم کا حلیف نہیں ہے اور جو پہلے حلیف تھے وہ مایوس ہوکر شدید حریف نہیں ہیں تو حلیف بھی نہیں ہیں۔

وفاق میں اندرون سندھ سے سابق این پی پی کے غلام مرتضیٰ جتوئی وفاقی وزیر ہیں جب کہ کراچی میں (ن) لیگ کے واحد رکن قومی اسمبلی وزیر مملکت تھے جو اہمیت نہ ملنے پر (ن) لیگ چھوڑ کر پی پی کے ہوگئے تھے۔ فنکشنل لیگ کے رکن اسمبلی امتیاز شیخ وزیراعظم کے معاون خصوصی اور ممتاز بھٹو کے صاحبزادے امیر بخش بھٹو مشیر تھے، وہ بھی ممتاز بھٹو کو نظرانداز کیے جانے پر وزیراعظم کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ سندھ میں (ن) لیگ کے سابق وزیراعلیٰ لیاقت جتوئی اب پی ٹی آئی میں آگئے۔ سابق مسلم لیگی وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم مایوس اور وزیراعظم کی نگاہ کرم کے منتظر ہیں۔ امتیاز شیخ سمیت مسلم لیگ (ن) اور (ف) کے اہم رہنما پی پی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔

اندرون سندھ کوئی بڑا نام پی پی نے مسلم لیگ (ن) میں باقی نہیں چھوڑا، پی پی اور (ن) لیگ سے مایوس رہنما اب پی ٹی آئی میں جانے پر مجبور ہیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کے پیر پگارا کے بھائی وفاقی وزیر ہیں، پی پی فنکشنل لیگ میں بھی بڑا شگاف ڈال چکی ہے۔ سندھ کا ایک 92 سالہ سیاستدان سابق اسپیکر الٰہی بخش سومرو ضرور (ن) لیگ میں ہیں اور انھوں نے سخت گرمی میں جیکب آباد کا جلسہ بھی کامیاب کرا کر دکھادیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے 2018 کے انتخابات کی تیاری کر رکھی ہے جس کے تحت وہ اندرون سندھ ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دے گی جو اپنے آبائی حلقوں میں نہایت بااثر ہوں اور سو فیصد پی پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے کی طاقت کے حامل ہوں۔

پی پی کی اندرون سندھ سیاسی قوت کا مظاہرہ مسلم لیگ (ن) اور (ف) مل کر بھی ناکام نہیں کر سکیں گی اور پی پی کے مخالفین کو جیتنے کی طاقت رکھنے والے امیدوار بھی نہیں مل سکیں گے، کیونکہ ٹھٹھہ کے شیرازی گروپ کے سوا سندھ میں کوئی ایسا سیاسی خاندان باقی نہیں ہے جو پی پی میں نہ آگیا ہو اور پی پی کے قریب نہ ہو۔ ضلع شکارپور کا غوث بخش مہر گروپ اگرچہ مسلم لیگ (ف) میں ہے مگر ضلع سکھر میں گھوٹکی کے مہر سردار پی پی میں ہیں، جو غوث بخش مہر کو بھی پی پی میں لے آئیں گے، جب کہ شکارپور ضلع کا جتوئی گروپ مسلم لیگ (ن) کے نہیں بلکہ نوشہرو فیروز کے غلام مرتضیٰ جتوئی کے ساتھ ہیں اور ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کو بھی مسلم لیگ (ن) نے نظرانداز کر رکھا ہے، جب کہ بدین ضلع میں اپنے صوبائی صدر اسماعیل راہو کو بھی مسلم لیگ (ن) نے اہمیت نہیں دی اور وہ مسلم لیگ کی صوبائی صدارت کے بعد (ن) لیگ بھی چھوڑ رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی صوبہ سندھ کا سیاسی کھیت مکمل طور پر چگ چکی ہے جہاں اب مسلم لیگ (ن) اور (ف) کے لیے کچھ باقی نہیں بچا اور ساری قوم پرست پارٹیاں، (ن) اور (ف) لیگ مل کر بھی پی پی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، جب کہ جے یو آئی پورے سندھ میں امیدوار کھڑے کرسکتی ہے کامیاب نہیں ہوسکتی۔ مسلم لیگ (ف) خیرپور اور سانگھڑ ضلعوں میں ہے ضرور، مگر اب پی پی یہ دونوں ضلع بھی حاصل کرچکی ہے۔ پیرپگارا کے پاس سیاست کے لیے وقت نہیں۔ سندھ میں (ن) لیگ کا کوئی ضلع نہیں ہے۔

شیرازیوں نے وزیراعظم کا ٹھٹھہ کا اور الٰہی بخش سومرو نے جیکب آباد کا جلسہ ضرور کامیاب کرایا مگر (ن) لیگ سندھ کے کسی اور ضلع میں بڑا جلسہ کرنے کی سیاسی طاقت نہیں رکھتی۔ وزیراعظم کو لاڑکانہ اور جیکب آباد سے انتخاب لڑنے کی دعوت ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ وزیراعظم نے ملک اور سندھ کے آئینی بڑے عہدے جنھیں دیے ہوئے ہیں وہ یوسی ناظم منتخب نہیں ہوسکتے اور کراچی کے جن تین (ن) لیگیوں کو وزیراعظم نے پنجاب سے سینیٹر منتخب کرایا تھا، وہ صرف تقریریں ہی اچھے انداز میں کرسکتے ہیں، وہ بھی یوسی کے چیئرمین منتخب ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

شہری علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ تقسیم ہوسکی، جن کے لوگ پیپلز پارٹی توڑ رہی ہے تاکہ شہری علاقوں سے کچھ کامیابی حاصل کرسکے مگر (ن) لیگ کو سندھ کے شہری علاقوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔ شہری علاقوں میں متحدہ متاثر ضرور ہوگی اور پی پی اور پی ٹی آئی متحدہ کے ووٹ توڑ سکتی ہیں مگر (ن) لیگ یہ بھی نہیں کرسکے گی۔

کراچی، حیدرآباد کبھی مسلم لیگ کے قریب نہیں گئے بلکہ اپوزیشن کے ساتھ رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) نے دونوں شہروں پر خصوصی توجہ دے کر انھیں اپنے قریب لانے کی کوشش تک نہیں کی جو اب پی پی کر رہی ہے۔ اقتدار کے باقی ایک سال میں مسلم لیگ (ن) نے شہری علاقوں کے مسائل اور ترقی کے لیے اگر اب بھی کچھ نہ کیا تو اسے ایک صوبائی نشست ملنا بھی محال ہوگا اور آصف علی زرداری جوڑ توڑ سے ضرور کچھ حاصل کرلیں گے اور سندھ میں مسلم لیگ (ن) نہ جاگی تو منہ دیکھتی رہ جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں