مسئلہ ٹشو پیپرز کا نہیں…
میرے خیال میں مسئلہ یہ ہے کہ گِلہ کیا بھی جائے تو کس سے
پاکستان میں جمہوری حکومت کا مطلب صرف یہی سمجھا جاتا ہے کہ بس فوج کی حکومت نہ ہو، اس کے علاوہ جو بھی حکومت ہو گی، وہ جمہوری حکومت کہلائے گی۔ پاکستان میں اسی کا نام جمہوریت رکھ دیا گیا ہے۔ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ جمہوریت کو ذرہ میچور تو ہونے دیں، لیکن میرے خیال میں اگر ان روایتی سیاستدانوں کے پاس جمہوریت رہی تو وہ دن دور نہیں، جب ہمارا شمار بھی ایتھوپیا، صومالیہ اور چاڈ جیسے آخری درجے کے ممالک میں ہوا کرے گا ۔
قارئین !اصلی ''جمہوریت'' کا مطلب آئین اور قانون کی حکمرانی ہے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کی سخت سزا ہے لیکن پاکستان میں معاملات اس کے برعکس ہیں ، چند دن پہلے پاکستانی ایئر پورٹ کی ایک ویڈیو منظرعام پر آئی، جس میںایف آئی اے کے اہلکاروں (جس میں ایک خاتون بھی شامل تھی )کی جانب کی طرف سے مسافر خواتین کو مارا پیٹا جا رہا تھا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ خواتین نے یہ پوچھا تھا کہ بیت الخلاء میں ٹوائلٹ پیپر کیوں نہیں ہیں؟پھر ایک دوسری ویڈیو سامنے آئی، جس میں کہا گیا کہ مسافر خواتین کی طرف سے زیادتی کی جا رہی تھی۔ اگر یہ سچ بھی ہے تو ان خواتین کو گرفتار کیا جانا چاہیے تھا لیکن مار پیٹ کرنا بتاتا ہے کہ ہمارا ایئر پورٹ عملہ کس قدر غیر پیشہ وارانہ ہے۔ بقول شاعر
عجب لوگ بستے ہیں تیرے شہر میں محسن
مرمت کانچ کی کرتے ہیں، پتھر کے اوزاروں سے
میں ملک کے تمام ایئر پورٹ دیکھ چکا ہوں۔ ان تمام ایئر پورٹس پر ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے ایئر پورٹس کے اندر اور باہر بنے، ویٹنگ رومز کے ٹوائلٹس جہاں آپ کو ٹشو پیپرز وغیرہ کبھی کبھار ہی ملیں گے، اگر ٹوائلٹ کے اندر مل بھی جائیں تو باہر ہاتھ صاف کرنے کے لیے تو کبھی بھی نہیں ملیں گے۔آپ ٹوائلٹ سے باہر آتے ہیں تو وہاں کھڑا ملازم انتہائی ادب کے ساتھ اور مسکراتے ہوئے جیب سے نکال کر فولڈ شدہ ٹشو پیپر پیش کرے گا اور ساتھ ہلکا سا یہ بھی کہہ دے گا سر کوئی ہمارے لیے بھی تحفہ ہو جائے حالانکہ یہ ٹشو پیپر جس جگہ پر ہونے چاہئیں تھے وہاں کے بجائے ''اسٹاف''کی جیب سے ہی کیوں نکلتے ؟
یہ ہمیشہ اسٹاف کے ہاتھ میں کیوں ہوتے ہیں؟ اور انھیں ''دہاڑی'' کے لیے ہی کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ اور فکر کی بات تو یہ ہے کہ یہ دہاڑی صرف ٹوائلٹ کی حد تک نہیں ہے بلکہ جب آپ ائیرپورٹ پر آتے ہیں تو آپ کو لگنے لگتا ہے کہ یہاں ہر شخص لالچ کا شکار ہے،کسی کی قیمت ٹکہ ہے اور کسی کی دو ٹکہ ۔ اگر خدانخواستہ سامان کچھ ایک دو کلو بڑھ جائے تو پھر سامان تولنے والوں کی مسکراہٹیں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ اُن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اُن کا سودا ہوجائے اور مسافر کچھ دے دلا کر سامان ساتھ لے جائے۔یہ پاکستانی ایئرپورٹس کے وہ رویے ہیں، جن کا آپ کو پاکستان چھوڑتے ہوئے اور آتے ہوئے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے کسی دوسرے ملک کے کبھی کسی ایئرپورٹ پر ایسا ماحول اور ایسی عادات نہیں دیکھیں۔میں نے کبھی دنیا میں ایسا نہیں دیکھا کہ کسی کا کوئی لینے والا آئے تو امیگریشن ڈیسک سے بھی آگے جا کر آپ کو ریسیو کرے۔
پاکستان کے تمام ایئر پورٹس پر با اثر افراد کو لینے کے لیے ان کے جاننے والے یا خصوصی لوگ امیگریشن ڈیسک سے بھی آگے پہنچے ہوتے ہیں اور خصوصی پروٹوکول کے تحت لائن میں لگے بغیر ہی اپنے مسافروں کو نکلوا کر باہر لے جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ لاہور ایئر پورٹ پر تو کسی فیملی کے رشتہ دار عین جہاز کے دروازے کے سامنے کھڑے تھے، جہاں صرف سیکیورٹی کا عملہ یا پھر خصوصی عملہ موجود ہوتا ہے۔ایسے دیگر کئی معاملات ہیں، جہاں آپ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ سری لنکا جیسے ملک کے ایئر پورٹ کا انتظام پاکستان سے کئی گنا بہتر لگتا ہے۔یہ پاکستانی ایئر پورٹس کا وہ امپریشن ہے، جو آپ اس ملک سے نکلتے ہوئے اور داخل ہوتے ہوئے حاصل کرتے ہیں۔
آپ خود بتائیں آپ ایسے ماحول میں کیسے ایئر پورٹ عملے کی عزت کریں گے؟اور جب کوئی مسافر اپنے حق کی بات کرتا ہے تو اسے زدوکوب کیاجاتاہے، میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا ہمیشہ سے معترف رہا ہوںاور اُن کے مخالفین بھی اُن کی حب الوطنی پر کبھی شک نہیں کرتے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اُن کی ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے؟ میں یہ نہیں کہتا کہ ان واقعات میں مسافروںکا کوئی قصور نہیں ہوتا ، میں کہتا ہوں کہ ان واقعات میں شاید 100فیصد قصور مسافروں کا ہی کیوں نہ ہو لیکن پھر بھی تشدد نہیں ہونا چاہیے 'قانونی کارروائی ضرور کی جانی چاہیے، میرے خیال میں یہ سارے پاکستانی مسافر ایئر پورٹس پر عملے کی اسی دن دل سے عزت کرنا شروع کر دیں گے۔
جس دن 'جس دن عملے کی کارکردگی اور معیار بہترین ہو گا 'کوئی یہ نہ کہے گا کہ مجھے بھی ہزار روپیہ دے کر جائیں ،جس دن کسی نے یہ نہ کہا کہ ہمیں بس ایک یورو کا نوٹ چاہیے جس دن وی آئی پی یا با اثر لوگوں کے رشتہ داروں کو خصوصی پروٹوکول ملنا بند ہو گیا جس دن ٹوائلٹ پیپر اپنی جگہ پڑے مل جائیں گے ... جس دن کسٹم کے لوگ بھاؤ تاؤ کیے بغیر مسافروں کو باہر جانے کی اجازت دیں گے یا ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کریں گے جس دن یہ سننے کو نہیں ملے گا کہ ''باؤ جی سفر پر جا رہے ہیں، ہمارے بچے دعائیں دیں گے'' جس دن سامان ڈھونے والا ہزار پانچ سو لیے بغیر آپ کا سامان بحفاظت پہنچا دے گا جس دن اہلکار مسافروں کی مشکلات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھتہ نہیں لیں گے ا یا جس دن وی وی آئی پی خود ایک عام مسافر کی طرح سفر کرکے خود کو محفوظ سمجھیں گے، اُس دن مسافر بھی عملے کی عزت کرنا شروع کردیں گے۔
میرے خیال میں مسئلہ یہ ہے کہ گِلہ کیا بھی جائے تو کس سے؟ جب سب لوگ اوپر سے نیچے تک بھائی بھائی ہیں،کوئی پانامہ میں پھنسا ہے تو کوئی سوئس بینکوں میں تو پھر شکایت کس سے کی جائے۔مجھے بہت برُا لگتا ہے یہ سن کر کہ جب لوگ کہتے ہیں کہ جتنی بدنظمی پاکستانی ائیرپورٹس پر پائی جاتی ہے، آج تک کسی اور ائیرپورٹ پر نہیں دیکھی جا سکتی۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہوائی اڈوں پر موجود اہلکار پاکستان کا چہرہ ہیں، اِس لیے وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ اِن کی تربیت کی جائے اور ائیر پورٹس پر موجود بے قاعدگیوں کو ختم کیا جائے تاکہ اسٹاف کے ذہنوں سے ''دہاڑی'' کا لفظ نکل سکے اور جس دن یہ لفظ نکل گیا نظام خود بخود ٹھیک ہو جائے گا...!
قارئین !اصلی ''جمہوریت'' کا مطلب آئین اور قانون کی حکمرانی ہے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کی سخت سزا ہے لیکن پاکستان میں معاملات اس کے برعکس ہیں ، چند دن پہلے پاکستانی ایئر پورٹ کی ایک ویڈیو منظرعام پر آئی، جس میںایف آئی اے کے اہلکاروں (جس میں ایک خاتون بھی شامل تھی )کی جانب کی طرف سے مسافر خواتین کو مارا پیٹا جا رہا تھا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ خواتین نے یہ پوچھا تھا کہ بیت الخلاء میں ٹوائلٹ پیپر کیوں نہیں ہیں؟پھر ایک دوسری ویڈیو سامنے آئی، جس میں کہا گیا کہ مسافر خواتین کی طرف سے زیادتی کی جا رہی تھی۔ اگر یہ سچ بھی ہے تو ان خواتین کو گرفتار کیا جانا چاہیے تھا لیکن مار پیٹ کرنا بتاتا ہے کہ ہمارا ایئر پورٹ عملہ کس قدر غیر پیشہ وارانہ ہے۔ بقول شاعر
عجب لوگ بستے ہیں تیرے شہر میں محسن
مرمت کانچ کی کرتے ہیں، پتھر کے اوزاروں سے
میں ملک کے تمام ایئر پورٹ دیکھ چکا ہوں۔ ان تمام ایئر پورٹس پر ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے ایئر پورٹس کے اندر اور باہر بنے، ویٹنگ رومز کے ٹوائلٹس جہاں آپ کو ٹشو پیپرز وغیرہ کبھی کبھار ہی ملیں گے، اگر ٹوائلٹ کے اندر مل بھی جائیں تو باہر ہاتھ صاف کرنے کے لیے تو کبھی بھی نہیں ملیں گے۔آپ ٹوائلٹ سے باہر آتے ہیں تو وہاں کھڑا ملازم انتہائی ادب کے ساتھ اور مسکراتے ہوئے جیب سے نکال کر فولڈ شدہ ٹشو پیپر پیش کرے گا اور ساتھ ہلکا سا یہ بھی کہہ دے گا سر کوئی ہمارے لیے بھی تحفہ ہو جائے حالانکہ یہ ٹشو پیپر جس جگہ پر ہونے چاہئیں تھے وہاں کے بجائے ''اسٹاف''کی جیب سے ہی کیوں نکلتے ؟
یہ ہمیشہ اسٹاف کے ہاتھ میں کیوں ہوتے ہیں؟ اور انھیں ''دہاڑی'' کے لیے ہی کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ اور فکر کی بات تو یہ ہے کہ یہ دہاڑی صرف ٹوائلٹ کی حد تک نہیں ہے بلکہ جب آپ ائیرپورٹ پر آتے ہیں تو آپ کو لگنے لگتا ہے کہ یہاں ہر شخص لالچ کا شکار ہے،کسی کی قیمت ٹکہ ہے اور کسی کی دو ٹکہ ۔ اگر خدانخواستہ سامان کچھ ایک دو کلو بڑھ جائے تو پھر سامان تولنے والوں کی مسکراہٹیں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ اُن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اُن کا سودا ہوجائے اور مسافر کچھ دے دلا کر سامان ساتھ لے جائے۔یہ پاکستانی ایئرپورٹس کے وہ رویے ہیں، جن کا آپ کو پاکستان چھوڑتے ہوئے اور آتے ہوئے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے کسی دوسرے ملک کے کبھی کسی ایئرپورٹ پر ایسا ماحول اور ایسی عادات نہیں دیکھیں۔میں نے کبھی دنیا میں ایسا نہیں دیکھا کہ کسی کا کوئی لینے والا آئے تو امیگریشن ڈیسک سے بھی آگے جا کر آپ کو ریسیو کرے۔
پاکستان کے تمام ایئر پورٹس پر با اثر افراد کو لینے کے لیے ان کے جاننے والے یا خصوصی لوگ امیگریشن ڈیسک سے بھی آگے پہنچے ہوتے ہیں اور خصوصی پروٹوکول کے تحت لائن میں لگے بغیر ہی اپنے مسافروں کو نکلوا کر باہر لے جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ لاہور ایئر پورٹ پر تو کسی فیملی کے رشتہ دار عین جہاز کے دروازے کے سامنے کھڑے تھے، جہاں صرف سیکیورٹی کا عملہ یا پھر خصوصی عملہ موجود ہوتا ہے۔ایسے دیگر کئی معاملات ہیں، جہاں آپ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ سری لنکا جیسے ملک کے ایئر پورٹ کا انتظام پاکستان سے کئی گنا بہتر لگتا ہے۔یہ پاکستانی ایئر پورٹس کا وہ امپریشن ہے، جو آپ اس ملک سے نکلتے ہوئے اور داخل ہوتے ہوئے حاصل کرتے ہیں۔
آپ خود بتائیں آپ ایسے ماحول میں کیسے ایئر پورٹ عملے کی عزت کریں گے؟اور جب کوئی مسافر اپنے حق کی بات کرتا ہے تو اسے زدوکوب کیاجاتاہے، میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا ہمیشہ سے معترف رہا ہوںاور اُن کے مخالفین بھی اُن کی حب الوطنی پر کبھی شک نہیں کرتے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اُن کی ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے؟ میں یہ نہیں کہتا کہ ان واقعات میں مسافروںکا کوئی قصور نہیں ہوتا ، میں کہتا ہوں کہ ان واقعات میں شاید 100فیصد قصور مسافروں کا ہی کیوں نہ ہو لیکن پھر بھی تشدد نہیں ہونا چاہیے 'قانونی کارروائی ضرور کی جانی چاہیے، میرے خیال میں یہ سارے پاکستانی مسافر ایئر پورٹس پر عملے کی اسی دن دل سے عزت کرنا شروع کر دیں گے۔
جس دن 'جس دن عملے کی کارکردگی اور معیار بہترین ہو گا 'کوئی یہ نہ کہے گا کہ مجھے بھی ہزار روپیہ دے کر جائیں ،جس دن کسی نے یہ نہ کہا کہ ہمیں بس ایک یورو کا نوٹ چاہیے جس دن وی آئی پی یا با اثر لوگوں کے رشتہ داروں کو خصوصی پروٹوکول ملنا بند ہو گیا جس دن ٹوائلٹ پیپر اپنی جگہ پڑے مل جائیں گے ... جس دن کسٹم کے لوگ بھاؤ تاؤ کیے بغیر مسافروں کو باہر جانے کی اجازت دیں گے یا ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کریں گے جس دن یہ سننے کو نہیں ملے گا کہ ''باؤ جی سفر پر جا رہے ہیں، ہمارے بچے دعائیں دیں گے'' جس دن سامان ڈھونے والا ہزار پانچ سو لیے بغیر آپ کا سامان بحفاظت پہنچا دے گا جس دن اہلکار مسافروں کی مشکلات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھتہ نہیں لیں گے ا یا جس دن وی وی آئی پی خود ایک عام مسافر کی طرح سفر کرکے خود کو محفوظ سمجھیں گے، اُس دن مسافر بھی عملے کی عزت کرنا شروع کردیں گے۔
میرے خیال میں مسئلہ یہ ہے کہ گِلہ کیا بھی جائے تو کس سے؟ جب سب لوگ اوپر سے نیچے تک بھائی بھائی ہیں،کوئی پانامہ میں پھنسا ہے تو کوئی سوئس بینکوں میں تو پھر شکایت کس سے کی جائے۔مجھے بہت برُا لگتا ہے یہ سن کر کہ جب لوگ کہتے ہیں کہ جتنی بدنظمی پاکستانی ائیرپورٹس پر پائی جاتی ہے، آج تک کسی اور ائیرپورٹ پر نہیں دیکھی جا سکتی۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہوائی اڈوں پر موجود اہلکار پاکستان کا چہرہ ہیں، اِس لیے وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ اِن کی تربیت کی جائے اور ائیر پورٹس پر موجود بے قاعدگیوں کو ختم کیا جائے تاکہ اسٹاف کے ذہنوں سے ''دہاڑی'' کا لفظ نکل سکے اور جس دن یہ لفظ نکل گیا نظام خود بخود ٹھیک ہو جائے گا...!