گزری دنیا کی کہانی نثار عزیز بٹ کی زبانی تیسرا اور آخری حصہ

ان تمام رونقوں اور چہچہوں کے درمیان نثار ملکی صورت حال سے نالاں و بیزار ہیں


Zahida Hina April 25, 2017
[email protected]

نثار کے شوہر اصغر بٹ کا تبادلہ کراچی ریڈیو اسٹیشن ہوگیا تھا، وہ بھی کراچی چلی آئیں، کچھ دنو ں یہاں رہیں اور یہاں کے ادیبوں میں یوں رل مل گئیں جیسے ان ہی میں سے ایک ہوں۔ قرۃالعین حیدر سے دوستی اگر ایک سرمایہ تھی تو ممتاز شیریں کو دھیرے دھیرے موت کی طرف بڑھتے دیکھنا ان کے لیے ایک ذاتی المیہ تھا۔ ایسے میں صمد شاہین جب دوسری شادی کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں تو نثار تیکھے لہجے میں کہتی ہیں 'ضرور کرلیں لیکن آپ کو دوسری ممتاز شیریں نہیں ملے گی'۔

وہ 'پین' کے ایشیائی ادیبوں کی کانفرنس میں شریک ہوتی ہیں اور بہت گرم جوشی سے ہندوستان اور دوسرے ملکوں کے ادیبوں سے ملتی ہیں۔ دوسرے ناول 'نے چراغے نے گُلے' پر 6 مئی 1959ء میں کام شروع کرچکی ہیں، لیکن اپنی تحریری رفتار سے خوش نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس ناول کا کینوس بہت وسیع تھا اور 1921ء سے 1947ء تک پھیلا ہوا تھا۔ اس ناول کو لکھنے کے لیے کچھ کتابوں کی فہرست انھیں قرۃالعین حیدر نے دی تھی جس میں سے ایک اسپنگلر کی ''زوال مغرب'' تھی۔

وہ اس ناول کو لکھنے کے لیے دلی کا سفر بھی کرتی ہیں۔ جولائی 64ء سے انھوں نے انگریزی ادبی کالم 'لٹریری سین' لکھنا شروع کردیا تھا۔ ہنری کسنجر نے انھیں اطلاع دی کہ 1965ء کے سمر سیمینار کے لیے انھیں منتخب کرلیا گیا ہے اور انھیں ہارورڈ پہنچنا ہے۔ اس خبر نے انھیں خوش کیا اور غمگین بھی کہ 6 ہفتوں کے لیے بچوں سے جدا رہنا ہوگا۔ وہ روتی دھوتی ہارورڈ پہنچتی ہیں جہاں ان کی ہنری کسنجر سے مشرق و مغرب کے حوالے سے دلچسپ اور زوردار بحثیں ہوتی ہیں۔

ان تمام رونقوں اور چہچہوں کے درمیان نثار ملکی صورت حال سے نالاں و بیزار ہیں۔ مارشل لا لگ چکا ہے اور ملک فوج شاہی کے چنگل میں ہے جس کی مدد کے لیے افسر شاہی دست بستہ ہے۔ وہ بلاکسی جھجھک کے لکھتی ہیں کہ ایوب خان کے مارشل لا اور پھر بنیادی جمہوریت نے بارہ برس کے دوران سچی سیاست کو تہس نہس کردیا تھا۔ اسی لیے جب انتخابات کا اعلان ہوا تو لوگوں نے ذوق شوق سے سیاست میں حصہ لیا۔ نثار کے عزیز ہر نوعیت کی اشتراکیت کے خلاف تھے اسی لیے بھٹو صاحب کا نعرہ 'روٹی ، کپڑا اور مکان، مانگ رہا ہے ہر انسان۔' ان لوگوں کو بہت ناگوار گزرتا، اگر گھر کے دروازے پر کوئی فقیر بھی آجاتا تو اس سے طنزاً کہا جاتا کہ 'جاؤ، بھٹو صاحب سے مانگو۔' ملکی سیاست سر کے بل کھڑی ہوگئی تھی۔

انتخابات ہوچکے تھے لیکن مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب الرحمان کو اقتدار دینے کے لیے تیار نہیں تھا جب کہ بنگالی اکثریت میں تھے۔ 3 مارچ 1971ء سے مشرقی پاکستان میں سول نافرمانی شروع ہوگئی۔ اسی کشمکش میں یحییٰ خان نے 25 مارچ 1970ء کو ڈھاکا میں مارشل لا لگا دیا، لاہور میں سب بہت خوش تھے لیکن نثار محفل سے یہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئیں کہ ''آج پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے''۔ اسی روز بھٹو صاحب نے جب مارشل لا لگانے کے حوالے سے یہ کہا کہ 'پاکستان بچ گیا' تو ان کا یہ جملہ نثار کی سمجھ میں نہیں آیا۔ پاکستان کہاں بچا تھا۔ فوجی سپاہی ڈھاکا میں اخبار ''پیپل'' کا دفتر مسمار کررہے تھے۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اس دفتر سے باہر نکلنے والے مشین گنوں کے سائے میں بٹھائے جارہے تھے۔ ٹینک شہر میں گشت کررہے تھے۔ پاکستان بھلا کیسے بچ گیا تھا؟ نثار ڈھاکا جاتی ہیں، چند رشتہ داروں سے ملنے، انھیں ساتھ لے کر واپس آنے، لیکن واپسی کے راستے پر بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ مشرقی پاکستان میں سول نافرمانی کی تحریک پھیل چکی ہے۔

آزاد خیال دنیا پورے جوش سے مشرقی پاکستان کی خودمختاری کی حمایت کررہی ہے۔ پاکستانی فوج پر بے پناہ مظالم ڈھانے کا الزام لگ رہا ہے۔ مشرقی پاکستان سے لاکھوں لوگ سرحد عبور کرکے ہندوستان میں داخل ہورہے ہیں۔ مغربی پاکستان کی سرحدوں پر حملہ ہوچکا ہے۔ نثار کرب وبلا میں مبتلا ہیں، آخرکار وہ پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈالتے دیکھتی ہیں اور زار زار روتی ہیں۔ 47 میں لاکھوں لوگ کیا اس لیے مارے گئے تھے، گھر سے بے گھر ہوئے تھے کہ وہ ملک دولخت ہوجائے، جو سب ہی کا آشیانہ تھا۔ وہ خدا سے دعائیں کرتی رہتی ہیں۔ خدایا، ہم ذلت سے بچ جائیں۔ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ خودغرضی، حرص، نفاق اور بددیانتی ہمارا شعار رہی ہے لیکن اے خدا ہمیں شکست کی ذلت سے دوچار نہ کر۔

نثار ابتدا سے ادیب بننا چاہتی تھیں، انھوں نے ادیب بن کر دم لیا لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے اندر کا ایک کھرا اور دیانت دار انسان کھل کر سامنے آگیا جو سیاست کی فہم رکھتا تھا اور جس کے دل میں ملک اور اس کے لوگوں کا درد تھا۔ پہلے وہ بٹوارے پر چہکو پہکو روتی تھیں اور اب پاکستان دولخت ہوا تو انھوں نے آنکھوں سے دریا بہا دیے۔

ایوب حکومت کی انھوں نے اس لیے کھل کر مخالفت نہ کی کہ کہیں اس طرح ملک کو نقصان نہ پہنچ جائے لیکن جب انھیں اندازہ ہوا کہ ایوب حکومت سے ملک کو کس قدر نقصان پہنچ رہا ہے تو وہ اس کی شدید مخالف ہوگئیں۔ یحییٰ کا دور شروع ہوا تو وہ پہلے دن ہی جیل چلی جانا چاہتی تھیں۔1971ء میں پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد وہ کبھی مشرقی بنگال کے ادیبوں اور بے گناہ شہریوں کو یاد کرکے روتیں جو ماردیے گئے، کبھی کٹے پھٹے پاکستان کا غم مناتیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ میری ذاتی زندگی آرام سے گزر رہی تھی لیکن سیاسی مدوجزر کے سبب میرے شب و روز یوں گزرتے جیسے میں پھانسی کی کوٹھری میں قید ہوں۔

ان کی زندگی ذاتی اور خاندانی جھمیلوں میں گزرتی رہی۔ مختصر آمدنی اس میں دراز دسترخوان۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سرکاری افسروں کو رشوت کی دیمک نہیں لگی تھی اور شان و شوکت کے مظاہرے کا مرض بھی لاحق نہیں ہوا تھا، لیکن یہ سب کچھ شروع ہونے والا تھا۔ انھیں بھٹو صاحب کی سیاست کے بہت سے پہلوؤں سے اختلاف تھا لیکن سمجھتی تھیں کہ جمہوریت کا تسلسل جاری رہے تو سماج کا بہتری کی طرف سفر جاری رہے گا۔ پھر وہ سیاہ دن آئے جب بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ گلے کی رگیں پھلا کر 'نظام مصطفیٰ' کے نعرے لگانے والے خوش ہوئے کہ بھٹو سے نجات ہوئی لیکن ان کی زندگی جعلی سیاستدانوں کی موت تھی۔ ان پر قتل کا جھوٹا مقدمہ چلا، اس مقدمے کے دوران رائے عامہ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ جنرل ضیاء الحق کو علم تھا کہ قبر ایک ہے اور اس میں صرف ایک ہی شخص دفن ہوسکتا ہے۔

انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو اس قبر میں دفن کرنے کا فیصلہ کیا۔ نثار کے اردگرد ان لوگوں کا ہجوم تھا جو ہر قیمت پر بھٹو صاحب کی پھانسی چاہتے تھے۔ یہ برس نثار پر قیامت بن کر گزرے۔ انھیں نظر آرہا تھا کہ بھٹو نامی ایک فرد کو نہیں، جمہوریت کو پھانسی دی جارہی ہے۔ وہ ہر محفل میں کسی لحاظ کے بغیر چیخ چیخ کر جمہوریت کے لیے لڑتیں اور زار زار روتیں۔ ضیاء الحق کی حکومت میں اصغر وزارت ثقافت سے وابستہ تھے اور فلمی میلے کراتے۔ نثار سرکاری تقریبات میں شریک نہ ہوتیں۔ انھیں ضیا حکومت سے کسی قسم کی وابستگی منظور نہیں تھی۔ وہ بستر پر لیٹی اس امید موہوم کا دامن تھامے رہتیں کہ آخرکار بھٹو رہا ہو جائیں گے۔ وہ ایک ایک سے بحث کرتیں کہ ملک کے مسائل کا حل بھٹو کے پھانسی میں نہیں، جمہوریت میں ہے۔ ان ہی دنوں امریکی سفارت خانے کی طرف سے انھیں امریکا کے 12 شہروں کے دورے پر بھیجا گیا۔

ان سے پوچھا گیا کہ وہ وہاں کس امریکی سے ملنا پسند کریں گی، انھوںنے فوراً ہنری کسنجر کا نام لے دیا جو حال میں ہی وزیر خارجہ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ ان کے قریبی حلقے میں یہ اڑگئی کہ وہ بھٹو کی رہائی کے سلسلے میں پسِ پردہ گفتگو کے لیے گئی ہیں۔ سرتاج عزیز روم میں اعلیٰ عہدے پر تھے، نثار بھائی کے پاس کئی ہفتے ٹھہریں اور جی بھر کر روم کی قدیم اور تاریخی عمارتوں کی سیر کی۔ جب بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی تو وہ بن جل کی مچھلی کی طرح تڑپیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک اور جمہوریت کے لیے ایک ایسی آفت ہے جس کے سائے بہت دور تک جائیں گے۔ ان کے لوگوں سے مباحثے طویل اور تلخ ہوتے گئے۔

بھٹو صاحب کی پھانسی ان کے سینے کا ناسور بن گئی، وہ اسے ہر مرحلے پر یاد کرتی ہیں۔ لوگ کہتے تھے کہ آپ تو پیپلز پارٹی کی ممبر بھی نہیں ہیں پھر آپ کو کیا غم۔ وہ یہ سن کر برا فروختہ ہو جاتیں۔ ان کے خیال میں پاکستان کے عوام کا حق تھا کہ اس شخص کو ان سے نہ چھینا جائے جو ان کی آنکھوں میں خواب رکھ رہا تھا۔ عوام کے منتخب وزیراعظم کی معزولی اور پھانسی پر ان کا یہ کہنا کتنا درست تھا کہ یہ پھانسی ایک فرد کو نہیں بلکہ جمہوریت کو دی جارہی ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ جمہوریت کو پھانسی دینے کی کوششیں آج بھی جاری ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں