’ فیصلہ کے بعد ‘
عمران خان سےکسی کوکتناہی اختلاف کیوں نہ ہو، یہ تسلیم کیےبغیرچارہ نہیں کہ یہ ان کی مسلسل احتجاجی مہم ہی ہے
وہی ہوا، جس کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا؛ یعنی یہ خیال درست ثابت نہ ہو سکا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی پانامہ لیکس کا ہنگامہ ختم ہو جائے گا۔ ہوا یہ ہے کہ فیصلہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، اور تنازع مزید شدت کے ساتھ بھڑک اٹھا ہے۔ ظاہراً اس کی وجہ یہ ہے کہ خودسپریم کورٹ کا بنچ کسی متفقہ فیصلہ پر نہیں پہنچ سکا، بلکہ یہ عدالتی تاریخ کا شاید پہلا فیصلہ ہے ، جو شروع ہی اختلافی نوٹ سے ہوتا ہے، یعنی جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ان ریمارکس سے کہ' دولت کے ہر انبار کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑاجرم ہوتا ہے۔' یہ الفاظ Mario Puzo کے ناول God Father سے مستعار لیے گئے ہیں۔
پانامہ لیکس پرعدالتی فیصلہ خاصا دلچسپ ہے؛ یعنی جناب جسٹس آصف کھوسہ، جو بنچ کے سربراہ اور مستقبل کے چیف جسٹس ہیں اور ان کے بعد سینئر ترین جج جناب جسٹس گلزارنے وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا ہے، جب کہ باقی تین ججوں نے بھی ان کو کلین چٹ نہیں دی۔ البتہ ان کی نااہلی کے بارے میں حتمی فیصلے کو جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے تک موخر کردیا ہے۔ چونکہ فیصلہ آچکا ہے، لہٰذا قانونی طور پر بھی اب فیصلہ کے حسن و قبح پر بات کی جاسکتی ہے۔ عرض یہ ہے کہ پورا فیصلہ پڑھنے کی مشقت جھیلنے کے بعد یہ کالم نگار اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ بظاہر وزیراعظم کو جے آئی ٹی کے نام پر عبوری ریلیف دیا گیا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
حکومت کے حامی یہ جوکہہ رہے ہیں کہ بھارت میں بھی پانامہ لیکس پر اس طرح کی جے آئی ٹی بنائی گئی ہے؛ اس کا حوالہ یہاں اس لیے نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ بھارت میں جے آئی ٹی اس لیے بنائی گئی کہ جن بھارتیوں کے نام پانامہ لیکس میں آئے ہیں، انھوں نے اپنے آف شور کمپنیوں کی ملکیت سے انکار کردیا ہے۔ چنانچہ یہ معلوم کرنے کے لیے کیا واقعی وہ آف شور کمپنیاں ان لوگوں کی ہیں' جن کے نام سے پانامہ لیکس میں ظاہر کی گئی ہیں، جے آئی ٹی بنائی گئی۔ یہاں بھی ایسے لوگوں کے لیے جے آئی ٹی بنانے کی ضرورت ہوگی، جو اپنی آف شور کمپنیوں سے انکار کرتے ہیں؛ لیکنوزیراعظم کے صاحبزادوں کا کیس مختلف ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ پانامہ لیکس میں منکشف ہونے والی اپنی آف شور کمپنیوں اورمے فیئر فلیٹس کی ملکیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔
جے آئی ٹی پر اس اعتراض میں بھی بڑا وزن ہے کہ سپریم کورٹ دوران سماعت نیب اور ایف آئی اے سمیت حکومت کے ماتحت تمام تحقیقاتی اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکی ہے۔ اس پس منظر میں حکومت کے ماتحت عہدے داروں سے یہ توقع رکھنا محال ہے کہ وہ وزیراعظم اور ان کے بچوں کو طلب کرکے ان کے خلاف بغیر کسی دباو کے تحقیقات کرسکتا ہے۔ یوں بھی قاعدہ یہ ہے کہ کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں اگر کسی عہدے دار کے خلاف کوئی شکایت ہو ، تو اس کی انکوائری اس سے سینئر عہدے دارہی کرتا ہے۔
لہٰذا چیف ایگزیکٹو آف پاکستان کے خلاف انکوائری ظاہراً جے آئی ٹی کے بس کی بات نہیں۔ جے آئی ٹی پر 'مانیٹر' ضرورلگا دیاگیا ہے، یعنی ہر پندرہ روز بعد جے آئی ٹی کو اپنی انکوائری رپورٹ سپریم کورٹ کے ساتھ شیئر کرنا ہو گی، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی کو اپنی مرضی کے مطابق چلا بھی سکتی ہے، یا اس سے اپنی مرضی کے نتائج بھی لے سکتی ہے۔ اس طرح بنچ کے اکثریتی فیصلہ کے طرح جے آئی ٹی کی اکثریتی رپورٹ بھی وزیراعظم نوازشریف کے لیے مزید آسانیاں پیدا کرسکتی ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے، جس کی بنیاد پر اپوزیشن کی چاروں بڑی پارٹیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم کی انکوائری کے لیے جے آئی ٹی کے بجائے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے اور وزیراعظم فی الفور مستعفی ہوں تاکہ اپنے خلاف انکوائری پر اثرانداز نہ ہو سکیں۔ عمران خان نے ہمیشہ کی طرح ایک قدم آگے بڑھ کر پھر سے احتجاجی جلسے جلوسوں کا اعلان بھی کردیا ہے۔ عمران خان کی اسٹریٹجی یہ معلوم ہوتی ہے کہ اب جب کہ پانامہ لیکس پر ان کے موقف کو سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں کی تائید بھی حاصل ہو گئی ہے، تو حکومت پر دباومزید بڑھایا جائے۔
عمران خان سے کسی کو کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو، یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ ان کی مسلسل احتجاجی مہم ہی ہے، جس نے پانامہ لیکس کا مسئلہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی زندہ رکھا ہوا ہے اور اس مسئلہ کو دبانے کی حکومت کی ہر کوشش ناکام ہو گئی ہے۔ ان کی احتجاجی مہم کے نتیجہ میں ہی سپریم کورٹ نے اس کیس کو ٹیک اپ کیا، ورنہ اس سے پہلے وہ یہ کیس واپس بھیج چکی تھی۔ اب اگرچہ وزیراعظم نواز شریف تکنیکی بنیادوں پر نااہلی سے بچ گئے ہیں، لیکن ان کے مقابلہ میں عمران خان کی یہ کامیابی معمولی نہیں کہ پانامہ لیکس پر ان کے موقف پر اب سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججوں کی مہر تصدیق بھی ثبت ہو گئی ہے۔ 'اختلافی فیصلہ' میں جوکچھ لکھا گیاہے، اس مواد کو ظاہر ہے کہ عمران خان حکومت کے خلاف اپنی نئی احتجاجی مہم میں بھرپور طور پر استعمال کریں گے۔
پانامہ لیکس پر پیپلزپارٹی سپریم کورٹ میں بھی حکومت کے خلاف فریق بننے پر راضی نہ ہوئی، بلکہ عمران خان کو بھی سپریم کورٹ جانے سے منع کرتی رہی۔ لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آتے ہی آصف زرداری وزیراعظم نوازشریف سے استعفاکا مطالبہ لے کر میدان میں آ گئے ہیں۔ ملک بھر میں حکومت کے خلاف احتجاجی جلسے جلوسوں کا شیڈول بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی بھی پہلی بار استعفا کے مطالبہ پر یکسو نظر آرہی ہے۔ سراج الحق، اپوزیشن کو اس مطالبہ پر متحد کرنے کے لیے اپوزیشن رہ نماوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ظاہراً پہلی بار اپوزیشن وزیراعظم سے استعفا مانگنے کے مطالبہ پر متفق نظر آرہی ہے۔
پانامہ کیس کا فیصلہ آنے پرحکومت اور اس کے حامیوں نے ابتدائی طور پر ڈھول بھی بجائے اور مٹھائیاں بھی بانٹیںکہ جیسے وزیراعظم کی جان پانامہ کیس سے چھوٹ گئی ہے؛ لیکن جیسے جیسے تفصیلی فیصلہ کے مندرجات ٹی وی چینلوں پر مشتہر ہونا شروع ہوئے، حکومت اور ان کے حامیوں کی پریشانی عود کرآئی۔ معلوم یہ ہوا کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کو پانامہ کیس میں بری کرنے کے بجائے مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس پریشانی میں اضافہ اس طرح ہوا کہ اپوزیشن وزیراعظم کے استعفا پر متحد ہو کر سامنے آ گئی۔ یوں، پانامہ لیکس پر عدالتی فیصلہ کے بعد سیاسی منظر نامہ یہ ہے کہ حکومت کے خلاف پانامہ کا مقدمہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ ایک بار پھر سڑکوں پر ہے، اس طرح کہ جیسے یہ مقدمہ کبھی سپریم کورٹ میں گیا ہی نہ ہو اور اس پر کوئی فیصلہ آیا ہی نہ ہو۔ اس لحاظ سے یہ عدالتی فیصلہ اگلے '20 سال' تو کیا 'صدیوں تک ' تک یاد رکھا جائے گا۔ شاعر نے کہا تھا ،
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تھی وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے