احتساب کی کرن
جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، ایم آئی سمیت تمام تحقیقاتی ادارے شامل ہوں گے
QUETTA:
پاناما کیس کا فیصلہ شاید ملکی تاریخ کا وہ واحد فیصلہ ہے جس کے انتظار میں کسی بھی معاملے کی کوئی اہمیت نہیں رہی تھی، ہر چیز ثانوی حیثیت اختیار کرگئی تھی، پوری قوم اور سیاسی جماعتیں دم سادھے فیصلے کی منتظر تھیں، یہ کب آئے گا؟ یہ کیا ہوگا؟ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس طرح کے دیگر بہت سے سوالات ذہنوں میں پیدا ہورہے تھے۔
اب جب سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں جوائنٹ انویسٹی گیشن (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا فیصلہ سنادیا ہے تو تمام جماعتیں اسے اپنی فتح قرار دے رہی ہے اور ہر کوئی اپنی مرضی سے فیصلے کی تشریح کرکے فتح کے گن گنگنارہا ہے، جب کہ اس کے برعکس ایک عام آدمی مایوسی کی گہری دلدل میں اترتا دکھائی دے رہا ہے۔ عام آدمی میں اپنے مسائل، الجھنوں، اشتعال اور تلخیوں کی وجہ سے غصہ پل رہا ہے، موجودہ کرپٹ، ظالمانہ، استحصالی نظام کے خلاف وہ کس قدر اشتعال، بیزاری اور نفرت رکھتے ہیں، یہ جاننے کے لیے کسی بھی عام چائے خانے میں چلے جائیں، چھوٹے بڑے شہر کے بازار میں جائیں، تھڑے پر بیٹھے لوگوں سے گپ شپ کریں۔
ریڑھی والوں سے بات کریں، حکمرانوں اور موجودہ حکمران سسٹم کے بارے میں سوال کریں، ہر ایک ایسی ایسی خوفناک وحشیانہ سزائیں ان سب کے لیے تجویز کرے گا کہ انھیں اخبار میں چھاپنا یا ٹی وی پر چلانا ممکن نہیں ہوسکے گا۔ ایسا اس لیے ہے کہ رات دن کرپشن کے بت کی پوجا کرنے والوں نے پاکستان کے چہرے پر جا بجا سوراخ کردیے ہیں، خون رس رہا ہے، مگر اس کی پرواہ کیے بغیر وہ یہ کہتے ہوئے عام آدمی کا دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ غم نہ کرو، خون کا بہنا بند ہوگا تو دنیا دیکھے گی کہ زینت کتنی بڑھ گئی ہے۔ پاکستان کے چہرے پر کرپشن اور وسائل کی بندر بانٹ کے سوراخ بڑھتے جارہے ہیں، ہر سوراخ چھپانے کے لیے اس پر نقش و نگار بنادیے جاتے ہیں۔
اس دکھ سے قطع نظر پاناما کیس کے فیصلے پر غور کیا جائے تو حقیقی صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کیس ختم نہیں ہوا، بلکہ آگے بڑھا ہے۔ فیصلے سے کہانی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس میں ایک سنسنی خیز موڑ آگیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ الف لیلوی داستان کی طرح دراز ہونے والی پاناما لیکس کی کہانی میں نیا موڑ ثابت ہوگا تو بے جا نہیں ہوگا۔
عدالت نے شروع سے آخر تک ثبوتوں کی فراہمی کی بات کی، جس میں دونوں فریقین بہت حد تک ناکام رہے، ایسے موقع پر کوئی جذباتی فیصلہ دینے کے بجائے عدالت نے حق کی بات کی، ثبوتوں کی فراہمی کے لیے مزید وقت دیا گیا، انکوائری ٹیم بنانے کی سفارش کی گئی جو موجودہ صورتحال میں اس نازک مسئلے کا بہترین حل تھا، عدالتوں نے انصاف کا پرچم بلند کیا، عدل کی طرف رہنمائی کی، حق کی بات کی، جس پر عدلیہ لائق تحسین ہے۔
یہ فیصلہ ندرت، انفرادیت اور گہرے مضمرات کا حامل ہے، اس لیے یہ تاریخی فیصلہ ہے اور اس میں کچھ باتیں ایسی ہیں جو صدیوں یاد رکھی جائیں گی، اس فیصلے میں محض الزام کی بنیاد پر کسی کو گھر نہیں بھیجا گیا، خفیہ راستے سے اقتدار میں آنے والوں کے لیے راہ ہموار نہیں کی گئی، جمہوریت کی تذلیل نہیں کی گئی اور نہ ہی بحرانی کیفیت میں فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دی گئی۔ اس فیصلے سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ہر شخص جواب دہ ہے اور ہر شخص سوال کرسکتا ہے، جھوٹ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا، بغیر ثبوت کے الزام کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، یہ فیصلہ احتساب کی کرن ثابت ہوا ہے، اب جو انکوائری کمیشن بن گیا ہے تو اس پر اعتماد کرنا چاہیے، اس کا احترام کرنا چاہیے۔
جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، ایم آئی سمیت تمام تحقیقاتی ادارے شامل ہوں گے، ہر 2 ہفتے بعد بینچ کے سامنے رپورٹ پیش ہوگی، ٹیم 60 روز میں تحقیقات مکمل کرے گی، وزیراعظم اور ان کے صاحبزادوں سے مختلف سوالات پوچھے جائیں گے، کم عمر بیٹوں نے 90ء کی دہائی میں لندن فلیٹس کیسے خریدے، سرمایہ کیسے جدہ، لندن اور قطر پہنچا، گلف اسٹیل مل کیسے بنی، کس طرح فروخت ہوئی، گلف اسٹیل فروخت ہوئی تو واجبات کیسے منتقل ہوئے، حسن نواز نے کیسے ان کمپنیز کو حاصل کیا۔
قطریوں کے فلیٹس میں شیئرز کی شفافیت کیا ہے، قطری شہزادے کا خط آنا حقیقت ہے یا افسانہ، ان کمپنیز کو چلانے کے لیے اربوں روپے کا سرمایہ کہاں سے آیا، نیلسن اور نیسکول کمپنیوں سے فائدہ اٹھانے والے کون ہیں، نواز شریف کو بچوں نے کروڑوں روپے کے تحفے کیسے دیے؟ وغیرہ وغیرہ، ان سب سوالوں کا جواب دینا حکمراں جماعت کے لیے اتنا آسان نہیں ہوگا بلکہ لوہے کے چنے چبوانے کے مترادف ثابت ہوگا۔ یہ سب دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں برسوں کی بدعنوانی کا گند صاف کرنے کے لیے قدرت نے ہمیں ایک موقع فراہم کیا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کے مستقبل کا دارو مدار سات سمندر پار سے اٹھنے والی اس لہر پر ہے، پاناما تاریخ رقم کرنے کا ایک سنہری موقع ہے، اس سے بھی بڑھ کر، اس کے پاس پاکستان کے مستقبل کو ڈھالنے کا موقع ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ شریف خاندان قسمت کے دھنی ہیں، ان کے اہم ترین افراد پاکستان کی ہنگامہ خیز سیاسی تاریخ کے کامیاب ترین سیاستدان ثابت ہوئے، ان شاندار افراد نے کبھی بدقسمتی کا منہ نہیں دیکھا، نہ ہی حالات کے جبر کا شکار ہوئے، فوجی آمر کی انگلی پکڑ کر مسکراتے ہوئے سیاسی عہدوں پر فائز ہوئے، اقتدار ملتے ہی ان کے ہاتھ پارس پتھر لگ گیا، دیکھتے ہی دیکھتے انتہائی متمول سرمایہ دار بن گئے۔ مشرف کے شب خون کے بعد ان کے خلاف بہت سی تحقیقات شروع ہوئیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتیں شریف برادران اپنے صحرائی دوستوں کا ہاتھ تھام کر یہ جا وہ جا۔
اس کے بعد جمہوریت کی واپسی ہوئی تو یہ دوبارہ اقتدار کے مسند نشین ٹھہرے، پی پی نے اپنے دور حکومت میں شریف برادران کے کے خلاف کیسز نہ کھولے، جب کہ شریف برادران بھی دوسرے فریق کی الف لیلیٰ سناتے رہے، شریف برادران نے عقل مندی سے کلیئرنس کے لیے عدالتوں کا رخ کیا، عدالتوں نے بھی مضبوط استغاثہ کی غیر موجودگی میں انھیں ریلیف دیدیا۔ الغرض شریف برادران کی راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی، ان کے خلاف عدالت میں بھی کچھ ثابت نہیں ہوسکا، قانونی اصطلاح میں وہ دودھ کے دھلے نکلے، حتیٰ کہ اصغر خان کیس بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا۔ ماڈل ٹاؤن کیس بھی سرد خانے کی نذر ہوگیا، لیکن اچانک جیسے لہر پلٹا کھاجاتی ہے، پاناما کیس قسمت کے کوڑے کی طرح لہرایا، قہر یہ ہے کہ اب شریف فیملی بارگین بھی نہیں کرسکتی، عدلیہ ماضی کو دفن کرتے ہوئے آزاد فضا میں سانس لے رہی ہے۔
بعض اہل قلم کی رائے ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں قیام سے لے کر اب تک کسی کمیشن، ٹربیونل یا انویسٹی گیشن نے کوئی بامقصد نتیجہ نہیں نکالا، ان کے ذریعے یا تو صرف کسی ایشو سے توجہ ہٹائی گئی یا اس کی باعزت تدفین کی گئی، چنانچہ اب قائم ہونے والی جے آئی ٹی سے کسی معجزے کی امید کیسے رکھی جائے؟ ان کی خدمت میں فقط اتنی سے گزارش ہے کہ جو ماضی میں کبھی نہیں ہوا تو کیا آیندہ بھی وہ کبھی نہیں ہوگا، نہیں جناب نہیں، آج کا پاکستان ماضی کا پاکستان نہیں، آج پوری قوم کرپشن کو نمبر ون مسئلہ سمجھتی اور اس سے نجات چاہتی ہے اور ماضی کی طرح اب پاناما کیس سرد خانے کی نذر کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔
حرف آخر یہی ہے کہ یہ سب کچھ بدلنا ہوگا، دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتسابی عمل کی طرف پیشرفت کرنا ہوگی، کرپشن، چھپی ہوئی دولت اور اہل اقتدار و اہل ثروت خاندانوں کے ٹیکس چوری پر بریک لگنے کے دن آگئے ہیں، حکومت کرنا سیاستدانوں کا کام ہے، فوج کو ادھر نہیں آنا چاہیے، البتہ ملک بچانے، سنوارنے کے لیے ہر ممکن حد تک جانا ضروری نہیں بلکہ لازمی ہوگیا ہے، ایک موقع قوم کے ہاتھ آیا ہے، اسے گنوانا نہیں چاہیے۔
پاناما کیس کا فیصلہ شاید ملکی تاریخ کا وہ واحد فیصلہ ہے جس کے انتظار میں کسی بھی معاملے کی کوئی اہمیت نہیں رہی تھی، ہر چیز ثانوی حیثیت اختیار کرگئی تھی، پوری قوم اور سیاسی جماعتیں دم سادھے فیصلے کی منتظر تھیں، یہ کب آئے گا؟ یہ کیا ہوگا؟ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس طرح کے دیگر بہت سے سوالات ذہنوں میں پیدا ہورہے تھے۔
اب جب سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں جوائنٹ انویسٹی گیشن (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا فیصلہ سنادیا ہے تو تمام جماعتیں اسے اپنی فتح قرار دے رہی ہے اور ہر کوئی اپنی مرضی سے فیصلے کی تشریح کرکے فتح کے گن گنگنارہا ہے، جب کہ اس کے برعکس ایک عام آدمی مایوسی کی گہری دلدل میں اترتا دکھائی دے رہا ہے۔ عام آدمی میں اپنے مسائل، الجھنوں، اشتعال اور تلخیوں کی وجہ سے غصہ پل رہا ہے، موجودہ کرپٹ، ظالمانہ، استحصالی نظام کے خلاف وہ کس قدر اشتعال، بیزاری اور نفرت رکھتے ہیں، یہ جاننے کے لیے کسی بھی عام چائے خانے میں چلے جائیں، چھوٹے بڑے شہر کے بازار میں جائیں، تھڑے پر بیٹھے لوگوں سے گپ شپ کریں۔
ریڑھی والوں سے بات کریں، حکمرانوں اور موجودہ حکمران سسٹم کے بارے میں سوال کریں، ہر ایک ایسی ایسی خوفناک وحشیانہ سزائیں ان سب کے لیے تجویز کرے گا کہ انھیں اخبار میں چھاپنا یا ٹی وی پر چلانا ممکن نہیں ہوسکے گا۔ ایسا اس لیے ہے کہ رات دن کرپشن کے بت کی پوجا کرنے والوں نے پاکستان کے چہرے پر جا بجا سوراخ کردیے ہیں، خون رس رہا ہے، مگر اس کی پرواہ کیے بغیر وہ یہ کہتے ہوئے عام آدمی کا دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ غم نہ کرو، خون کا بہنا بند ہوگا تو دنیا دیکھے گی کہ زینت کتنی بڑھ گئی ہے۔ پاکستان کے چہرے پر کرپشن اور وسائل کی بندر بانٹ کے سوراخ بڑھتے جارہے ہیں، ہر سوراخ چھپانے کے لیے اس پر نقش و نگار بنادیے جاتے ہیں۔
اس دکھ سے قطع نظر پاناما کیس کے فیصلے پر غور کیا جائے تو حقیقی صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کیس ختم نہیں ہوا، بلکہ آگے بڑھا ہے۔ فیصلے سے کہانی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس میں ایک سنسنی خیز موڑ آگیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ الف لیلوی داستان کی طرح دراز ہونے والی پاناما لیکس کی کہانی میں نیا موڑ ثابت ہوگا تو بے جا نہیں ہوگا۔
عدالت نے شروع سے آخر تک ثبوتوں کی فراہمی کی بات کی، جس میں دونوں فریقین بہت حد تک ناکام رہے، ایسے موقع پر کوئی جذباتی فیصلہ دینے کے بجائے عدالت نے حق کی بات کی، ثبوتوں کی فراہمی کے لیے مزید وقت دیا گیا، انکوائری ٹیم بنانے کی سفارش کی گئی جو موجودہ صورتحال میں اس نازک مسئلے کا بہترین حل تھا، عدالتوں نے انصاف کا پرچم بلند کیا، عدل کی طرف رہنمائی کی، حق کی بات کی، جس پر عدلیہ لائق تحسین ہے۔
یہ فیصلہ ندرت، انفرادیت اور گہرے مضمرات کا حامل ہے، اس لیے یہ تاریخی فیصلہ ہے اور اس میں کچھ باتیں ایسی ہیں جو صدیوں یاد رکھی جائیں گی، اس فیصلے میں محض الزام کی بنیاد پر کسی کو گھر نہیں بھیجا گیا، خفیہ راستے سے اقتدار میں آنے والوں کے لیے راہ ہموار نہیں کی گئی، جمہوریت کی تذلیل نہیں کی گئی اور نہ ہی بحرانی کیفیت میں فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دی گئی۔ اس فیصلے سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ہر شخص جواب دہ ہے اور ہر شخص سوال کرسکتا ہے، جھوٹ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا، بغیر ثبوت کے الزام کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، یہ فیصلہ احتساب کی کرن ثابت ہوا ہے، اب جو انکوائری کمیشن بن گیا ہے تو اس پر اعتماد کرنا چاہیے، اس کا احترام کرنا چاہیے۔
جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، ایم آئی سمیت تمام تحقیقاتی ادارے شامل ہوں گے، ہر 2 ہفتے بعد بینچ کے سامنے رپورٹ پیش ہوگی، ٹیم 60 روز میں تحقیقات مکمل کرے گی، وزیراعظم اور ان کے صاحبزادوں سے مختلف سوالات پوچھے جائیں گے، کم عمر بیٹوں نے 90ء کی دہائی میں لندن فلیٹس کیسے خریدے، سرمایہ کیسے جدہ، لندن اور قطر پہنچا، گلف اسٹیل مل کیسے بنی، کس طرح فروخت ہوئی، گلف اسٹیل فروخت ہوئی تو واجبات کیسے منتقل ہوئے، حسن نواز نے کیسے ان کمپنیز کو حاصل کیا۔
قطریوں کے فلیٹس میں شیئرز کی شفافیت کیا ہے، قطری شہزادے کا خط آنا حقیقت ہے یا افسانہ، ان کمپنیز کو چلانے کے لیے اربوں روپے کا سرمایہ کہاں سے آیا، نیلسن اور نیسکول کمپنیوں سے فائدہ اٹھانے والے کون ہیں، نواز شریف کو بچوں نے کروڑوں روپے کے تحفے کیسے دیے؟ وغیرہ وغیرہ، ان سب سوالوں کا جواب دینا حکمراں جماعت کے لیے اتنا آسان نہیں ہوگا بلکہ لوہے کے چنے چبوانے کے مترادف ثابت ہوگا۔ یہ سب دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں برسوں کی بدعنوانی کا گند صاف کرنے کے لیے قدرت نے ہمیں ایک موقع فراہم کیا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کے مستقبل کا دارو مدار سات سمندر پار سے اٹھنے والی اس لہر پر ہے، پاناما تاریخ رقم کرنے کا ایک سنہری موقع ہے، اس سے بھی بڑھ کر، اس کے پاس پاکستان کے مستقبل کو ڈھالنے کا موقع ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ شریف خاندان قسمت کے دھنی ہیں، ان کے اہم ترین افراد پاکستان کی ہنگامہ خیز سیاسی تاریخ کے کامیاب ترین سیاستدان ثابت ہوئے، ان شاندار افراد نے کبھی بدقسمتی کا منہ نہیں دیکھا، نہ ہی حالات کے جبر کا شکار ہوئے، فوجی آمر کی انگلی پکڑ کر مسکراتے ہوئے سیاسی عہدوں پر فائز ہوئے، اقتدار ملتے ہی ان کے ہاتھ پارس پتھر لگ گیا، دیکھتے ہی دیکھتے انتہائی متمول سرمایہ دار بن گئے۔ مشرف کے شب خون کے بعد ان کے خلاف بہت سی تحقیقات شروع ہوئیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتیں شریف برادران اپنے صحرائی دوستوں کا ہاتھ تھام کر یہ جا وہ جا۔
اس کے بعد جمہوریت کی واپسی ہوئی تو یہ دوبارہ اقتدار کے مسند نشین ٹھہرے، پی پی نے اپنے دور حکومت میں شریف برادران کے کے خلاف کیسز نہ کھولے، جب کہ شریف برادران بھی دوسرے فریق کی الف لیلیٰ سناتے رہے، شریف برادران نے عقل مندی سے کلیئرنس کے لیے عدالتوں کا رخ کیا، عدالتوں نے بھی مضبوط استغاثہ کی غیر موجودگی میں انھیں ریلیف دیدیا۔ الغرض شریف برادران کی راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی، ان کے خلاف عدالت میں بھی کچھ ثابت نہیں ہوسکا، قانونی اصطلاح میں وہ دودھ کے دھلے نکلے، حتیٰ کہ اصغر خان کیس بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا۔ ماڈل ٹاؤن کیس بھی سرد خانے کی نذر ہوگیا، لیکن اچانک جیسے لہر پلٹا کھاجاتی ہے، پاناما کیس قسمت کے کوڑے کی طرح لہرایا، قہر یہ ہے کہ اب شریف فیملی بارگین بھی نہیں کرسکتی، عدلیہ ماضی کو دفن کرتے ہوئے آزاد فضا میں سانس لے رہی ہے۔
بعض اہل قلم کی رائے ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں قیام سے لے کر اب تک کسی کمیشن، ٹربیونل یا انویسٹی گیشن نے کوئی بامقصد نتیجہ نہیں نکالا، ان کے ذریعے یا تو صرف کسی ایشو سے توجہ ہٹائی گئی یا اس کی باعزت تدفین کی گئی، چنانچہ اب قائم ہونے والی جے آئی ٹی سے کسی معجزے کی امید کیسے رکھی جائے؟ ان کی خدمت میں فقط اتنی سے گزارش ہے کہ جو ماضی میں کبھی نہیں ہوا تو کیا آیندہ بھی وہ کبھی نہیں ہوگا، نہیں جناب نہیں، آج کا پاکستان ماضی کا پاکستان نہیں، آج پوری قوم کرپشن کو نمبر ون مسئلہ سمجھتی اور اس سے نجات چاہتی ہے اور ماضی کی طرح اب پاناما کیس سرد خانے کی نذر کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔
حرف آخر یہی ہے کہ یہ سب کچھ بدلنا ہوگا، دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتسابی عمل کی طرف پیشرفت کرنا ہوگی، کرپشن، چھپی ہوئی دولت اور اہل اقتدار و اہل ثروت خاندانوں کے ٹیکس چوری پر بریک لگنے کے دن آگئے ہیں، حکومت کرنا سیاستدانوں کا کام ہے، فوج کو ادھر نہیں آنا چاہیے، البتہ ملک بچانے، سنوارنے کے لیے ہر ممکن حد تک جانا ضروری نہیں بلکہ لازمی ہوگیا ہے، ایک موقع قوم کے ہاتھ آیا ہے، اسے گنوانا نہیں چاہیے۔